بعض اوقات ایک تحریر لکھنے ، مضمون مکمل ہو جانے کے بعد بھی دل نہیں بھرتا ۔ایک کرداراس طرح سے دل و دماغ پہ چھا جاتا ہے کہ انسان اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔ آپ نے جون 2017ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والا میرا کالم ''خواجہ منگتا ‘‘ پڑھ رکھا ہے یا نہیں، آج اس تحریر سے یکساں طور پر محظوظ ہوں گے ۔ ویسے دل تو یہ کرتا ہے کہ ''خواجہ منگتا‘‘ کو ایک مستقل کردار بنا دوں ۔
خواجہ منگتا کون تھا؟ بھکاریوں میں پیدا ہونے والا ایک لڑکا ، نسل در نسل جس کے آبائو اجداد مانگتے آرہے تھے ۔ وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ اس کے ماں باپ پریشان ہو گئے ۔ یہ مانگے کا کیسے ؟ ایسا لگتا تھا کہ وہ دوسرے بھکاریوں پہ بوجھ بن جائے گا ۔ ماں باپ کو اس سے کوئی امید نہ تھی ۔ تیرہ برس کی عمر میں اس نے خود ہی پہلی آواز لگائی ۔ دیکھنے سننے والے ہکا بکا رہ گئے ۔ اس روز انہیں معلوم ہوا کہ وہ کیا چیز ہے ۔اس کی آواز میں ایک جادو تھا۔جس سے مانگنا ہوتا، وہ اس کی تعریف بیان کرتا۔ گنگنانے کے علاوہ، اس آواز کو وہ میوزک کے طور پر بھی استعمال کر سکتا تھا ۔ اس کا دماغ ایک جینئس کا دماغ تھا ۔ ایک آنکھ میں وہ سامنے کھڑے شخص کی جیب میں پڑے نوٹ گن لیتا، اس کے دماغ کا ایکسرے کر لیتا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہوا کرتا کہ سامنے کھڑا شخص کنجوس ہے یا سخی۔ شروع کے چند مہینوں کی بات اور ہے، بعد میں اس نے صرف جدّی پشتی رئیسوں کے سامنے آواز لگائی ۔ وہ اس قدر ذہین تھا کہ جس سے مانگتا، اس کے دماغ سے کھیلتا، اس کی کمزوری سے کھیلتا،اس کے خوف سے کھیلتا ، اس کی خواہش سے کھیلتا ۔ شہر کا ہر رئیس اس کے لیے ایک اے ٹی ایم تھا ۔ جب وہ چاہتا شرط لگا کے کنجوس ترین انسان کی جیب خالی کر دیتا ۔
خواجہ منگتا نے کچھ اصول بنا رکھے تھے۔وہ بڑے کی موجودگی میں چھوٹے سے کبھی نہ مانگتا۔ جدی پشتی بھکاری ہونے کے باوجود وہ خود ایک سخی انسان تھا۔ اپنے دوست رشتے داروں کو نواز دیتا۔ ہمیشہ وہ اعلیٰ ترین چیز پسند کرتا۔ وہ اس قدر باذوق تھا کہ سب سے میٹھا ، پکا ہوا پھل ہی کھاتا ۔ سب سے اعلیٰ لباس پہنتا ۔ ان تضادات سے بڑھ کر ، اس کی شخصیت نے ہزاروں لوگوں کو اس کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ وہ مانگنے والے سے زیادہ ایک سلیبرٹی بن چکا تھا۔رئیسوں کے لیے وہ ایک status symbolکی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔جس کی تعریف کر کے اس نے جیب خالی نہ کرائی ہو،اسے رئیس نہ سمجھا جاتا۔ ارب پتی اپنی تقریبات میں خصوصی طور پر اسے پیغام بھیج کے بلوایا کرتے ۔ ایک دفعہ یونہی چلتے چلتے ایک بارات سے اس کا سامنا ہوا۔ دولہا دلہن گاڑی کے پاس پہنچے تھے کہ خواجہ منگتا نے انہیں جا لیا۔ دولہا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے کہا'' تجھے کیا معلوم ، توکسے بیاہ لے جا رہا ہے۔۔۔۔‘‘ اس کے بعد دلہن کی ظاہری خوبصورتی، اس کی باطنی خوبیوں کا ایسا قصیدہ اس نے پڑھا کہ وہ آنسوئوں سے روئی۔ اس نے اپنے سونے کے کنگن اتار کے خواجہ منگتا کو دیے؛حالانکہ دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔ ایسا ہنر مند تھا خواجہ منگتا۔
خواجہ منگتا کو توڑنے والا رئیس حیدر علی تھا۔ وہ سخت گیرنواب تھا۔ کسی نوجوان ، صحت مند مرد کو کبھی ایک ٹکا نہ دیتا۔ شہر میں شرطیں لگ چکی تھیں کہ فقیر اور رئیس میں سے کون دوسرے کو شکست دے گا ۔آخر ایک روز ان کا سامنا ہوا۔ فقیر نے آواز لگائی ۔ حیدر علی سنی ان سنی کرتے ہوئے چلتا رہا۔ جب وہ عمارت کے اندر داخل ہونے لگا تو خواجہ نے آواز لگائی ۔ اس نے کہا، تیرا نابینا بیٹا مغیث زمین دیکھے ، آسمان دیکھے، مکہ دیکھے ، مدینہ دیکھے۔
حیدر علی روتا ہوا باہر نکلا۔اس نے اپنی شکست تسلیم کی۔ ساری رقم اپنی جیب سے نکال کے خواجہ کو دے دی لیکن پھرجاتے جاتے بدلہ لے گیا۔ کہا : مانگنے کا ایسا سلیقہ مگر مانگتا کس سے ہے ؟ اپنے جیسے انسانوں سے ، جو خود رب سے مانگ کر لاتے ہیں ۔ مانگنے والوں سے مانگنا کس کا کام ہے ؟
خواجہ منگتا دل پکڑ کے بیٹھ گیا ۔ وہ اعلیٰ ترین ذوق کا مالک تھا ۔ کبھی کمتر چیز پہ ہاتھ نہ رکھتا ۔ جس حقیقت سے لاشعوری طور پر وہ بھاگتا آرہا تھا،آخر وہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ وہ جتنا بھی ہنر مند تھا، تھا تو بھکاری ہی ۔ انسانوں سے مانگنا اس کا پیشہ تھا ۔ جب کہ اس کے اعلیٰ ذوق کے مطابق اسے انسانوں سے ہرگز نہ مانگنا چاہیے تھا ۔ خواجہ منگتا وہاں سے لو ٹ کر آیا تو صدمے کی شدت سے وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔ گھر آ کے وہ بستر پہ گر گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بستر سے لگ گیا۔
و ہ سوچتا رہتا کہ خدا نے مجھے بھکاریو ں کے خاندان میں کیوں پیدا کیا ۔کسی اچھے خاندان میں کیوں نہیں ؟ وہ اس قدر ذہین اور با صلاحیت تھا کہ دنیا کے کسی بھی شعبے میں کامیاب ترین ثابت ہوتا ۔ زندگی بھر پست چیزوں سے وہ بچتا آیا تھا لیکن اپنے پست آبائو اجداد کو کیسے بدلتا۔چند ماہ کے اندر وہ سوکھ کے کانٹا ہوگیا۔ بمشکل تمام چند نوالے حلق سے اتارتا۔ اس کا جسم کھانا قبول ہی نہیں کر رہا تھا ۔
خواجہ منگتا شہر کی رونق تھا۔ بڑی تقریبات میں اس کا انتظار کیا جاتا ۔ اس کے ہزاروں چاہنے والے اداس تھے ۔ایسا لگتا تھا کہ موت ہی اب اسے بستر سے اٹھائے گی ۔آخر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ باہر نکلا ۔ یہ شام کا وقت تھا ۔ اس نے آواز لگانے کی کوشش کی تو غم کی شدت سے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں ۔ اس روز طوفانی ہوا چل رہی تھی ۔ طوفان کے شورمیں خواجہ کی آواز شامل ہوگئی ۔ ساری رات وہ چیختا رہا ۔ سحر دم بستر پہ گر گیا ۔ اس کے بعد یہ ایک معمول ہو گیا ۔ ساری رات شہر والے اس کی چیخیں سنا کرتے ۔ یہ باہر روتا، وہ اندر سسکیاں بھرتے ۔
یہ کہانی اس کی موت پہ منتج ہوتی اگر حیدر علی اس کے گھر نہ جاتا ۔ اس نے دیکھا، خواجہ کا سرخ و سفید رنگ سیاہ ہو چکا تھا ۔ حیدر علی نے کہا، میں نے تجھے شرم اس لیے نہیں دلائی کہ تو ڈوب مرے بلکہ اس لیے کہ تو مانگنے کی اپنی اعلیٰ ترین صلاحیت کو اس ربّ ذوالجلال و الاکرام کے دربار میں استعمال کر ۔ خواجہ نے کہا، میںاتنی دولت اکٹھی کر چکا ہوں ، جو میری سات نسلوں کے لیے کافی ہے ۔ مجھے عزت کی تلاش ہے ۔ ایک جدی بھکاری کو عزت کون دے گا ۔ اگر عزت ہی دینا ہوتی تو وہ مجھے بھکاریوں کے خاندان میں پیدا کرتا ؟
حیدر علی ہنس پڑا۔ اس نے کہا : وہ جو چاہے کر سکتاہے ۔ چاہے تو فقیر کو باعزت کردے ، چاہے تو بادشاہ کو ذلیل ۔''اچھا؟ ‘‘ خواجہ نے حیرت سے کہا '' وہ مجھے عزت دے سکتا ہے ؟ ‘‘ ایک دم سے اس کے غیر معمولی دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا ۔ ''مجھے کچھ اس کے بارے میں بتا‘‘(جاری )۔