سب چھوٹے بڑے اچھے برے برادران اسلام مطلع رہیں کہ میں نے اقتدار جاوید کو استاد کر لیا ہے کیونکہ اس نے کل والے میرے کالم میں چھپنے والی غزل میں دو تین غلطیاں نکال دی ہیں یہی کچھ مانچسٹر سے ضمیر طالب اور ان کی معرفت جلیل عالی نے بھی کیا ہے لیکن انہیں استاد اس لئے نہیں کر سکتا کہ وہ کوسوں دور بیٹھے ہیں اگرچہ دل سے کچھ زیادہ دوری پر نہیں ہیں۔ غلطیاں ملا جلا کر تین بنتی ہیں جو میں نے خود درست تو کر لی ہیں اس لئے اقتدار جاوید کی اس میں استادی کم تھی اور چغل خوری زیادہ۔ دو شعروں میں وزن کی کمی بیشی ہوگئی جس کیلئے ایک جواز بلکہ دلیل تو یہ ہوسکتی تھی کہ ایک بار استاد امام دین گجراتی نے کچھ اس طرح سے شعر پڑھا ؎
یہ سڑک
سیالکوٹ سے ملتان کو جاتی ہے مام دینا
سننے والے نے اعتراض کیا کہ پہلا مصرعہ دوسرے کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے تو استاد بولے ''اس میں سڑک کی لمبائی کو بھی شامل کرونا‘‘۔
بہرحال یہ غلطیاں دیکھ کر اپنے بندہ بشر ہونے کا یقین ہوا‘ نیز جوں جوں عمر گزرتی جاتی ہے مجھے مدد گاروں کی ضرورت پڑتی جاتی ہے جیسے کہ رفعت ناہید میری مخبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں چنانچہ وہ تینوں شعر اس طرح پڑھے جائیں:
سفر یہ ایسا ہے کوئی منزل نہیں کسی کی
کہ میں اکیلا نہیں ہوا ساتھ چل رہی ہے
یہ شعر کا جھٹپٹا رہے گا ہی‘ دل میں جب تک
تری محبت کی موم بتی سی جل رہی ہے
ظفر ہے یہ عشق ایک بے وقت کی مصیبت
جو اس کے روکے نہ میرے کہنے سے ٹل رہی ہے
اور اب تلافی ٔ مافات کے طور پر انٹرنیٹ سے دستیاب غلطیوں سے پاک شاعری:
میں پریا کی نار جسے ہر پانی راس نہیں
تُو ٹھنڈا میٹھا ہے لیکن مجھ کو پیاس نہیں
یوں سنتے ہیں جیسے خوابوں کی آواز ہو تم
یوں بیٹھے ہیں بیٹھے ہونے کا احساس نہیں
کوئی جان سے پیارا رشتہ جب آزار بنے
بس تھوڑا سا ناخن کاٹا جائے، ماس نہیں
ہمت ہے تو ہجرت کر اس دنیا داری سے
گھر کو جنگل کر دینا کوئی بن باس نہیں
ہر خوشبو کو ان پر ضائع ہوتے دیکھا ہے
جن کی قسمت میں اپنی مٹی کی باس نہیں
اس لفظی سیرابی کو بے بس کی چیخ سمجھ
کچھ پیاسوں کو کہنا پڑ جاتا ہے‘ پیاس نہیں
(حمیدہ شاہین)
مجھ سے اب بیزار مری بیزاری ہو رہی ہے
کیا مجھ میں کچھ ہونے کی تیاری ہو رہی ہے
کیسے بچائوں گا میں تجھ کو خانہ جنگی سے
میرے اپنے اندر مارا ماری ہو رہی ہے
بننے لگی ہیں لہریں سی اب میری ریت پہ بھی
صحرا کو بھی دریا کی بیماری ہو رہی ہے
اس دنیا کا سب سے قدیم عزا خانہ ہوں میں
روز اول سے مجھ میں گریہ وزاری ہو رہی ہے
(علی ارمان)
کتنی زرخیر ہے نفرت کیلئے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
تُو کسی اور دوا سے مرا کرتاہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
(ثناء اللہ ظہیر)
پھول کاڑ ہے پھر ان کو پانی دیا
میں نے تکیے پہ باغبانی کی
کس قدر پرسکون ہے دریا
یار تصویر کھینچ پانی کی
ایک کردار کو نکالنے سے
چاشنی بڑھ گئی کہانی کی
(امجد نذیر‘ میلسی)
کسی خواہش کسی لالچ کسی رغبت کے بغیر
رہ رہا ہوں میں ترے ساتھ محبت کے بغیر
عشق میں دخل نہیں کوئی ارادے کا ضمیر
یہ نماز ایسی ہے جو ہوتی ہے نیت کے بغیر
اب خبر تک نہیں ہوتی اس کی
شہر سے ہو کے چلا جاتا ہوں
جاگتے میں جہاں جا سکتا نہیں
میں وہاں سو کے چلا جاتا ہوں
(ضمیر طالب)
کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے
اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے
(عمیر نجمی)
یہ پرندے نہیں بندر ہیں درختوں پہ نوید
یہ قبیلہ تو کوئی شاخ نہیں چھوڑے گا
(نوید ملک)
آج کا مقطع
چمن سے جا بھی چکا ہوں‘ ظفر مگر اب تک
خراجِ نالہ و نغمہ سرائی دے رہا ہوں