تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-03-2013

فرقہ واریت اور انتخابات

دین سیاست سے جدا ہو تو چنگیزی رہ جاتی ہے۔ ہمارا تجربہ اس کے سوابھی ہے۔یہاں دین و سیاست کے سنجوگ سے ایسی چنگیزی نے جنم لیا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ فرقہ واریت کا آسیب آنے والے انتخابات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ جناب ساجد نقوی اپنے حلقۂ اثر میں سرگرم ہیں۔ پیغام یہ ہے کہ ن لیگ سے دور رہا جائے۔ مقدمہ یہ ہے کہ یہ جماعت سپاہ صحابہ کی سرپرست ہے جو اِن دنوں اہلِ سنت والجماعت کے نام سے متحرک ہے۔ نقوی صاحب کا کہنا کتنا مؤثر ہے،اس میں کلام ہو سکتا ہے۔ وہ تاریخ کے قافلے سے بچھڑ چکے۔ وہ جن کے راہنما تھے، انہیں نقوی صاحب کی قیادت سے گلہ ہے ۔ جب معتقدین کو دفاع کی ضرورت تھی، وہ اپنے قلعہ نما گھر میں محصور ہوگئے۔عوام لیڈر میں کچھ اور دیکھیں نہ دیکھیں، جرأت ضرور دیکھتے ہیں۔ شیعہ عوام کو مایوسی ہوئی۔اب ان کی قیادت دوسرے لوگوں کو منتقل ہو رہی ہے۔ وحدت المسلمین نے خود کو بطور سیاسی جماعت منظم کر لیا ہے ۔ وہ اپنے قبیلے کو درپیش ہر معرکے میں نمایاں ہے۔ یوں یہ سوال جواب طلب ہے کہ ساجد نقوی کا فرمانا کتنا مستند شمار ہوگا؟ تاہم اس سے مفر نہیں کہ عام انتخابات پرفرقہ واریت کے آسیب کا سایہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ شیعہ ووٹر روایتی طور پر پیپلز پارٹی سے وابستہ رہا ہے۔ تحریکِ جعفریہ منظم ہوئی اورایک مرحلے پر مجلسِ عمل کا حصہ ٹھہری۔ اس کے باوصف اہلِ تشیع کا رجحان پیپلز پارٹی ہی کی طرف رہا۔ مذہبی اقلیتی گروہوں کی قومی جماعتوں سے وابستگی میرے نزدیک نیک شگون ہے۔میرا تأثر ہے کہ مذہبی ہم آہنگی کے باب میں قومی جماعتوں کا کردار سب سے موثر ہے۔مخلوط طریقہ انتخابات سے بھی سیاسی جماعتیں اس طرف متوجہ ہوئی ہیں ورنہ انہیں مذہبی اقلیتوں کی مو جودگی کا احساس کم ہی ہو سکا۔ قومی سیاسی جماعت فرقہ واریت یا علاقائیت کے تنگ نالے میں تیر نہیں سکتی۔ اُس کی بقااسی میں ہے کہ عوامی سمندر میں غوطہ زن ہو۔یہی سبب ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ،ان کا وجود قومی وحدت کے لیے ناگزیرہے۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مذہبی اقلیتیں خود کو منظم کرتیں اور پھر حلقہ ہائے انتخاب میں فیصلہ کن ہو جاتی ہیں۔اس مرحلے پر اگر قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت دور اندیش نہ ہو،کوتاہ نگاہ اور گروہی مفادات کی اسیر ہو تو فرقہ واریت سیاست میں جگہ بنا لیتی ہے۔مجھے یہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نون لیگ نے چند نشستوں کے لیے سپاہ صحابہ کی باقیات سے اتحاد کر لیا۔ظاہر ہے یہ لین دین ہے اور بدلے میں نون لیگ کی حکومت نے اُن کے لیے پنجاب میں آسانیاں پیدا کر دیں۔پیپلز پارٹی نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لشکر جھنگوی کا ملبہ نون لیگ پر ڈال دیا۔یوں زبان حال سے پیغام دیا کہ اگر نون لیگ شیعہ مخالف عناصر کو قریب لائے گی تو وہ اہل تشیع کی عصبیت کو اپنے حق میں استعمال کریں گے۔اس طرح وہ قومی سیاسی جماعتیں جو فرقہ وارانہ وحدت کی علامت تھیں، فرقہ واریت کے جال میں پھنسنے لگیں۔ یہ تشویش کی بات ہے جس کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔مجلس عمل کے اس مثبت کردار کا میں معترف ہوں کہ اس اتحاد نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کیا۔یہ بڑا المیہ ہو گا اگر سیاسی جماعتیں قوم کو اس تقسیم سے نکالنے میں ناکام رہیں۔ ریاست کو درپیش اکثر مسائل مذہبی نہیں ہوتے۔امن شیعہ کی ضرورت ہے اور سُنّی کی بھی۔بد امنی میں دونوں متاثر ہوتے ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ دہشت گردی کی اس لہر نے ہزارہ قبیلے کو ہدف بنایا جو شیعہ ہیں لیکن اس کے ساتھ کراچی اور دوسرے شہروں میں سُنّی علما اور طلبا بھی قتل ہوئے۔ سُنّی مقتولین کا المیہ یہ ہے کہ ان پر لشکر جھنگوی کا سایہ ہے ۔ان کی مظلومیت پہ نوحہ لکھنے والا کوئی نہیں۔اگرہم اس تعصب سے بلند ہوں تو جان سکتے ہیں کہ امن سب کی ضرورت ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔اسی طرح مہنگائی بھی مذہبی مسئلہ نہیں۔ہر فرقہ اس کی زد میں ہے۔سماجی اور سیاسی مسائل کی با لعموم نوعیت یہی ہے۔ان کا کوئی فرقہ ہے نہ کوئی صنف،کوئی قبیلہ ہے نہ کوئی علاقہ۔جب ریاست کو درپیش اکثر مسائل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تو مذہبی سیاست کی ضرورت کیا ہے؟ 1973ء کے آئین کی موجودگی میں ،مذہب کے نام پر سیاست کی ضرورت ختم ہو گئی۔یہ آئین اس باب میں ناطق اور قطعی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔یہ عام شہری کو بھی یہ حق دیتا ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے اور اگر کسی قانون کو خلاف اسلام سمجھتا ہے تو اسے چیلنج کرے۔اس قطعیت کے بعد مذہبی سیاست کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر ہزارہ قبیلے کو بقا کا چیلنج درپیش ہے تو یہ اصلاً مذہبی نہیں ،سیاسی مسئلہ ہے ۔اس کا تعلق امن کی عدم موجودگی سے ہے۔جوزف کالونی کے مکین اگر سوختہ ساماں ہیں تو یہ بھی سیاسی مسئلہ ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ہم نے 97فی صدمسلم آبادی کے ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کی تو مذہب کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ کام صرف مذہبی جماعتوں نے نہیں کیا، اس میں سب سے زیادہ فائدہ بھٹو صاحب نے اٹھایا یا ضیاء الحق صاحب نے ۔مجھے تشویش ہے کہ اگلے عام انتخابات میں شیعہ سُنّی اختلاف کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا ہم پر پہلے ہی گہرا اثر ہے اس لیے قومی سیاسی جماعتوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ شیخ وقاص اکرم کی ن لیگ میں شمولیت ایک اچھا قدم ہے جس سے نون لیگ کی ابھرتی ہوئی فرقہ وارانہ شناخت کم ہو گی۔میرا خیال ہے پیپلز پارٹی ،نون لیگ اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو ایک شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ سیاست فرقہ وارانہ یا مذہبی دائرے میں بند ہونے کے بجائے قومی مسائل کے گرد گھومے۔ بدامنی، مہنگائی،افلاس،قومی وقار،یہ سب سیاسی اور ریاستی مسائل ہیں۔جوزف کالونی کے حادثے پرہم نے اس وحدت کا مظاہرہ دیکھا۔ رسالتِ مآبﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی بے پناہ محبت و عقیدت کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کی مذموم کوشش ناکام ہو گئی۔اس عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔دین و سیاست کی یک جائی نے جس کو جنم دیا ہے ،ہمیں اپنی اسلامی ریاست کو اس سے نکالنا ہے۔اگلے انتخابات میں اس آزمائش کا سامنا ہو گا۔ بد قسمتی سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں کے منشوروں میں اس کا ادراک نہیں ہے۔ مذہب کے سُوئِ استعمال کو روکنا قومی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں ابھی سے حکمتِ عملی بنانا ہو گی تاکہ اگلے انتخابات فرقہ واریت سے محفوظ رہ سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved