ایک سوال میرے دوست نعمان احمد نے کیا: کائنات بنانے سے پہلے اور کرّئہ ارض بنانے سے پہلے خدا کس زبان میں فرشتوں سے کلام کیا کرتا؟ کیا عربی میں ؟ سرکارِ دوعالمؐ سے پہلے دوسرے پیغمبروں پر تو عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی کتابیں نازل ہوئیں۔
جیسے جیسے اس موضوع پر انسان سوچتا جائے، ویسے ویسے وہ حیرت میں گم ہو تا چلا جاتا ہے ۔ کس قدر گہرائی میں سوچیں ، اتنے ہی مزید سوالات جنم لیتے ہیں ۔ زبان کیا ہے ؟ زبان بہت حیرت کی چیز ہے۔ ایک شخص اپنے ذہن میں پید اہونے والے خیالات کو دوسرے تک پہنچاتا ہے ۔ الفاظ یعنی آواز کی صورت میں ۔ آواز نہ ہو تو اشاروں کی صورت میں ۔ اشارے نہ ہوں تو بدن بولی کی صورت میں ۔ ایک شخص اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو ، چاہے وہ احکامات ہوں یا درخواست ، دوسرے تک پہنچا دیتا ہے ۔ مختلف جانداروں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور مخالف کو ان سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف آوازیں نکالی جاتی ہیں ۔ انسان کتے ، بھیڑیے، شیر اور ڈولفن جیسے جانداروں کی آوازیں گن چکا ہے ۔ ان میں بدن بولی بھی بہت اہم ہے ۔ بھیڑیوں کے غول میں ایک سردار ہوتا ہے ۔ اسے 'الفا میل ‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ سب سے طاقتور ہوتاہے ۔ باقی بھیڑیے اس کے سامنے اپنی بدن بولی کے ذریعے اپنی کمتری اور ماتحتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ جب وہ اس الفا میل کے سامنے آتے ہیں تو اپنے سر اور دم کو جھکا کے رکھتے ہیں ۔ ایسی آوازیں نکالتے ہیں ، جن سے ان کی کمتری ظاہر ہوتی ہے ۔ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو سردار بھیڑیا اس پہ پل پڑتا ہے ۔ اس لیے کہ اس کی جبلت بتاتی ہے کہ اس بھیڑیے کا دماغ درست نہ کیا گیا تو پھر سرداری خطرے میں ہے ۔ گروہ کے سب بھیڑیے سردار کا ساتھ دیتے ہیں۔ڈولفنز میں ہر ڈولفن کی سیٹی کی طرح کی ایک مختلف آواز ہوتی ہے ۔ جب ان میں سے کوئی دوسروں سے بچھڑ جائے تو وہ ایک آواز نکالتی ہے ، جب وہ پرجوش ہوتی ہیں ، تب مختلف آواز ، خطرے میں ایک اور آواز اور خوشی میں دوسری ۔ جب کوئی ڈولفن گم ہوجائے تو وہ پاگلوں کی طرح چیختی رہتی ہے۔ یوں اس کے جذبات دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں ۔
انسانوں میں زبان سب سے زیادہ فصیح ہے ۔ کسی جاندار کے پاس اس طرح کا دماغ نہیں بلکہ اس طرح کا کیا، اس سے سو گنا کمتر بھی نہیں ۔ کہاجاتاہے کہ انسانوں میں زبان سے متعلق زیادہ تر کارروائی سیریبرل کارٹیکس میں ہی جنم لیتی ہے ۔ یہ ایک سلیٹی رنگ کا چھلکا ہے ، جو کہ دماغ پہ چڑھا ہوا ہے ۔ کسی اور جاندار میں اس طرح کی سیریبرل کارٹیکس نہیں پائی جاتی۔ کہا جاتاہے کہ انسان اگر انسان ہے اور اگر وہ سب جانداروں پہ غالب ہے تو اس کا سبب سیریبرل کارٹیکس ہی ہے ۔ اسی میں عقل پائی جاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نیچے بقا کے لیے جدوجہد کرنے والے دماغ کے نیچے والے دو حصے تو باقی جانداروں میں بھی اسی طرح سے کام کرتے ہیں ۔ سب سے نیچے والا 'برین سٹیم‘ تو سانپوں اور چھپکلیوں میں بھی اسی طرح کام کرتاہے ۔ اسی طرح لمبک سسٹم شیر چیتوں میں بھی اسی طرح کام کرتاہے ۔ بنیادی طور پر تو سیریبرل کارٹیکس ہی ہے ، جس میں اس طرح کی عقل پائی جاتی ہے ، جس کے بل پر انسان کرئہ ارض سے اڑ کر دوسرے سیاروں کا جائزہ لے چکا ہے ۔ زمین کے نیچے سے لوہا، تیل اور دوسری معدنیات نکال سکا ہے ۔ مٹی کی اینٹ اور پتھر کا سیمنٹ بنا کر فلک شگاف عمارتیں بنا سکا ہے ۔ انسانو ںمیں تو طنزیہ گفتگو بھی کی جاتی ہے ، جو کہ کمیو نی کیشن کی معراج کہلائی جاسکتی ہے۔ آپ مثبت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کسی پر ایسی چو ٹ کر سکتے ہیں ، جو کہ سراسر منفی ہوتی ہے ۔ مزید برآں یہ کہ سب انسانوں کو اس کی سمجھ آجاتی ہے کہ آپ نے یہ بات طنزیہ کی ہے ۔ میں اگریہ کہتا ہوں کہ اخلاق صاحب سے اگر آپ اردو سیکھ رہے ہیں تو بس پھر سیکھ لی آپ نے۔ بظاہر انتہائی مثبت الفاظ لیکن سننے والے کو بخوبی پتہ ہے کہ منفی بات کی جا رہی ہے ۔
دنیا میں ہر خطے کے انسانوں نے اپنی مختلف زبان تشکیل دی ہے لیکن درحقیقت ایک ہی زبان ہر جگہ بولی جا رہی ہے ۔ ایک ہی زبان کیسے، اس کی وضاحت میں بعد میں کروں گا ۔ اصل چیز مختلف الفاظ نہیں ہیں بلکہ اصل چیز صلاحیت (capacity)ہے ۔ یہ capacityکیا ہے ۔ یہ ایک چیز کو ایک آواز الاٹ کرنے کا نام ہے ۔ انسان ہر چیز کو ایک نام دیتاہے ۔ لوہے کو ایک نام، کوئلے کو دوسرا نام۔ اب فرض کیجیے کہ پہلے انسانوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ کوئلے کو آ ج سے '' آ‘‘ کہا جائے گا تو بنیادی چیز سمجھنے کی صلاحیت (Capacity)تھی ۔جب یہ capacityخدا کی طرف سے انسانوں میں رکھ دی گئی تو پھر کسی چیز کا ایک نام رکھنا اور دوسروں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ ہم نے کوئلے کا نام ''آ‘‘ رکھا ، چینیوں نے اس کا نام '' فا‘‘ رکھا ، فرانسیسیوں نے اس کا نام '' او‘‘ رکھا ۔ اتنا سادہ انسانوں میں سے ایک قبیلہ بھی نہیں تھا ، جو کوئلے کا کوئی نام ہی نہ رکھ سکا ہو ۔ یہاں پہنچ کر سمجھ آتی ہے کہ اصل زبان صرف ایک ہے ۔ اصل چیز صلاحیت ہے ، کسی چیز کا ایک مختلف نام نہیں ۔ اصل چیز دماغ کی گہرائی ہے ۔
جب انسان ایک لمحے کے لیے یہ سوچتا ہے کہ ایک شخص کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو آواز کے ذریعے دوسروں تک پہنچا دیا جائے تو بہت حیرت ہوتی ہے ۔ یہ آواز کیا ہے ؟ یہ ہوا میں لہروں کی سرسراہٹ ہے ۔ یہ ہوا کس نے پیدا کی ۔ بولنے والے کے گلے میں آلہ ء صوت کس نے بنایا ۔ دماغ میں Broca's Areaکس نے بنایا، جہاں زبان پیدا کی گئی ۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ جو بول نہیں سکتے ، وہ ہاتھ کے اشارے کو ایک نام دے دیتے ہیں ۔ پھر یہ دیکھیں کہ جو سن نہیں سکتے ،ان میں اشارے آنکھوں سے دیکھے جاتے اور یوں دماغ تک بصری ڈیٹا لے جا کر بات سمجھی جاتی ہے ۔ کس قدر حیرت انگیز ہے یہ سب کچھ ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے شک زبان ایک بہت بڑی نشانی ہے ، خدا تک پہنچنے کے لیے ۔
اور اب آجائیے ، اس مرکزی نکتے کی طرف ، جس پر بات کرتے ہوئے میں گھبرا رہا ہوں ۔ کائنات بنانے والے کی طرف سے اس ہستیؐ سے بات ، جس کی خاطر یہ دنیا بنائی گئی ۔ وہ مبارک ذاتؐ ، جسے پورا معاشرہ صادق اور امین کہا کرتا۔ سرکارؐ پہ اترنے والے مبارک الفاظ '' پڑھ اپنے رب کے نام سے ‘‘ ۔اصل داستان ، جس کی خاطر زبان تخلیق کی گئی ۔
جیسے ہی انسان سوچنا شروع کرتاہے ، جذبات غلبہ پا لیتے ہیں ۔ الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ۔بڑے بڑو ں کو چپ لگ جاتی ہے۔میری ، آپ کی ہستی کیا ہے !