1993ء کی ایک فلم ’’گرائونڈ ہاگ ڈے‘‘ میں ایک رپورٹر کو دکھایا گیا جو ایک چھوٹے سے امریکی قصبے میں گرائونڈ ھاگ ڈے مناتا ہے۔ اُس کی زندگی وقت کے پیچ و خم میں اس طرح الجھ جاتی ہے کہ گزرنے والا ہر دن دوسرے دن سے مختلف نہ ہوتا۔ وہ حالات بدلنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن جب بھی سو کر اٹھتا‘ ایک ہوٹل کے اُسی کمرے میں ہوتا‘ جہاں وہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ اُس کے کانوں میں ایک جیسی آوازیں ہی گونج رہی ہوتی تھیں۔ پاکستان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ یہاں بھی طلوع ہونے والا ہر سورج حسب معمول ایک نئے صدمے سے دوچار کرتا ہے اور ہم بھی وہی جانے پہچانے جذبات کا اظہار کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور ایک اور دن ڈھل جاتا ہے۔ ہماری قومی زندگی کے جانے پہچانے مناظر ایک فلم کی طرح آنکھوںکے سامنے چل رہے ہیں۔۔۔ دھماکہ، ٹی وی کوریج، انٹرویوز، مذمتی بیانات، غم و غصہ اور حکومت کی طرف سے رسمی اعلان کیا جاتا ہے کہ معصوم شہریوں کی جان و مال کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ اس کے بعد کوئی انکوائری کمیشن بٹھایا جاتا ہے اور کارروائی کے نام پر چند ایک افسران کے اِدھر اُدھر تبادلے کیے جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا سانحہ رونما ہوتا ہے گزشتہ صدمات پس پردہ چلے جاتے ہیں جبکہ ہلاک شدگان کے ورثا اپنے عزیزوں کا ماتم کرنے کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں۔ میرا ارادہ تو لاہور کی جوزف کالونی میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے، جس میں عیسائیوں کے سینکڑوں گھر نذر آتش کر دیے گئے، پر لکھنے کا تھا لیکن کراچی میں پروین رحمٰن کے بہیمانہ قتل کا سانحہ رونما ہو گیا۔ اس بہادر خاتون کی ہلاکت پر ہونے والا صدمہ بیان سے باہر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پروین رحمٰن کے ہدفی قتل کو روکنا ممکن نہ تھا لیکن جوزف کالونی کے سانحے سے یقیناً بچا سکتا تھا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا، اس سے پہلے بھی بہت سی آبادیوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کرنے اور جلانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ عقیدے کی آڑ میں مظلوم اقلیتوں کی زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ جو مال وہ اٹھا کر نہیں لے جا سکتے اُسے نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹی وی شو میں میزبان کو فون کرتے ہوئے ایک عیسائی شہری نے کہا کہ جوزف کالونی کو جلانے کے الزام میں گرفتار ہونے والوں پر توہین کا مقدمہ بھی قائم کیا جائے کیونکہ جلائی جانے والی اشیا میں بائیبل اور دیگر مقدس کتب بھی شامل تھیں۔ یہ بات قابل غور ہے اور وزن رکھتی ہے کیونکہ اگر غیرمسلموں پر محض کسی کی شخصی گواہی پر توہین کا مقدمہ قائم ہو جاتا ہے تو پھر حملہ آوروںپر بھی دیگر مذاہب کی کتب کی بے حرمتی کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ بلاشبہ یہ پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی حکومت کی آزمائش ہے۔ اُسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے عہدِ حکومت میں ہونے والا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اسے اس الزام کی بھی تردید کی ضرورت ہے، جیسا کہ ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ پی ایم ایل (ن) کے انتہا پسندوں سے روابط ہیں۔ اس سے پہلے 2009ء میں گوجرہ میں ہونے والے حملے میں آٹھ عیسائی ہلاک کر دیے گئے جبکہ سینکڑوں گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اُس حملے کے کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی۔ خادم ِ اعلیٰ شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ اُس گھنائونی کارروائی کا ارتکاب کرنے والوںکو معاف نہیںکیا جائے گا لیکن کچھ نہ ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے پولیس پر بھی غفلت کا الزام لگایا تھا لیکن اُن کے خلاف بھی کارروائی نہ ہوئی۔ کالم کے آغاز میں جس فلم ’’گرائونڈ ہاگ ڈے‘‘ کا ذکر کیا ہے، اُس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ گوجرہ میںجو کچھ ہوا، چار سال بعد لاہور میں اُسی کا ایکشن رے پلے پیش کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گوجرہ کے سانحے کے بعد پنجاب حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس میں صرف حکومتی مشینری کی نااہلی کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ احساس بھی جاگزین ہے کہ اقلیتیں اتنی لاچار ہیں کہ وہ کچھ نہیںکر سکتیں۔ جبکہ دوسری طرف انتہا پسند اپنے خوفناک ہتھیاروں اور لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ سیاسی قوت بھی بنتے جا رہے ہیں۔ اس قتل و غارت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں ہر کام مشیت الٰہی سے ہوتا ہے، چنانچہ جب کوئی ہلاک ہو جاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’اﷲ کو یہی منظور تھا‘‘۔ ہم نہیں دیکھتے کہ مرحوم کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوا یا کسی سفّاک قاتل کی گولی کا نشانہ بنا ہے۔ یہ دونوں معاملات یقیناً ایک جیسے نہیں ہیں لیکن ہم ان کو تقدیر کے ایک ترازو میں ہی تول کر دل کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ مذہب کے نام پر خونریزی دراصل مذہب کی غلط تشریح کا نتیجہ ہے۔ اسلام دراصل دلیل سے بات کرتے ہوئے قائل کرنے پر زور دیتا ہے لیکن انتہا پسند گولی سے کم کی زبان سے با ت کرنے کے روادار ہی نہیں۔ ملک کی اکثریت طالبان کے سامنے بے بس ہے جبکہ وہ اقلیتوں کو آزادی سے ہلاک کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جان بچا کر دیگر معاشروں کی طرف بھاگ رہے ہیں لیکن لاکھوں اقلیتی باشندوںکے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ کہیں اور جا سکیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اقلیتیں اپنا تحفظ کیسے کریں؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ مٹھی بھر عیسائی باشندے، جیسا کہ گوجرہ اور جوزف کالونی کے افراد، اپنی حفاظت کے لیے مسلّح لشکر تشکیل دے کر اپنے گھروںکی حفاظت کریں۔ غم و غصے کا اظہار کرنے کے سوا وہ پُرامن لوگ ہیں اور زیادہ تر تو بندوق خریدنے کی اسطاعت بھی نہیں رکھتے ہیں۔ چونکہ دہشت گردوںکو پتہ ہے کہ دوسری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہو گی، چنانچہ وہ بے خوفی سے اُن کا خون بہاتے ہیں۔ بعض حالات میں اہل تشیع خونی کارروائیوں کا جواب دیتے ہیں لیکن معاشرے میں اُن کی تعداد بھی کم ہے۔ پھر اُن کا ہتھیاروں کی فراہمی میں طالبان سے کیا مقابلہ؟ ایک ریاست کی اصل ذمہ داری کیا ہے؟ کیا شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اُس کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا پاکستان میں یہ وقت نہیں آ چکا کہ ہر اُس شخص کی زندگی غیرمحفوظ ہو چکی ہے جو اکثریت کی سوچ کو نہ مانتا ہو؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم اُسی فلم کا حصہ ہیں، ایک خوفناک دھماکے کی خبریں سن کر سوتے ہیں جبکہ گن فائر ہمیں جگاتے ہیں۔ اسی طرح دن گزرتے ہیں، یونہی رات ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved