تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     14-02-2018

لودھراں میں کیا ہوا؟

لودھرا ں کے ضمنی الیکشن سے چار دن پہلے‘ وہاں کے لیے روانہ ہونے سے پہلے تحریک انصاف والوں سے وہاں کی صورتحال معلوم کی تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف آرام سے جیت جائے گی۔ یہی سوال مسلم لیگ (ن) والوں سے کیا تو بتایا گیا کہ لودھراں کے اس الیکشن میں ہمارا امیدوار تو ہے مگر ہماری دلچسپی نہیں ہے، ''بس یہی سمجھیے کہ پی ٹی آئی والوں کو واک اوور دیا گیا ہے‘‘۔ اس گفتگو سے میرا تاثر یہ بنا کہ لودھرا ں میں جہانگیر ترین کا بیٹا علی ترین فتح کی تیاری کر رہا ہے اور مسلم لیگ (ن) ووٹ ڈلنے سے پہلے ہی شکست قبول کیے بیٹھی ہے۔ جب ملتان سے لودھراں کی طرف سفر کر رہے تھے تو لودھراں کے مضافات سے ہی تحریک انصاف کے جھنڈے‘ جہانگیر ترین کے بل بورڈز اور علی ترین کے پوسٹرز اپنی بہار دکھانا شروع ہو گئے۔ شہر میں پہنچے تو یہاں تحریک انصاف کے بینرز دیکھ کر لگا کہ الیکشن صرف علی ترین لڑ رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) تو صرف رسم پوری کر رہی ہے۔ ہاں، کہیں کہیں پیپلز پارٹی کے محمد علی بیگ کے اشتہارات بھی دکھائی دیئے۔ وہ تاثر جو آغازِ سفر میں لاہور سے بنا تھا وہ کچھ مضبوط ہوا۔ لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ کون جیتے گا؟ خیال تھا کہ ایک ہی جواب ملے گا، ''تحریک انصاف‘‘۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو یہ تاثر تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اندرونِ شہر پہنچا تو پتا چلا کہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے چاہنے والے کم نہیں۔ اس کے بعد دیہات میںجا کر دیکھا تو وہاں 
''شیر‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ گیلے وال (جہانگیر ترین کے گائوں) میں لوگوں نے بتایا کہ یہاں کے ایم پی اے احمد خان بلوچ نے مسلم لیگ (ن) کی جیت کے لیے دن رات ایک کر رکھا ہے‘ جس کی وجہ سے چند دن پہلے تک تحریک انصاف کی یقینی فتح شکست میں بدل رہی ہے۔ قصبہ گوگڑاں کے داخلی راستے پر تحریک انصاف والوں کا جمگھٹا نظر آیا تو لگا کہ یہاں پی ٹی آئی والوں کا زور ہے لیکن قصبے کے اندر فرداً فرداً بات ہوئی تو صورتحال مختلف نکلی۔ اس کے علاوہ دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ جب میں لوگوں سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی بابت پوچھتا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتے، بعض ستم ظریف تو بڑے ہی قاتلانہ فقرے بھی کہہ ڈالتے۔ خیر شام تک اپنا سروے مکمل کیا تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے لیے آسان فتح ممکن نہیں رہی اور مسلم لیگ (ن) کے لوگ لاہور بیٹھ کر جس مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں‘ وہ بھی غلط ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت تک دونوں امیدوار برابر برابر ہیں اور ان میں سے جو بھی پولنگ کے دن اپنے ووٹروں کو پولنگ سٹیشن تک لے جائے گا‘ کامیاب ہو جائے گا۔ البتہ علی ترین رائے عامہ کے جائزے میں مسلم لیگ (ن) کے پیر اقبال شاہ کی نسبت معمولی سی سبقت رکھتے ہیں۔ اس لیے اگر و ہ جیت گئے تو بہت ہی معمولی فرق سے جیتیں گے۔
میرے اندازوں کے برعکس پیر کے دن جب لودھراں میں الیکشن ہو رہا تھا تو اکثر لوگوں کو یقین تھا علی ترین واضح اکثریت سے جیت جائیں گے۔ جب پولنگ ختم ہوئی اور ووٹ گنے گئے تو سارے کے سارے اندازے اور تخمینے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ حلقہ جہاں سے خود مسلم لیگ (ن) جیتنے کی توقع نہیں کر رہی تھی، اس کا امیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہو گیا تھا۔ اس بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی اس حلقے کے چار لاکھ اڑتیس ہزار ووٹروں میں سے آدھے پولنگ سٹیشن تک پہنچے تھے۔ ووٹ ڈالنے کی یہ شرح عام انتخابات کے قریب قریب تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ لودھراں کے لوگ اپنا فیصلہ سنانا چاہتے تھے‘ چاہے اس کے نتیجے میںکامیاب ہونے والا چند ہفتوں کے لیے ہی قومی اسمبلی کا ممبر کیوں نہ بنے۔ اگر ڈالے جانے والے ووٹ کم ہوتے اور تحریک انصاف جیت جاتی تو شاید اس الیکشن کے تجزیے کے ضرورت بھی نہ ہوتی مگر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے ایک مخصوص پس منظر میں پولنگ سٹیشن آکر ایک پیغام دیا ہے جسے سمجھنا شاید مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ 
پیغام سے پہلے لودھراں کے ضمنی الیکشن کے پس منظر کو دیکھ لیجیے کہ اس حلقے میں تیسری بار انتخاب کی وجہ جہانگیر خان ترین کی عدالت سے نااہلی ہے۔ خود جہانگیر ترین نے جو انتخاب جیتا اس کی وجہ اس حلقے سے ان کے پیش رو صدیق بلوچ کی وقتی نااہلی تھی اور اب جو انتخاب ہوا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ''نااہل‘‘ جہانگیر ترین کے بیٹے نے جس امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا اس جماعت کا لیڈر یعنی نواز شریف بھی ''نااہل‘‘ ہے۔ گویا اس حلقے میں اصل مقابلہ اہلیت کا نہیں بلکہ ''نااہلی‘‘ کا تھا۔ دوہزار پندرہ کے ضمنی انتخاب میں اگرچہ جہانگیر ترین جیت گئے تھے مگر عدالت سے وقتی طور پر نااہل ہونے والے صدیق بلوچ نے بھی ایک لاکھ کے قریب ووٹ لیے۔ اس بار ''نااہل‘‘ جہانگیر ترین کے بیٹے نے اپنے والد کے نام پر ستاسی ہزار پانچ سو اکہتر ووٹ لیے، اس کے مقابلے میں ''نااہل‘‘ نواز شریف کے امیدوار نے ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زیادہ ووٹ لیے اور ''اہل‘‘ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کا اہل امیدوار چار ہزار ووٹ بھی نہ لے سکا۔ یہ بات بھلا بھی دی جائے کہ جیتنے والا کون تھا یا ہار کس کا مقدر بنی، اصل فیصلہ تو یہ ہے کہ لودھرا ںکے لوگوں نے اتفاقِ رائے سے نوا ز شریف اور جہانگیر ترین کو نااہل ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ اس حلقے میں دس ''اہل‘‘ افراد کھڑے تھے مگر نوے فیصد ووٹ ان دو کو پڑے جو اپنے اپنے ''نااہل‘‘ کے نام پر بڑے فخر سے ووٹ مانگ رہے تھے جبکہ باقی کے آٹھ ''اہل‘‘ امیدواروں میں سے کسی کو دس فیصد ووٹ بھی نہیں ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین تا حیات اسمبلی کا رکن تو کیا کونسلر بھی نہیں بن سکتے مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ایک لمحے کے لیے ''نااہل‘‘ سمجھے نہیں گئے۔ جہانگیر ترین اپنے حلقے کی حد تک ووٹروں کو عزیز ہیں تو ملک بھر میں نواز شریف اپنی ''نااہلی ‘‘ کے بعد ہر ضمنی انتخاب جیتتے چلے جا رہے ہیں۔ لودھراں کے لوگوں نے دو ''نااہلوں‘‘ کی پذیرائی ووٹوں سے کر کے بڑی خوبصورتی سے یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام آباد کے آسمان پر نااہل قرار پانے والوں کو اہلِ زمین اپنے دل میں اہل ہی سمجھتے ہیں اور وقت آنے پر ووٹوں کی زبان سے اس کا اظہار بھی کرڈالتے ہیں۔ 
جمہوریت میں سب سے بڑی حقیقت عوام کی مرضی ہے‘ جس کے بطن سے دستور اور قانون پھوٹتے ہیں اور ان دونوں کی تشریح کا حق تو محض سایہ ہے جو کتنا ہی بڑا ہو جائے اصل پر غالب نہیں آ سکتا۔ عقلِ سلیم تو ایک لحظے میں سائے اور سراب کی حقیقت کو پا لیتی ہے مگر قانون دانوں کی سی منطق ہو تو لفظوں کے الٹ پھیر سے پرچھائیوں کو بھی تناور جسم قرار دے ڈالتی ہے۔ ایسے قانون دانوں کی طرح چھوٹے بچے بھی ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں اپنا سائے کی طوالت سے اپنی قامت کا اندازہ کرکے خوش ہوتے ہیں مگر ہر روز سورج نصف النہار پر آ کرانہیں حقیقت کا مزا چکھا دیتا ہے۔ تشریح کے سائے کو اصل پر غالب قرار دینے والوں کو یہ سبق لاہور اور چکوال کے ضمنی انتخابات نے دیا تھا مگر وہ نہ سمجھے۔ اب لودھراں میں بھی یہی ہوا کہ وہاں کے لوگوں نے ہم جیسوں کو سمجھا دیا ہے کہ سائے کو اصل سمجھنے والو! تمہارے دھوکے میں رہنے کے دن تمام ہوئے۔ عوام کی مرضی کا سورج نصف النہار پر آیا چاہتا ہے جو تمہارا قد و قامت دنیا پر عیاں کر دے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved