تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-02-2018

زینب‘عاصمہ۔.۔ لیکن تنزیلہ‘ شازیہ؟

صدشکریہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا جس کی شبانہ روز کوششوں نے بابا بلھے شاہ کی نگری قصور کی زینب شہید اور مردان کی عاصمہ شہید کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے قانون کی سنگلاخ کوٹھڑیوں میں مقید کر ارکھا ہے جہاں پر بند یہ درندے یقینا ہر لمحہ عبرت ناک موت کے تصور میں دن رات گھلے جا رہے ہیں۔ قصور اور مردان کی ان دو ننھی پریوں کا درد ہر دم اپنے سینے میں لئے جس طرح میاں ثاقب نثار نے یہ نوٹس لئے اس کا اجر ان کروڑ وں دعائوں کی صورت میں اُن کو اپنے رب کریم کے دربار سے ملے گا جو اس قوم کی ہر ماں ہر باپ اور ہر بیٹی اُن کیلئے مانگ رہی ہے لیکن کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ماڈل ٹائون کی سڑک پر تنزیلہ اور شازیہ کی خون کے دریا میں ڈوبی ہوئی لاشیں بھی پڑی ہوئی تھیں کیا وہ بے کس لاشیں کبھی کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں گی؟۔ کیا آسمان کی جانب منہ کھولے فریاد کرتا ہوا تنزیلہ اور شازیہ کا چہرہ اپنے اندر پانچ ماہ کی ایک ننھی روح کو بسائے ہوئے اُن کے گولیوں سے ادھڑے ہوئے جسم کی جانب بھی کسی کا دھیان جائے گا؟۔لگتا ہے کہ ان دو خواتین سمیت ایک ننھی روح کی درد ناک موت کی چیخیں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آ جاتی ہیں ورنہ اس پر ضرور کوئی نوٹس لے لیا جاتا یقینا ا بھی تک سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کی مضبوط دیواروں سے گزر کر ان کے اندر بیٹھے ہوئے ججوں کے چیمبرز تک نہیںپہنچیں ۔۔۔۔ورنہ وہ ضرور اس پر توجہ دیتے کوئی نوٹس لیتے اور ا س پر اب تک کوئی کارروائی کرتے۔ 
زینب شہید ، عاصمہ شہید اور اب عاصمہ رانی شہید کے بہیمانہ قتل پر سپریم کورٹ کے لئے جانے والے سو موٹو نوٹس پر جس تیزی سے کارروائی ہوئی ہے اور اس کیلئے اس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کروڑوں لوگوں کی جانب سے سپریم کورٹ کو جو دعائیں مل رہی ہیں ان سب کیلئے اس سے بڑا دینی اور دنیاوی اثاثہ کوئی اور نہیں ہو سکتا بے شک زینب اور عاصمہ پر لئے جانے والے نوٹسز میں دو سے تین جج تھے لیکن یہ دعائیں جناب چیف جسٹس ثاقب نثار صرف آپ کیلئے یا بنچ کے تین اراکین تک نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ہر جج کیلئے ہیں ۔ 
بحیثیت ایک باپ کے قصورکی زینب اور مردان کی ننھی منی پری عاصمہ کا درد اپنے کلیجے میں محسوس کرتے ہوئے جنا ب چیف جسٹس آپ نے ان دونوں بچیوں کے دردناک اور بہیمانہ قتل پر سو موٹو نوٹس لئے لیکن۔۔۔۔رحمت با با آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ماڈل ٹائون منہاج القرآن کے دروازے پر گولیوں کی بوچھاڑوں سے ذبح ہونے والی تنزیلہ اور شازیہ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ آخر ان دو بیٹیوں سے ایسا کیاکوئی سنگین قصور سر زد ہواکہ اب تک کوئی عدالت ان کی درد ناک موت کا سو موٹو نوٹس لینے کو تیار نہیں ہو ئی۔
مردان یونیورسٹی میں مشال کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا اور عدلیہ کی بھر پور مداخلت اور دلچسپی سے مشال کے قاتلوں کو ایک سال کے اندر اندر انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت اور تیس سے زائد افراد کو مختلف میعاد کی قید کی سزائیں دے دی جاتی ہیں لیکن جہاں دو خواتین اور ایک پانچ ماہ کی دنیا میں آنے کی منتظر روح قتل کر دی جاتی ہیں‘ جہاں78 سے زائد لوگوں کو سیدھی گولیاں برساتے ہوئے جان سے مار دینے کی نیت سے شدید زخمی کیا جاتا ہے جہاں پندرہ سے زائد افراد عمر بھر کیلئے معذور ہو گئے ہیں۔۔۔۔آج تین برس کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی متوجہ نہیں ہو رہا؟۔نقیب اﷲ کے سابقہ ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوںقتل کئے جانے پر بھر پور نوٹس لے لیا گیا جس کا سب خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن جناب والا بڑے ادب سے عرض ہے کہ ۔۔۔ پنجاب کے فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں ماڈل ٹائون لاہور میں جو دو بیٹیاں قتل کر دی گئیں جن میں ایک حاملہ ماں اور اس کے بدن میں پرورش پانے والی ننھی روح شامل تھی جب78 لوگوں کو با قاعدہ نشانے لیتے ہوئے ٹارگٹ کرتے ہوئے سیدھی گولیاں ماری گئیں وہ بھی تو اس ملک کے لوگ تھے ۔۔۔کیا ان کے قاتلوں پر ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا؟۔ اگر ایسا ہے تو ہماری تصحیح فرما دی جائے تاکہ آئندہ سب کو خبر ہو جائے پنجاب کے فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں مارے جانے والے کسی بھی پاکستانی کے قتل پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی یا اس کی بر بریت کا شکار ہونے والوں کے حق میں کچھ کہنے اور لکھنے کی اجا زت نہیں ہے۔ 
جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ کو اگر ماڈل ٹائون کے قتل عام کی کچھ تفصیل چاہئے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے مقاصد کو سامنے رکھئے‘ اس کیلئے طاقتور سول خفیہ ایجنسی کی دی جانے والی رپورٹس منگوائیں جن سے معلوم ہو جائے گا کہ طاہر القادری کیا کرنے آ رہے تھے؟۔کیا وہ کوئی دھرنا دینے کا پروگرام بنا رہے تھے؟۔کیا وہ کوئی تحریک چلانے آ رہے تھے؟۔ اور ان خفیہ رپورٹس سے مسلم لیگ نواز کے طاقتور وزراء بھی واقف ہوں گے ان کو مرکز اور پنجاب نے اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا گیا ہو گا کہ قادری صاحب ہماری حکومت ختم کرنے کیلئے آ رہے ہیں۔ تو اس تنا ظر میں سب سے پہلے مرکزی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کی تقریر کے وہ سکرپٹ ملاحظہ کر لیں جس میں وہ انتہائی غصے اور نفرت آمیز لہجے میں ڈاکٹر طاہر القادری کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہہ رہے تھے '' شکر کرو میں اس ملک کا وزیر داخلہ نہیں ہوں ورنہ دھرنوں کیلئے پاکستان آنے پر تمہارا وہ سواگت کرتا کہ تم ہمیشہ یاد رکھتے لیکن افسوس کہ تمہاری قسمت اچھی ہے جو میں اس وقت داخلہ امور کا وزیر نہیں ہوں‘‘۔
کس قدر مضحکہ خیز ی ہے کہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون میں زخمی ہونے والوں کی گاڑیوں کو پولیس کی نگرانی میں تہس نہس کرنے والے گلو بٹ کو تو عدالت نے چند ماہ بعد ہی سزا سنا دی جس پر وہ عرصہ ہوا جیل سے رہا ہو کر گھر بھی واپس آ چکا ہے لیکن جس پولیس کی نگرانی میں گاڑیوں کی صورت میں اس ملک کے شہریوں کے مال و متاع کو بر باد کیا گیا جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی عمر بھر کی کمائی سے خریدی جانے والی گاڑیاں توڑ پھوڑ کر رکھ دی گئیں انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں؟۔ اگر اس ملک میں قانون سب کے لئے برابر ہوتا تو کیا یہ ممکن ہے کہ جو پولیس سکواڈ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت پر تعینات تھا ان کی گاڑیاں ان کی نگرانی میں ہی تباہ بر باد کی گئیں اور انہیں گولیوں سے بھونا گیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے منہاج القرآن آنے والے وہاں موجو دلوگوں کے بارے میں حکمرانوں کی کیا ہدایات تھیں؟۔ رائے ونڈ سے کس قسم کا حکم نامہ جاری کیا جا چکا تھا؟۔۔۔ ان کا مقصد وہاں موجود انسانوں کو تو عبرتناک سبق سکھانا ہی تھا ساتھ ہی قادری کے در پر آنے والوں کی گاڑیوں کو بھی تباہ و برباد کرناتھا۔کیا سب نے ٹی وی چینلز پر تمام دن چلنے والی ویڈیوز میں نہیں دیکھا کہ اسی گلو بٹ کو پولیس کی وردی پہنے ہوئے ایک ایس پی گاڑیوں کو تہس نہس کرنے پر گلے سے لگاتے ہوئے شابا ش دے رہا تھا؟۔ مکمل ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ ماڈل ٹائون سی آئی اے دفتر میں اس وقت ایک باریش ڈی ایس پی( آج وہ ایس پی بن چکے ہیں) نے اسی گلو بٹ کو انعام کے طور پر پانچ ہزار روپے بھی دیئے تھے۔۔۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved