تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-02-2018

ایک تھپڑ کی گونج

اگر کبھی انسان خود پر غور کرے اور اُن لوگوں پر‘ جن سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، تو بہت عجیب انکشافات ہوتے ہیں۔ دن رات کی ہماری تمام تر جدوجہد، ہماری پوری زندگی کسی ایک مرکزی نکتے کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔ اگر تو آپ طالبعلم ہیں تو امتحان میں دوسروں سے زیادہ نمبر، اگر آپ دکاندار ہیں تو ساتھ والے دکاندار سے زیادہ فروخت، اگر آپ نوکری پیشہ ہیں تو اپنے کسی چھوٹے سے کاروبار کی خواہش۔ اگر آپ کاروبار چلا رہے ہیں تو اسے بڑھانے اور پھیلانے کی خواہش۔ اگر آپ بڑا کاروبار رکھتے ہیں تو معیشت کے دوسرے شعبوں میں اتنے ہی بڑے کاروبار تشکیل دینے کی خواہش۔ اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو آپ کی ساری تگ و تاز اپنے افسر کو خوش رکھنے کے گرد گھومتی ہے۔ اگر وہ ناراض ہو جائے تو آپ پہ بجلی گر پڑتی ہے۔ اگر آپ کے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو آپ کے دل میں درد ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح انسان کی ساری زندگی خوف اور خواہش کے درمیان گزر جاتی ہے۔ کوئی بھی اس سے مبرا نہیں؛ حتیٰ کہ بادشاہ بھی للچائی ہوئی نظروں سے ہمسایہ ریاستوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندگی کو خواہش کی بجائے ضرورت میں بسر کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوتی ہے اور خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ یہ خواہش ہی تو ہے، جو ہم دانشوروں کو اہلِ سیاست کے در کا بھکاری بنا دیتی ہے۔
رہائی تب ملتی ہے، جب عمر بڑھنے کے ساتھ ایک دن انسان کی صحت جواب دے جاتی ہے۔ اس کی اولاد آگے بڑھ کر معاملات سنبھال لیتی ہے۔ اسے ریٹائرمنٹ دے دی جاتی ہے۔ وہ خمیدہ کمر کے ساتھ گھر کے سامنے بیٹھ کر دھوپ سینکتا رہتا ہے۔ جب ہر طر ف سے وہ فارغ کر دیا جاتا ہے، جب رفع حاجت بھی ایک مشکل Task بن جاتی ہے‘ تو پھر اسے خدا کی یاد آتی ہے۔ اب وہ موت کے خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں خوف سے خواہش اور خواہش سے پھر خوف کے درمیان اس کی زندگی تمام ہو جاتی ہے۔
انسانی خواہشات کے مجموعے، نفس کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ کے لوگوں سے، اپنے بھائیوں، دوستوں، رشتے داروں اور ہمسایوں سے مسلسل اپنا موازنہ کرتا رہتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی گاڑی یا پلاٹ خریدے تو یہ بھی فوراً اس کی خواہش کرنے لگتا ہے۔ انسان اگر ناجائز طور پر کوئی جائیداد بناتا ہے تو پھر ہر لمحہ وہ ایک خوف کا شکار رہتا ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان، ارب پتی لوگ اسی خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ گناہ اور جرم کے ساتھ یوں بھی خوف لازم و ملزوم ہے۔ مجموعی طور پر انسان کی پوری زندگی دولت میں اضافے کی خواہش اور کوشش میں بسر ہوتی ہے۔ جو زیادہ دولت کما لیتے ہیں، وہ پھر سیاست میں قدم رکھتے ہیں۔ اقتدار تک پہنچنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تذلیل کرتے ہوئے، اپنے آپ کو انتقام کے سپرد کر دیتے ہیں۔ انتقام کا یہ جذبہ ان کی زندگی کھا جاتا ہے۔ اس وقت ان کی سب سے بڑی خواہش اپنے حریف کو تباہ و برباد کرنا ہوتی ہے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت انہیں چکانی پڑے۔ دولت کمانے کی خواہش تو ایسی ہے کہ وہ انسان کو اس اعتدال سے مکمل طور پر محروم کر دیتی ہے، ایک اچھی زندگی جس کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جس میں انسان اپنے جسم و دماغ تک کو بھول جاتا ہے۔
ایسے میں انسان اگرکسی آزاد شخص کو دیکھے تو اس پہ رشک آنے لگتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو غم اور خوف سے آزاد ہو۔ جو کھل کر اپنے دل کی بات کہہ سکتا ہو۔ اسلام آباد میں مقیم اپنی بیوی اور بیٹی سے بہت دور، کشمیر کے کارزار میں زندگی بسر کرنے والے یٰسین ملک اور فلسطین میں اپنی جان ہتھیلی پہ لیے پھرنے والی عہد تمیمی‘ ایسی ہی شخصیات ہیں۔ کبھی کبھی میں حیرت سے سوچتا ہوں کہ جب انسان کے سامنے کوئی محفوظ مستقبل نہ ہو تو پھر وہ کیونکر اس قدر نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ آپ کی سرزمین پہ اگر دشمن کا قبضہ ہے، تو پھر کیونکر آپ شادی کرتے اور اپنی اولاد کی پرورش کر سکتے ہیں۔ ایسی اولاد، ہرلمحہ جس کی زندگی خطرے میں ہو۔ جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ دشمن کے ظلم و تشدد کا سامنا کرتے کرتے، جلد ہی آپ کے جسم و جان آپ کا ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔ اس کے باوجود آپ شادی کرتے اور بچّے پیدا کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہ لوگ بہت خسارے میں ہیں لیکن جب آپ قریب سے انہیں دیکھیں، ان کا طرزِ زندگی، ان کا طرزِ گفتگو تو پھر انکشاف ہوتا ہے کہ یہی لوگ تو آزاد ہیں۔ خواہش اور خوف سے آزاد اور ہم، گوشۂ عافیت میں چھوٹی چھوٹی مصیبتوں پر واویلا کرنے والے، دراصل غلام ہیں۔ اپنی خواہش اور اپنے خوف کے غلام۔
16 سالہ عہد تمیمی اسرائیل میں قید ہے۔ ایک ایسی سرزمین میں وہ پیدا ہوئی، جس پہ دشمن کا قبضہ ہے۔ بار بار ان کے گھروں پہ یہودی فوجی یلغار کرتے ہیں۔ تلاشی لیتے اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ الجھنے والے جوانوں کو اکثر اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں۔ عہد تمیمی کئی برس قبل عالمی سطح پر مشہور ہوئی۔ وہ بدتمیزی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں سے الجھ جاتی، انہیں دھکے دیتی اور مکے رسید کرتی ہے۔ 19 دسمبر کو جب اس کے ایک کزن کے چہرے پر اسرائیلی فوجی نے گولی ماری اور جب اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا تو عہد تمیمی غضبناک ہو کر باہر نکلی۔ اپنے گھر کے سامنے تعینات اسرائیلی فوجی کو اس نے دھکے دئیے اور برا بھلا کہا۔ اس نے یہودی فوجی کو ٹانگ ماری اور جب وہ دہرا ہوا تو ایک بھرپور تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔
یہ وہ تھپڑ تھا، جس کی گونج پورے کرّۂ ارض پہ سنی گئی۔ عالمی نشریاتی اداروں نے یہ ویڈیو نشر کی۔ صہیونی میڈیا اپنے سپاہی کی اس بے عزتی پر چیخنے لگا۔ عہد تمیمی کو ڈھونڈکر گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں ہر دفعہ پہ وہ مسکراتے ہوئے پیش ہوتی ہے۔ دنیا کی انتہائی خوفناک جنگی مشینری سے لیس یہودی، جن کی پشت پر تمام عیسائی دنیا ڈٹ کر کھڑی ہے، اس نوجوان لڑکی کو خوفزدہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہودی اسے روتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خوفزدہ اور پریشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر دفعہ وہ ایک ہیروئن کی طرح عدالت میں پیش ہوتی ہے۔ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو مجھے اس پہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں، کاش اس قدر آزاد زندگی مجھے بھی نصیب ہوتی۔ جہاںکوئی بھی مجھے خوفزدہ نہ کر سکتا۔
یہ تھپڑ ایک انسان نے، ایک مسلمان نے دو ٹانگوں والے ایک جانور کو ایسا رسید کیا ہے کہ کرّۂ ارض پہ تو اس کی گونج سنی گئی‘ زمین سے باہر، آسمان کی حدود میں بھی ہر کہیں اس کا ذکر ہوا ہو گا۔ پھر آسمانوں سے اوپر، عرش کے گرد تعینات فرشتوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہو گا۔ یہ تھپڑ ایک انسان نہیں بلکہ نفسِ انسان کے چہرے پر رسید ہوا، شیطان کے چہرے پر رسید ہوا۔ اس تھپڑ نے شیطان کو سمجھا دیا ہوگا کہ خلافت انسان کو کیوں سونپی گئی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved