تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-02-2018

وقت قریب آ پہنچا ہے

آپ نے ایسے تندرست‘ تنومند اور پہلوانی طاقت رکھنے والے شخص کو دیکھا ہو گا‘ جس نے ایک ریڑھی میں پڑے‘ تیل میں چپڑے معذور آدمی کے دست و بازو یوں رکھے ہوتے ہیں‘ جیسے وہ کام کاج کے قابل نہیں۔ جب ریڑھی ہجوم یا بازار میںسے گزرتی ہے تو لوگ اس پر ترس کھا کر‘ جو پاس ہو‘ دے دیتے ہیں۔ رات کو واپس اپنے ڈیرے پر لوٹ کے وہ طاقتور انسان‘ دوسرے کاری گروں کی طرف دیکھ کے کہتا ہے ''دیکھا میرا دبدبہ؟ عوام نے میری محبت میں دونوں ہاتھوں سے فراخ دلی کے ساتھ اپنی حمایت نچھاور کی‘‘۔ اسی طرح کے دعوے‘ لودھراں میں قومی اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخاب میں‘ ریڑھی میں پڑے نوٹوں میں ایک اور نوٹ ڈالتے ہوئے کہتا ہے''دیکھی میری سیاست؟ اسے کہتے ہیں کامیابی‘‘۔ یہ دعویٰ کم از کم سادہ اکثریت حاصل کر کے کیا جا سکتا ہے کہ عوام نے میرا ساتھ دیا۔ عوام نے ریڑھی میں پڑے ہوئے آدمی پر ترس کھا کے‘ اگر کچھ دے بھی دیا تو اس میں فتح کے نعرے لگانے کا جواز کیا ہے؟ یہی وہ نشست تھی جہاں سے جہانگیر ترین نے کھلے میدان میںفیصلہ کن فتح حاصل کی تھی۔ ساری بیورو کریسی پہلوان کے کنٹرول میں تھی۔ سارے سرکاری خزانوں کی چابیاں پہلوان کے پاس تھیں۔ سارے ڈنڈے اور کارتوس بندوقچی کے پاس تھے۔ ایک طرف ساری حکومت اور دوسری طرف تنہا‘ بے دست و پا کرکٹ کا کھلاڑی‘ جس نے ایک بچے کو لودھراں کے ضمنی الیکشن میں اتار کے چیلنج کر دیا۔ ''ہمت ہے تو اس بچے کو مات دے کر دکھائو‘‘۔ بچہ انتخابی نتائج دیکھ کر ہنسی خوشی کھیلتا ہوا گھر واپس چلا گیا۔ پہلوان نے صرف ایک بڑھک کی چھڑی ہاتھ میں لہراتے ہوئے‘ پورے ملک کے اندر شور مچا دیا ''دیکھی میری سیاست؟ عوام مجھے کامیابی دے رہے ہیں۔ عام انتخابات میں بھی عوام اسی طرح میرا ساتھ دیں گے‘‘۔
یہ کھیل میں نے ایک بار پہلے بھی دیکھا ہے۔ 1970ء کا زمانہ تھا۔ ساری حکومت‘ سارے چودھری‘ سارے پہلوان جمع ہو کر‘ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخابی میدان میں اترے۔ اپنے آبائو و اجداد کی زمینوں‘ جائیدادوں‘ پیشہ ور بدمعاشوں‘ سرکاری مشینری کے اختیارات اور اسلحے سے لیس‘ اپنے لشکر میدان میں اتار دئیے۔ سارے مظلوم اور غریب‘ ان طاقتوروں کے خلاف میدان میں اترے۔ محنت کشوں کے نعروں کو ثابت کر نے کے لئے انہوں نے پنجاب میں‘ اللہ دتہ نامی ایک غریب آدمی کو‘ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا۔ ماضی کے انتخابی معرکے یاد کرتے ہوئے‘ بھٹو صاحب نے الیکشن میں‘ روایتی انداز کے ساتھ آزمودہ کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کی تلاش شروع کر دی۔ بھٹو صاحب اپنے حامیوں کے ساتھ گائوں گائوں گئے اورجن غریبوں کے حق میں وہ تقریریں کرتے‘ انہیں جمع کر کے‘ قریباً نصف سے زیادہ انتخابی حلقوں میں‘ اپنے امیدواروںکے لئے ووٹ مانگے۔ پہلا جھٹکا تو یہی تھا کہ بھٹو صاحب نے زیادہ ٹکٹ روایتی امیدواروں کو دئیے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کا بحران اپنے دانت نکالنے لگا۔ عجیب و غریب ماحول تھا۔ بھٹو صاحب سمیت سب سیاست دان انتخابی مہمات میں کود پڑے۔ ہر سیاسی پارٹی کو یقین تھا کہ وہ اپنے صوبے میں انتخابی کامیابی حاصل کرے گی۔ سب سے زیادہ فکر مندی مشرقی پاکستان میں تھی۔ مغربی پاکستان کے حکمران جاگیرداروں نے چالبازیاں کر کے‘ مشرقی پاکستان کا اکثریتی حق چھیننے کے لئے ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کو مساوی قرار دلوا لیا۔ الیکشن کے موقع پر گیم کچھ یوں بنی کہ شیخ مجیب الرحمن صرف ایک حلقے کوچھوڑتے ہوئے‘ باقی سارے مشرقی پاکستان کی نشستیں جیت گیا۔ مغربی پاکستان کے ڈنڈا برداروں کو فکر پڑ گئی کہ شیخ مجیب فیصلہ کن اکثریت لے آیا تو بلاشرکت غیرے پاکستان کا حاکم بن جائے گا۔ انتخابات ہوئے تو بھٹوصاحب نے مغربی پاکستان کے پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کر لی۔ مجیب مشرقی پاکستان کی نشستوں پر بھروسہ کر کے‘ پورے پاکستان کی حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آ گیا۔ ایک طرف شیخ مجیب فیصلہ کن اکثریت لے آیا تھا جبکہ بھٹو صاحب کو شیخ مجیب الرحمن سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اور مغربی پاکستان کے سازشی گروہوں سے بھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہے‘ تاریخ ہے۔
ملک کے دولخت ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکومت بن گئی لیکن انہیں مجیب کی طرح فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ ہوئی۔ آخر کار ایک خون ریز جنگ ہوئی۔ مشرقی پاکستان آزاد ہو گیا۔ مغربی پاکستان مجبوراً اپنی جغرافیائی حدود میں رہ کر‘ شکستہ گھر کا بکھرا سامان سمیٹ کر‘ نئی بنیادیں کھڑی کرنے میں لگ گیا۔ سازشی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ایجنٹوں نے بھٹو صاحب کو اپنے منشور پر عمل کرنے کی اجازت نہ دی۔ آخرکار انہیں روایتی حکمرانوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔ سائیکل سوار اللہ دتہ پنجاب کی صوبائی نشست تو جیت گیا لیکن ایک محنت کش‘ طاقتور حکمران طبقوں کی برابری نہیں کر سکتا تھا۔ یہ کہانی میں نے عمران خان کے لئے لکھی ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد‘ پاکستان میں جو تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں‘ صرف چند نشستوں کے بل بوتے پر ممکن نہیں۔ عمران خان کا سفر لمبا ہے۔ استحصالی طبقے‘ طاقت پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ ہو سکتا ہے آنے والے انتخابات میں دوسری تمام جماعتیں‘ عمران خان کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر اکثریت حاصل کر لیں یا روایتی حکمران طبقوں کے ساتھ حصے داری کر کے‘ ملک کا کنٹرول سنبھال لیں۔ ہم فیصلہ کن لمحوںمیں داخل ہو چکے ہیں۔ 70 برس سے وہ ملک کے وسائل‘ دولت اور انتظامیہ پر قابض چلے آ رہے ہیں۔ ان سے اقتدار چھیننا آسان نہیں۔ عوام تبدیلی کے لئے بے چین ہیں۔ روایتی حکمرانوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ جو لیڈر غریبوں کو ساتھ ملا کر فیصلہ کن ٹھوکر سے‘ شکستہ دیواروں کو منہدم کر لے گا‘ وہی حکمرانی کا حق دار ہو گا۔ تبدیلی صرف محنت کشوں کے اتحاد کے ذریعے برپا کی جا سکتی ہے ورنہ جنگ اسی طرح طویل ہوتی جائے گی‘ جیسے آزادی کے دن سے شروع ہے۔ حکمران‘ عمران خان پر دانت پیس رہے ہیں۔ وہ انتخابات کے فوراً ہی بعد‘ اپنی شکستہ دیواروں کو پھر سے مستحکم کر لیں گے۔ حکمرانی کی جنگ ایک مرتبہ پھر تیز ہو جائے گی۔ وقت پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ ہے۔ اگر انہیں منظم کر لیا جائے تو جس طویل جنگ کا ہمیں سامنا ہو گا‘ جیتی جا سکتی ہے۔ کیوبا کے عوام ‘عالمی سپر پاور سے ٹکرا کر اپنا قومی اور ملکی استحکام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟ کیوبا کے پاس تو کوئی چین بھی نہیں تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved