تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     12-02-2018

وطن کے داغی بھارت کے راگی

سوال بہت سیدھا تھا جواب بڑا سادہ سا۔ سوال چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اٹھایا۔ پھر جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے اپنے انداز میں اسے نئے رخ دیئے۔ مجھ سے پہلے دوسرے وکیل حضرات کی بحث کے دوران بھی یہ سوال اُٹھا۔ سوال تھا، آئینِ پاکستان مجریہ 1973ء کے آرٹیکل نمبر5 کی تشریح و تفہیم کا۔ بہتر ہو گا آگے بڑھنے سے پہلے آرٹیکل 5 کی زبان اور منشاء کو دیکھ لیا جائے۔
Article 5 :Loyalty to State and obedience to Constitution and law:
(1) loyalty to state is the basic duty of every citizen.
(2) obedience to Constitution and law is the (inviolable)obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within pakistan.
ملک کی آخری عدالت کے بینچ نمبر 1میں بحث تھی کہ آئینی نااہلی تاحیات ہے یا نہیں اور آرٹیکل 62کا ذیلی آرٹیکل F(1) کہاں کھڑا ہے۔ تینوں فاضل جج حضرات نے پوری درد مندی سے ضمنی سوال اٹھائے۔ سب کو تفصیل اور تسلی سے سنا‘ جس کی وجہ واضح تھی‘ ملکی قیادت کے لئے بے ایمان اور جھوٹا ہونے کا جرم درگزر کر دیا جائے۔ قومی خزانہ لُوٹ کر اربوں کھربوں ڈکارنے والوں کو ''لائسنس ٹو لُوٹ‘‘ دیا جائے۔ آرٹیکل 62,63 کی تشریح میں کیلسن کے نظریہ ضرورت کو پھر سے زندہ کر دیا جائے‘ جسے مولوی تمیزالدین کیسں سے ظفر علی شاہ کے مقدمے تک، بار بار ریاستی ضرورت کے نام پر دہرایا گیا۔ دوسری چوائس کا دروازہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے فیصلے سے کھلا ہے‘ جس کے ذریعے وطنِ عزیز کی 70 سالہ تاریخ میں اس مُردار نظریے کو پھر زندگی عطا کرنے سے نہ صرف انکار کیا گیا‘ بلکہ اُسے تاریخ کے اندھے کنویں کے حوالے کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ آیا۔ 
میں نے لفظوں کا قیمہ کئے بغیر ریاست کی نئی تشریح پیش کی۔ اپنی مرضی کی نہیں‘ بلکہ آئین کے اندر درج مختلف آرٹیکلز کو ملا کر۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں ریاست کے تین ستون ہیں۔ آرٹیکل 50 میں پہلا ستون پارلیمنٹ ہے‘ جبکہ آرٹیکل 90 میں اس آئینی نظام کا دوسرا ستون ایگزیکٹو اتھارٹی قرار پائی۔ نظام ریاست کا تیسرا ستون آئین کے آرٹیکل 175-A نے عدلیہ کو قرار دے رکھا ہے۔ اسی آئین میں اختیارات کی دوسری مثلث بھی موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں مسلح افواج‘ پھر سروس آف پاکستان اور پھر سپریم کورٹ سے سول جج/ مجسٹریٹ تک عدلیہ۔ لیکن اس ریاستی نظام کو آئین کا ایک اور آرٹیکل عدل کے تابع کر دیتا ہے، وہ ہے آرٹیکل 190‘ جس کے تحت ملک کی ساری ایگزیکٹو اتھارٹیز، حکمران اور مسلح افواج۔ ساتھ ساتھ سارا نظامِ عدل بشمول تمام ٹربیونلز اس بات کا پابند ہے کہ وہ نہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام احکامات کی مکمل پاسداری کریں بلکہ سپریم کورٹ کی مدد کے لئے لازمی طور پر حرکت میں آئیں۔ آئینی نظام کے اس تناظر میں آئین کے آرٹیکل نمبر204 کو پڑھا جائے تو دیوار پر لکھا نظر آئے گا کہ نااہل شریف، گاڈ فادر نمبر2، اور دستور کے آرٹیکل 91 کی منشاء کے مطابق بنائی گئی وفاقی کابینہ دستور پاکستان کی نظر میں داغی ہیں۔ وزیر اعظم نے آئین کے شیڈول نمبر3 کے تحت حلف اُٹھا رکھا ہے‘ جس میں اس بے زارِ کوہسار مردِ ایل این جی نے دایاں ہاتھ کھڑا کرکے قوم کے سامنے دو قسمیں بھی کھائیں۔ پہلی قسم کہ آئین کا تحفظ کروں گا، دوسری کہ بغیر کسی خوف و لالچ اور فیور کے آئین کے مطابق وزیر اعظم کی ڈیوٹی سرانجام دوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسولﷺ کی قسمیں کھا کر اُٹھائے گئے حلف کو وزیر اعظم نے ان لفظوں میں نبھایا‘ سب سے پہلے کہا: وزیر اعظم میں نہیں بلکہ اصلی وزیر اعظم تو نااہل شریف ہے۔ ساتھ ہی دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا اور گاڈ فادر سے وعدہ کیا کہ میں اس کرسی پر نہیں بیٹھوں گا‘ جو وزیر اعظم ہائوس میں آپ نے رکھوائی۔ آپ کی پسندیدہ میز کو ہاتھ تک نہیں لگائوں گا‘ نہ ہی پرائم منسٹر ہائوس کی رہائشی انیکسی میں آپ کے بیڈ روم کا دروازہ کھول کر آپ کی حسین یادوں میں مداخلت کروں گا۔ انہوں نے حلف نبھانے کے لئے دوسرا اعلان کیا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ کوڑے دان میں جائے گا۔ تیسرا فیصلہ سنایا: ہم ماورائے عدالت بریانی خور پٹواری برانڈ جلسے سے فیصلہ کروائیں گے۔ لیکن عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے۔ ذرا سوچئے! جو ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک نظامِ عدل پر اس طرح سے حملہ آور ہو اس کا ٹھکانہ کون سا ہے؟ فیصلہ خود کر لیجئے۔ پی ایم ہائوس کے اندر یا اڈیالہ جیل کے احاطے میں۔ 'کیوں نکالا‘ کا منتر پڑھنے والا کشمیر کی یک جہتی کے دن آزاد کشمیر پہنچا‘ جہاں وہ داغی‘ آزاد عدلیہ پر تو برسا لیکن کشمیری مسلمانوں کے قاتلِ اعلیٰ مُودی کا نام تک نہیں لیا۔ اس طرح ریاست کے داغی نے بھارت کے راگی کا کردار ادا کیا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ پر کشمیر کی آزادی کے بیس کیمپ میں کھڑے ہو کر لفظی گولہ باری کی۔ ظاہر ہے پاکستان یا آزاد کشمیر میں اس پر کوئی خوش نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ مودی سے زیادہ اس بیان پر اور کون خوش ہو گا۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک سرکاری سرپرستی میں نظامِ عدل کے خلاف مسلسل یاوہ گوئی کا ذیلی نوٹس لیا ہے۔ لیکن ریاست کے چار داغی ابھی گرفت میں نہیں آ سکے۔ پہلا سکرپٹ لکھنے والا‘ دوسرا فنانسر‘ تیسرا ہدایت کار‘ اور چوتھا اس بدنامِ زمانہ کہانی کے ٹوٹے چلانے والا پیش کار یا نمائش کنندہ۔ 
اس سب کے باوجود لگتا ہے کہ وطن کے داغیوں اور بھارت کے راگیوں کا دل ابھی نہیں بھرا۔ قارئینِ وکالت نامہ کو یاد ہو گا کہ میں نے کچھ ماہ پہلے اسی صفحے پر ایک زیرِ تجویز قانون سازی کا اشارہ دیا تھا۔ اب سن لیجئے کہ اس قانون کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے تیار ہے۔ جس طرح آناً فاناً ختمِ نبوتﷺ کا قانون تبدیل کیا گیا۔ جس انداز میں سپریم کورٹ کے نااہل کردہ گاڈ فادر کو اہل کرنے کا قانون پاس کروایا گیا۔ بالکل اُسی ایکشن کو ری پلے کرنے کے لیے ریاست کے داغی پوری طرح تیار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پلک جھپکنے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کی عمر میں کمی کا قانون پاس کر ڈالیں گے۔ ایسی قانون سازی کا مقصد سپریم کورٹ کے 3 اعلیٰ ترین جج حضرات کو قبل از وقت ریٹائر کرنے کے مذموم پلان پر عمل درآمدہے۔ 
اس ٹیلر میڈ قانون کے ذریعے سسلین مافیا اپنے داغِ ندامت مٹانا چاہتا ہے۔ آپ اسے سادہ لفظوں میں سپریم کورٹ پر آلِ شریف کا دوسرا حملہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا قانون جس کا مقصد ایک مخصوص گروہ کو فائدہ پہچانا ہو‘ اسے سپریم کورٹ لارجر بینچ میں پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ یہ قومی مفاہمت کا آرڈیننس مجریہ 2007ء تھا‘ جسے ڈاکٹر مبشر حسن بنام فیڈریشن آف پاکستان نامی مقدمے میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ وطن کے داغی ٹولے کے علاوہ صرف بھارت کا راگی ٹولہ آزاد عدلیہ پر ایسا خود کش حملہ کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے‘ ملک کے جیورسٹس، وکلا اور بار ایسوسی ایشنز کے سامنے ایسے جمہوری نازی ازم کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی۔ 
شرم تم کو مگر نہیں آتی...

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved