تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-02-2018

ایسے تھے ہمارے قائدِ اعظم

عشروں پہلے پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مرزا جواد بیگ آب دیدہ ہو گئے۔ انہوں نے گلو گیر آواز میں کہا ''ایسے تھے ہمارے قائدِ اعظمؒ‘‘
بارک اوباما صدر منتخب ہوئے تو ریاض اینڈی نے انکشاف کیا کہ قائدِ اعظمؒ نے تو یہ پیشین گوئی 1948ء میں کر دی تھی۔ ''وہ کیسے؟‘‘۔ ریاض لحظہ بھر پر سکون رہا۔ پھر کہا: قائدِ اعظمؒ نے فرمایا تھا ''ینگ مین! سیاہ فام امریکی پہلے کھیلوں میں نام پیدا کریں گے۔ پھر وہ سیاست پر چھا جائیں گے‘‘ 
''قائدِ اعظمؒ کا یہ بیان تم نے خود سنا؟‘‘ طنزیہ لہجے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا ''نہیں، میں نے یہ بیان کرنل اجمل سے سنا‘‘... ''اور یہ کرنل صاحب کون تھے؟‘‘ اس نے کہا'' وہ قائدِ اعظمؒ کے عملے میں شامل تھے‘‘۔ حاضرین اب ایک دلچسپ کہانی کے انتظار میں دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ ریاض لحظہ خاموش رہا۔ پھر کرنل کی زبانی اس نے کہانی کا آغاز کیا
''دو پہر ہوئی، سب لوگ آرام کے لیے اپنے اپنے کمرو ںمیں چلے گئے تو قائدِ اعظمؒ نے مجھے طلب کیا۔ چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی، جس کے نور نے علالت کے آثار کچھ مٹا سے دیئے تھے۔ میرے سوکھے دل کی کلی کھل اٹھی جو قائد کا علیل چہرہ دیکھ دیکھ کر مرجھا چکی تھی۔ سفید بیڈ شیٹ، سفید تکیہ اور سفید کرتے پاجامے میں ملبوس قائدِ اعظمؒ! یہ منظر ایسا تھا جو میری آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ میں ابھی مبہوت کھڑا تھا کہ قائد کے چہرے کی مسکراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہوا۔ انہوں نے فرمایا ''ینگ مین! میرا ایک کام کرو گے؟‘‘ ''یس سر!‘‘ میں نے مستعد سپاہی کی طرح کہا۔ میرا جواب سن کر قائد کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کچھ اور اجاگر ہو گئی۔ قریب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ''سنو‘‘ میں تقریباً ان کے سینے پر جھک گیا۔ قائد نے فرمایا ''مجھے ایک تربوز لا دو گے؟‘‘ ''یہ فرمائش سن کر میں حیران رہ گیا‘‘۔ کرنل نے گہری سانس لی۔ پھر کہا ''قائدِ اعظمؒ سخت علیل تھے اور علاج کے لیے زیارت میں مقیم تھے۔ پرہیز اور دوائوں نے ان کے منہ کا ذائقہ بگاڑ رکھا تھا۔ تربوز کی طلب بھی اسی سبب سے تھی لیکن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش سے اس کی اجازت نہ مل سکتی تھی۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کرتے۔ مادر ملت دوا اور غذا پر کڑی نظر رکھتیں۔ ان دونوں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ قائدِ اعظمؒ نے اس کام کے لیے مجھے چنا۔ اس روز دوپہر تک انہوں نے انتظار کیا۔ مادرِ ملت اور کرنل صاحب کھانے کے بعد آرام کے لیے چلے گئے تو قائدِ اعظمؒ نے مجھے طلب کیا۔ میں مشکل میں پڑ گیا لیکن ذرا سی دیر میں، جیسی فوجیوں کی تربیت ہوتی ہے، میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں قائدِ اعظم ؒ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا۔
سائیکل لے کر تربوز کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ریزیڈنسی سے بازار ذرا فاصلے پر تھا۔ اس لیے واپسی میں تھوڑی دیر تو لگی لیکن کام ہو گیا۔ قائدِ اعظمؒ کو جب اس کی خبر میں نے کی تو ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ دھوپ ڈھلنے لگی تھی۔ اس لیے خدشہ تھا کہ اب کسی وقت بھی کوئی آ سکتا ہے۔ اس لیے باقی کام رات پر چھوڑ دیا گیا۔ رات ہوئی اور لوگ سونے کے لیے جا چکے تو قائدِ اعظمؒ اور میرے درمیان اشاروں کنایوں میں بات چیت شروع ہو گئی۔
میری کیفیت عجیب تھی۔ ایک طرف قائدِ اعظمؒ کے ساتھ رازداری کی خوشی اور دوسری جانب پکڑے جانے کا خوف۔ میں تنے ہوئے رسے پر چل رہا تھا لیکن اس کے باوجود جب مجھے اس اعتماد کا خیال آتا جو قائدِ اعظمؒ نے مجھ پر کیا تھا تو سینہ فخر سے پھول جاتا۔ لگ رہا تھا، جیسے دو بچے ساری دنیا سے چھپ کر کسی شرارت میں مصروف ہوں۔ قائدِ اعظمؒ نے مجھے چھریاں کانٹے اور پلیٹ لانے کا حکم دیا اور اپنے سامنے تربوز کٹوایا۔ تربوز کٹ گیا تو ممکنہ مضر اثرات سے بچنے کے لیے اس کی قاشوں پر کالی مرچیں چھڑکوائیں۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ دو قاشیں پوری رغبت سے کھائیں۔ پھر برتن ہٹا دینے کا حکم دیا اور اطمینان سے لیٹ گئے‘‘۔
کرنل اجمل نے بات مکمل کی تو محفل پر سناٹا چھا گیا۔ دیر تک خاموشی رہی۔ کچھ قائدِ اعظمؒ کی تکلیف کے بارے میں جان کر اور کچھ اس حیران کن واقعہ کے سبب۔ ریاض کی زبانی یہ واقعہ سنا تو مجھے ایک بچّے کی یاد آئی۔ قائدؒ کی ایک ادا نے جسے ہمیشہ کے لیے اپنا لیا تھا۔ یہ واقعہ علی گڑھ کا ہے، کسی خواب کی طرح خوبصورت اور ہمیشہ یاد رہنے والا۔ یہ باتیں اُن دنوں کی ہیں، جب قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ ہندو قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مایوس ہونے کے بعد کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال چکے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے اس غیر معمولی اور شان دار دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاس اگرچہ ہندوستان کے بہت سے شہروں میں ہوتے رہے لیکن علی گڑھ اور نواب فیض علی خان کی کوٹھی کی بات ہی اور تھی۔ قائدِ اعظمؒ اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے اور اس کے باسیوں سے بے تکلفی اور محبت کے ساتھ پیش آتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں کے درمیان میں وقفے ہوتے تو کچھ بزرگ کمر سیدھی کرنے کے لیے کمروں میں چلے جاتے ۔ کچھ وہیں بیٹھ کر ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف ہو جاتے لیکن قائدِ اعظمؒ کی عادت مختلف تھی۔ وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ سیدھے لان میں چلے جاتے اور نوجوانوں کی محفل میں شامل ہو جاتے۔ ہم لوگ یہاں کرکٹ کھیلا کرتے۔ ایک دن تو وہ ہمارے کھیل میں شریک بھی ہو گئے۔ مرزا صاحب نے بتایا ''کھیل کے میدان میں وہ چند منٹ کی رفاقت میری زندگی کاحاصل ہے‘‘۔
کھیل کے میدان میں اس گھر کی ڈیوڑھی کا ایک واقعہ بھی مرزا صاحب کی مہکتی یادوں کا حصہ ہے۔ قائدِ اعظمؒ ایک بار کہیں جانے کے لیے گھر سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھے تو ایک نو عمر اچانک ان کے سامنے آگیا اور ایک لفافہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ قائدِ اعظمؒ کے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ہمیشہ کی بارعب آواز میں پوچھا "What is this?" مرزا جواد بیگ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظمؒ کی بارعب آواز سن کر ایک بار تو میرا حوصلہ جواب دے گیا لیکن ماموں کو پاس کھڑے دیکھ کر ہمت پکڑی اور کہا ''مسلم لیگ کے لیے‘‘ قائدِ اعظم ؒ مسکرا دیے۔ لفافہ لے کر شیروانی کی اوپری جیب میں رکھا اور کچھ دیر کے بعد روانہ ہو گئے۔ خدشہ تھا کہ بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی لڑائی میں مصروف یہ عظیم شخص اپنی بے پناہ مصروفیات کے سبب یقینا بھول جائے گا کہ جب وہ نواب فیض علی خان کے گھر سے روانہ ہو رہا تھا تو ایک بچے نے کچھ رقم اس کے حوالے کی تھی۔ چند ہی دنوں کے بعد میں لان میں بیٹھا تھا کہ خدمت گار نے اطلاع دی''آپ کی چٹھی آئی ہے‘‘، میں بھاگتا ہوا ڈاکیے کے پاس پہنچا۔ لفافہ اس کے ہاتھ سے تقریباً جھپٹ لیا اور بے صبری کے ساتھ کھولا۔ میرے ہاتھ میں پچاس روپے کی رسید تھی، جس پر سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ نواب زادہ لیاقت علی خان کے دستخط تھے۔ قائدِ اعظمؒ نے ایک معمولی سی با ت کو بھی یاد رکھا اور چندے میں دی جانے والی رقم کی رسید ارسال کرانا ضروری سمجھا۔ عشروں پہلے پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مرزا جواد بیگ آب دیدہ ہو گئے ۔ انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا ''ایسے تھے ہمارے قائدِ اعظمؒ‘‘
(فاروق عادل کی کتاب ''جو صورت نظر آئی‘‘ سے ایک اقتباس۔ اختصار اور ترتیب کے پیشِ نظر، معمولی ترمیم کے ساتھ)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved