تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-02-2018

پاکستان کے بیرونی امیج کا مسئلہ

کہا جاتا ہے کہ تصور حقیقت سے زیادہ مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں بیرونِ ملک تصورات خاصے منفی ہیں۔ میں نے امریکہ اور کینیڈا میں پاکستانی اوریجن کے کئی لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ وطن عزیز جانا اب خطرے سے خالی نہیں رہا۔ گرین پاسپورٹ پر سفر کرنے والے کئی شرفا کو اپنے نام کے شبہ کی وجہ لمبے سوالوں کا سامنا ہوتا ہے۔ 2016ء میں چند پاکستانی پارلیمانی وفود اہم ممالک میں کشمیر کی صورتحال واضح کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وہاں کشمیریوں پر انڈیا کے مظالم کی داستان سننے کی بجائے الٹا ہمارے پارلیمانی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ پہلے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے بارے میں بتائیے۔ گویا دنیا ہماری بات سننے کے موڈ میں نہیں اور اگر سُن بھی لے تو ماننے کو تیار نہیں۔ بیرون ملک ہماری ساکھ اتنی خراب کیوں ہے اور کیا اس صورتحال کا کوئی علاج بھی ہے؟ آئیے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان سے منظم امیگریشن 1960ء کی دہائی کے آغاز میں شروع ہوئی۔ میرپور‘ آزاد کشمیر کے کئی گائوں منگلا ڈیم کی وجہ سے خالی ہوئے مگر انہیں معاوضہ بھی ملا۔ اُدھر برطانیہ میں انڈسٹری کے لیے لیبر کی ضرورت تھی۔ پاکستان مغربی ممالک کے دفاعی تحالف میں شامل تھا۔ ہمیں کمیونزم کے پھیلائو کے سامنے مضبوط دیوار تصور کیا جاتا تھا لہٰذا پاکستان مغربی ممالک کی نظر ایک بہت ہی اچھا ملک تھا۔ میرپور سے بڑی تعداد میں لوگ برطانیہ منتقل ہوئے۔ امیگریشن کی صورتحال بھی متعدی امراض کی طرح ہے، ایک شخص باہر جا کر اچھی طرح سیٹ ہو جائے تو اس کے بھائی اور بھانجے بھی وہاں جانے کے لیے قطار لگا لیتے ہیں۔ امیگرینٹس کا دوسرا بڑا ریلا 1970ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے دور میں مڈل ایسٹ کی جانب روانہ ہوا‘ جہاں 1973ء میں تیل کی قیمتوں کے کئی گنا بڑھنے سے نئی نئی خوشحالی آئی اور بے شمار ڈویلپمنٹ پراجیکٹس شروع ہوئے۔
مغربی ممالک میں چند ملک ایسے بھی ہیں جہاں آبادی کی افزائش منفی ہے۔ سویڈن، ناروے اور ڈنمارک میں بہت سے پاکستانی اسی وجہ سے گئے۔ امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا کو انگلش سپیکنگ پروفیشنل درکار تھے‘ تو ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز اور اکائونٹنٹس وہاں پہنچے مگر جہاں اچھے پاکستانی باہر گئے وہاں بھیڑ چال میں دو نمبر لوگ بھی بیرونِ ملک جانے لگے۔ پاسپورٹ کی جعل سازی کے ذریعے باہر جانا‘ 1970ء کی دہائی تک مڈل ایسٹ میں ممکنہ عمل تھا۔ جس پاسپورٹ پر اقامہ لگا ہو اُسے خرید کر تصویر بدل لی جاتی تھی اور نئے کوائف کے ساتھ کئی حضرات مڈل ایسٹ پہنچ جاتے تھے۔ 1985ء کی بات ہے‘ میں اُن دنوں پاکستانی سفارت خانہ جدہ میں تھا۔ ایک روز میں پاسپورٹ افسر کے پاس بیٹھا ہوا تھا‘ اتنے میں ایک پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کے لیے آیا۔ اُسے شکایت تھی کہ ایمبیسی کا سٹاف پاسپورٹ کی تجدید میں خواہ مخواہ رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ پاسپورٹ افسر نے غور سے ڈاکیومنٹس کو دیکھا تو فوراً شک ہوا کہ یہ دو نمبر ہے۔ فرض کیجئے کہ پاسپورٹ میں نام خیر دین ولد اللہ دتہ لکھا ہوا تھا۔ پاسپورٹ افسر نے کئی سوال کئے مگر جعلی خیر دین نے پورے اعتماد کے ساتھ جھوٹے جواب دیئے۔ اپنا نام‘ تاریخ پیدائش‘ جائے پیدائش سب بڑے وثوق کے ساتھ غلط بتائے مگر پاسپورٹ کے عین مطابق۔ پاسپورٹ افسر بھی تجربہ کار تھا، اُس نے پوچھا کہ یہ مسٹر اللہ دتہ تمہاری والدہ صاحبہ کے کیا لگتے ہیں؟ جعلی خیر دین شریعت سے مکمل عاری نہیں تھا، یہ سوال سُن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اُس نے اعتراف جرم کر لیا۔
ہم روزانہ اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ ایک مسافر کے جوتے کی ایڑی میں چھپائی گئی ہیروئین ایئرپورٹ پر پکڑی گئی‘ کئی مسافر ہیروئین کو نگل کر پلاسٹک کور سمیت معدے میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ پاکستانی ہوائی اڈوں پر پکڑے جانے والے ایسے مسافر عموماً افریقی ممالک سے آتے ہیں مگر کافی عرصہ پہلے ایک خلیجی ملک میں ایک دلچسپ کیس پکڑا گیا تھا۔ پاکستان سے بڑی مقدار میں بند گوبھی درآمد ہونے لگی تو کسٹم حکام کو شک ہوا۔ گوبھی کے چند پھول کاٹے گئے تو اندر سے منشیات نکلیں۔ بند گوبھی کا پھول ابتدا میں کُھلا ہوتا ہے‘ اُس وقت پلاسٹک کی پُڑی میں منشیات ڈال کر پودے میں رکھ دی جاتی تھی۔ جوں جوں پھول بڑا ہونے لگتا تھا‘ پتے گول شکل اختیار کرنے لگتے اور آخر میں پھول فٹ بال کی طرح گول شکل اختیار کر لیتا۔ ایسی صورت میں کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس سبزی کے بطن میں منشیات چھپائی گئی ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت بڑی شاندار اور محب وطن ہے۔ ایک دو فیصد کالی بھیڑیں مگر پورے ملک کا نام بدنام کرتی ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہزاروں افغان نیشنل پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر کے بیرون ملک گئے، ان میں سے کئی منشیات کی سمگلنگ میں ملوث پائے گئے مگر جب اخباروں میں خبر چھپی تو نام پاکستان ہی کا بدنام ہوا۔ ہمارے کئی مبصر کہتے ہیں کہ پاکستان کی بدنامی میں مغربی اور انڈین میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے مگر ہم خود بھی سو فیصد معصوم نہیں ہیں۔ مثلاً ایک فرم جس نے دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کر کے پاکستان کے حسین چہرے پر کالک لگائی‘ وہ سو فیصد پاکستانی ہے۔ ہمارے دو قومی سطح کے لیڈر‘ جن کی وجہ سے پاکستان کی بیرون ملک بہت بدنامی ہوئی ہے وہ آصف زرداری اور نوازشریف ہیں۔ ہم برسوں تک سمجھا کئے کہ آصف زرداری کرپشن کے بادشاہ ہیں۔ جب ہم نے ووٹ دے کر انہیں صدر مملکت بنا دیا تو باہر یہی تاثر گیا کہ عام پاکستانی کرپشن کو برا نہیں سمجھتا اور آج کل جب احتساب عدالت کے باہر نواز شریف کی کار پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں تو بھی یہی تاثر ابھرتا ہے کہ مسلم لیگ کے متوالے مغل اعظم پر کرپشن کے الزام کو ہی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔
کرپشن اور جعل سازی کے علاوہ جس چیز نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو پوری دنیا میں بہت بدنام کیا ہے وہ ہمارے شدت پسند روّیے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر موجود نان سٹیٹ ایکٹرز کے وجود سے یا اغماض برتتے ہیں یا حالت انکار میں رہتے ہیں۔ امریکی فورسز نے ایبٹ آباد آ کر اسامہ بن لادن کو دبوچ لیا اور ہم عرصے تک یہ کہتے رہے کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھا۔ مغربی ممالک میں ہماری بدنامی کا ایک سبب ہمارا اقلیتوں کے ساتھ برتائو بھی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں چار برائیاں ہیں تو ہمارے ٹی وی اینکر آٹھ بتاتے ہیں‘ اپنے ملک کو بیرونی دنیا میں بدنام کرنے میں خود ہمارے میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرون ملک پاکستان کی مثبت پروجیکشن کیسے کی جائے؟ ہماری وزارت اطلاعات کسی زمانے میں یہ کام کرتی تھی مگر اب یہ نوازشریف کے دفاع میں لگی رہتی ہے۔ ایک زمانے میں پی آئی اے کا ثقافتی طائفہ ہوتا تھا، ہمارے ہاکی‘ کرکٹ اور سکواش کے کھلاڑی ہمارا سوفٹ امیج اجاگر کرتے تھے‘ یہ سب قصہ پارینہ ہو چکا۔ آج ہم ننھی بچیوں کے قتل‘ غیرت کے نام پر قتل اور ونی جیسے مکروہ افعال کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں خودکش جیکٹ ہماری شناخت بن گئی ہے‘ پاکستان کا صحیح اور صحت مند تصور بیرون ملک کیسے اجاگر کیا جائے۔ ان شاء اللہ اس پر آئندہ بات ہو گی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved