تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     14-02-2018

جلسے نواز شریف کے کس کام کے؟

نااہلی کے بعد نواز شریف نے ثابت کر دیا کہ اُنہیں اب بھی عوامی پذیرائی حاصل ہے۔ جلسے اُن کے بھرپور ہوئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن عوامی طاقت کے اس مظاہرے کے باوجود اُن کی نااہلی برقرار ہے۔ جلسے مزید بڑے ہوں اس اَمر سے نااہلی ختم نہیں ہو گی۔
احتساب عدالت میں اُن کے خلاف ریفرنس جاری ہیں۔ وہاں سے بھی سزا کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ اب بھی اُن کے کچھ وفادار سمجھتے ہیں کہ کسی معجزے سے وہ بچ جائیں گے اور انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت کریں گے، لیکن اگر احتساب عدالت سے سزا ہو جاتی ہے تو آخری اُمید کی کرن بھی ختم ہو جائے گی اور یہ واضح ہو جائے گا کہ اقتدار کے کھیل سے نواز شریف نکل چکے ہیں۔
اعلان تو کچھ ایسا نہیں ہوا لیکن نواز شریف مریم نواز کو اپنے سیاسی جانشین کے طور پہ پیش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز کے خلاف بھی احتساب ریفرنس چل رہا ہے۔ اگر ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں نواز شریف کو سزا ہوتی ہے تو مریم نواز کیسے بچ سکتی ہیں؟ ابھی یہ مفروضے ہیں لیکن احتساب کیسز افسانہ نہیں‘ حقیقت ہیں۔ اِن کیسز سے بری ہو جائیں تو وہ معجزہ کہلائے گا لیکن پاکستان کی سیاسی صورتحال کے موجودہ تناظر میں ایسے کسی معجزے کی گنجائش کم ہے۔ مسئلہ پھر یہ بنتا ہے کہ اگر عوامی طاقت میاں نواز شریف کی ہے اور وہ سیاسی کھیل سے باہر ہیں تو اُس عوامی طاقت کا اُنہیں فائدہ کیا ہو گا؟ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ پارٹی کی قیادت لامحالہ تب شہبازشریف کے ہاتھوں چلی جائے گی اور انتخابی مہم کے سُرخیل وہ ہوں گے۔ مطلب یہ کہ (ن) لیگ کی وراثت مریم نوازکی بجائے عملاً اور ہاتھوں میں منتقل ہو جائے گی۔
نجی محفلوں میں نواز شریف یہ گلہ وفادار کانوں میں کر چکے ہیں کہ اُن پہ مصیبت کی گھڑی آئی ہوئی ہے لیکن شہباز شریف اوراُن کے بیٹے حمزہ شہبا ز اُن کے ساتھ اس طرح سے نہیں کھڑے جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ نثار علی خان کے بارے میں بھی نواز شریف کے احساسات پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ یہ وقت نہیں کہ آئے روز وہ پریس کانفرنسوں میں اپنے اِدھراُدھر کے تحفظات کا اظہار کرتے پھریں۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ نثار علی خان کا حالیہ بیان کہ وہ مریم نواز کے نیچے کام نہیں کر سکتے اور وہ ایسے سیاسی یتیم نہیں کہ اپنے سے چھوٹے کوسَر یا میڈم کہیں، نواز شریف کو اچھا نہیں لگا ہو گا۔ اگر ایسی بات میں وزن بھی ہے تب بھی جب پرانے تعلقات ہوں لحاظ بھی کچھ چیز ہوتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ نثار علی خان کی نواز شریف سے تمام تر ناراضی کے باوجود‘ وہ اور شہباز شریف ہم خیال تصور کیے جاتے ہیں۔
قطع نظر اِس کے کہ نواز شریف کس ابتلا سے گزر رہے ہیں‘ شہباز شریف نے بھی اپنی نظریں مستقبل پہ گاڑی ہوئی ہیں۔ اُن کی حرکات اور کئی معاملات پہ اُن کی چپ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ بھی نواز شریف کے باب کو ختم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کی پَروردہ اور حمایتی جماعت رہی ہے۔ وہ نہ مزاحمتی جماعت ہے نہ کبھی بن سکتی ہے اور شہباز شریف کے ذہن میں دُور دُور تک کسی مزاحمت یا اداروں سے ٹکرائو کا تصور نہیں ہے۔
درحقیقت کوئی پرانا (ن) لیگی لیڈر نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی کے حق میں نہیں۔ نواز شریف کے ساتھ یا تو طلال چوہدری، دانیال عزیز اور امیر مقام جیسے پُرانے (ق) لیگی ہیں یا پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان جیسے (ن) لیگی‘ جن کا نہ اپنا سیاسی وجود ہے اور نہ پارٹی میں گہری جڑیں ہیں۔ یہ نہال ہاشمی نمونہ ہلا شیری لوگ ہیں جو دُھواں دَھار تقریریں کرنے کے ماہر ہیں۔ اِ ن میں سے کوئی بھی قومی اسمبلی کی نشست کے لئے الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اِن کا سیاسی وجود نواز شریف اورمریم نواز کی خوشنودی پہ منحصر ہے۔
اس ساری رُوداد سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ نواز شریف کی عوامی مقبولیت اپنی جگہ لیکن موجودہ مخصوص صورتحال میں وہ عمل شروع ہو چکا ہے‘ جس کے نتیجے میں نواز شریف دھاڑیں تو مار سکتے ہیں لیکن پاور گیم سے آؤٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ اَب بھی ظاہری بھرم باقی ہے کیونکہ پارٹی صدر وہ ہیں اور وزیراعظم شاہدخاقان عباسی وقتاً فوقتاً اُن سے رائے یا آرڈر لینے جاتی امرا حاضری دیتے ہیں، لیکن جب احتساب عدالت کا فیصلہ آ جائے گا اور انتخابات قریب ہوں گے تو جو چیزیں اِس وقت قدرے ڈھکی چھپی ہیں‘ وہ واضح ہوکے سامنے آ جائیںگی۔
حقیقت میں پاناما پیپرز کے معاملے اور اُس کی پاداش میں ہونے والی نواز شریف کی نااہلی سے ملک میں اقتدار کا توازن ایک طرف جھک گیا ہے۔ سویلین حکومت اور سیاسی ادارے کمزور پڑ چکے ہیں۔ بنیادی فیصلے پہلے ہی کہیں اور کیے جا رہے تھے لیکن رہی سہی کسر بھی اب پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ شہباز شریف کی اتوار کے روز چیف جسٹس صاحب کے سامنے پیشی سے حالات کے جبر کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہاں وہ دن جب اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں لاہوری ناشتہ کھا کے (ن) لیگ کے ورکر اور لیڈران سپریم کورٹ پہ چڑھ دوڑے تھے اور تب کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بینچ سے تقریباً بھاگنا پڑا۔ اور کہاں اب کی صورتحال کہ پنجا ب کے طاقتور وزیراعلیٰ چیف جسٹس کے سامنے بھیگی بلی کی طرح کھڑے تھے اور اپنی کارکردگی کے بارے میں طرح طرح کی صفائیاں پیش کر رہے تھے۔ (ن) لیگ کے حمایتی میڈیا نے اس پیشی کو اپنے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ تاثر اُبھارا ہے کہ چیف منسٹر کی بڑی پزیرائی ہوئی۔ حقیقت جاننے کے لئے دُنیا اخبار میں اجمل جامی کا آنکھوں دیکھا حال پڑھ لینا چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے بات سکیورٹی بیریئرز سے شروع کی اور پھر آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ رات تک بیریئرز جاتی امرا اور چیف منسٹر کے گھر کے سامنے سے ہٹا دیئے جائیں۔ پھر اُن سے پنجاب میں پولیس مقابلوں کی تفصیلی فہرست ایک ہفتے میں مانگی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کے جلسوں اور اُن میں اعلیٰ عدلیہ کو دی جانے والی کھلی دھمکیوں کا اُلٹا اثر ہوا ہے۔ مرعوب ہونے کی بجائے اعلیٰ عدلیہ زیادہ اسرٹیو (assertive) نظر آنے لگی ہے۔ نہال ہاشمی کو سزا اور طلال چوہدری، دانیال عزیز کو توہینِ عدالت کے نوٹس بھی اسی اَمر کی غمازی کرتے ہیں۔ ایک آدھ اور کو سزا ملی تو زیادہ واضح ہو جائے گا کہ اعلیٰ عدلیہ بہتان تراشی سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں۔ شہباز شریف کی پیشی کے وقت چیف جسٹس صاحب کے ایک سے زیادہ بار ادا کیے گئے یہ ریمارکس کہ آنے والے انتخابات صاف اور شفاف ہوںگے‘ سے بھی طاقت کے نئے توازن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف چنگھاڑ سکتے ہیں‘ اِس صورتحال کو بدل نہیں سکتے۔
نثار علی خان اور اُن کی سوچ رکھنے والے دیگر سرکردہ (ن) لیگی اِس صورتحال کا ادراک کر چکے ہیں۔ اس لئے کسی مزاحمتی ڈرامے کا وہ حصہ نہیں بن رہے۔ بس انتظار میں ہیں کیونکہ اَبھی صرف نااہلی کا باب لکھا گیا ہے۔ سب سے اہم چیز احتساب عدالت کا فیصلہ ہو گا۔ اُس کے بعد ہی بادل چھٹیں گے اور آگے کے منظرنامے کے خدوخال نظر آنے لگیں گے۔ نواز شریف نااہل اس لئے نہیں ہوئے کہ دوبارہ اہل ہو جائیں۔ 1999ء کے بعد تو وہ واپس اقتدار میں آ گئے لیکن ایسا عمل ہر بار دہرایا نہیں جا سکتا۔ حالات بدل چکے ہیں۔ نہ صرف باہر کے حالات بلکہ اُن کے اپنے خاندان کے حالات بھی وہ نہیں ہیں‘ جو تھے۔ اب اقتدار میں آنے کے لئے دوسرے لوگ پَر تول رہے ہیں۔ اُن کی خواہشات پوری ہوتی ہیں یا نہیں یہ ایک الگ کہانی ہے۔
پسِ تحریر: اوپر بیان کردہ صورتحال لودھراں ضمنی انتخابات کے حیران کن نتائج سے تبدیل نہیں ہوتی۔ نتائج نے (ن) لیگ کی برقرار مقبولیت کا اعادہ کیا ہے۔ نواز شریف کی مشکلات میں کمی کا اشارہ نہیں دیا۔ لودھراں کا فائدہ بھی کسی اور کو جائے گا‘ اُن کو نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved