تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-02-2018

خواجہ منگتا … ( 3 )

جنہوں نے خواجہ منگتا 1اور 2نہیں پڑھ رکھے، وہ بھی یکساں طور پر اس کالم سے محظوظ ہوسکتے ہیں ۔ 
''خواجہ منگتا کو یقین تو نہیں آرہا تھا لیکن امید کی ایک کرن اس پہ طلوع ہوئی تھی ۔ بے عزتی کر کے اسے برباد کرنے والے رئیس حیدر علی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ خدا جو چاہے کرتاہے ۔ بھکاری کو عزت بخش سکتا ہے ۔ بادشاہ کو ذلیل کر سکتاہے ۔ اس کے اندر کا بھکاری جاگ اٹھا ۔ایک دفعہ آواز تو لگائوں ، شاید کام بن ہی جائے ۔اب پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس نے خدا کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں۔ جیسے جیسے معلومات اکٹھی ہو رہی تھیں ، وہ حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ جس رئیس سے مانگنا ہوتا، خواجہ منگتا اسے ''شکار ‘‘ کہا کرتا تھا۔ وہ اپنے شکار کی کمزوری سے ، اس کی خواہش سے کھیلتا تھا۔ ہر شخص کی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں ، ہر ایک خواہشات رکھتا ہے ۔ خواجہ منگتا اسی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا کرتا۔ یہاں صورتِ حال یہ تھی کہ مانگنے والے کی تمام کمزوریاں ، اس کی تمام خواہشات خدا کے ہاتھ میں دھری تھیں ۔ خواجہ منگتا نوابوں کا ذہن پڑھ لیا کرتا تھا۔ یہاں خدا اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔ حیدر علی نے خواجہ کو بتایا، ذہن میں پیدا ہونے والا خیال دراصل دماغ میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ خدا کی طرف سے نازل کیا جاتاہے ۔ اچھے اور برے خیالات الہام کر کے بندے کو وہ اختیار دیتاہے کہ ان میں سے وہ کسے چنتاہے ۔ گویا اس کی تمام کمزوریاں اس رئیسِ اعظم کے ہاتھ میں تھیں ۔ گویا اب کی بار شکار دینے والا نہیں ، مانگنے والا تھا ۔ 
وہ سوچ کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔بار بار اس کے ذہن میں خیال اٹھتا کہ ایک جدی فقیر کو عزت کیسے مل سکتی ہے ۔پھر اسے خیال آتا کہ برباد تو ہو چکا، ایک بار مانگ کر تودیکھوں ۔ دفعتاً مایوسی حملہ کرتی ۔ اسی مایوسی کے عالم میں حیدر علی سے اس نے ایک بار پھر کہا : اگر عزت ہی دینا ہوتی تو وہ مجھے بھکاریوں کے خاندان میں کیوں پیدا کرتا ۔ حیدر علی نے کہا ، اس کی حکمتیں کوئی نہیں جان سکتا۔ شہر میں ہزاروں لوگ تیرے چاہنے والے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ، ان ہزاروں دلوں پر ضرب لگانا ہی اسے مقصود ہو ۔
خواجہ منگتا پھر خدا کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کردیتا۔ اچھا، تو بادشاہ ایسا کہ کسی کی شرکت قبول نہیں ۔ دلدار ایسا کہ ہر غم میں بندے کو تھام لینے والا۔ حاکم ایسا کہ اپنے سوا کسی کی اطاعت قبول نہیں ۔بے نیاز ایسا کہ کل عالم کے سر جھکانے سے شان میں کوئی اضافہ نہیں ۔ سب کی نافرمانی سے وقار میں کوئی کمی نہیں ۔دوست ایسا کہ خون بن کے رگِ جاں میں دوڑنے والا ۔ خواجہ کا غیر معمولی ذہن معلومات اکھٹی کرتا جا رہا تھا۔وہ ہر چیز کا جائزہ لینے لگا۔وہ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا لیکن ایک غیر معمولی دماغ کا مالک تھا۔ ہر چیز کو وہ غور سے دیکھ رہا تھا۔ بچّوں اور پھولوں کو ، بارش اور ہوائوں کو ، جانوروں اور انسانوں کو ۔ پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ سورج کی تمازت اس سے بات کر رہی ہے ۔اس سب سے بڑے دوست کی محبت اس کے دل پہ نازل ہو رہی تھی ۔اس کا وجود آنسو بن چکا تھا۔ اب پہلی بار وہ ذرا ذرا مسکرانے لگا ۔ ایک بار پھر مانگنے کی تیاری کرنے لگا ۔ 
شہر میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں ۔ خواجہ منگتا بستر سے اٹھ چکا ہے ۔ کتنے ہی رئیس اس منگتے کا انتظار کر رہے تھے ۔جس سے وہ مانگ لیتا، بس وہی تو رئیس کہلانے کے لائق ہوتا ۔
جب وہ باہر نکلنے لگا تو حیدر علی نے آواز دی ۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا، جب وہ عطا کرنا شروع کرے تو میرے بیٹے کی بینائی بھی مانگنا۔ وہ سراپا ایک مجبور باپ تھا ۔ اس نے اندازہ لگایا تھا کہ خواجہ منگتا مانگنے کے فن میں طاق ہے ۔ وہ اس سے دعا کرانے آیا تھا ۔اس سارے معاملے میں بس یہی اس کی غرض تھی ۔
آخر خواجہ منگتا باہر نکلا اور اس نے آواز لگائی ۔ اس نے خدا سے عزت کی بھیک مانگنا شروع کی ۔اس کی عادت تھی کہ جس سے مانگتا ، اس کی تعریف بیان کرتا۔ فطرتاً وہ سچ بولنے کا عادی تھا۔ اس لیے بہت محتاط ہو کر لوگوں کی تعریف بیان کرتا ۔ زندگی میں پہلی بار کھل کے کسی کی تعریف کرنے کے لیے وہ آزاد تھا۔ اس نے کہا'' اے نیلے آسمان کے مالک ، اے سبز پتے کے خالق ،اے ہوائوں کو چلانے والے ، اے چاند چمکانے والے، اے خوبصورتی کا پیمانہ تخلیق کرنے والے ۔۔۔‘‘
اس کی آواز اونچی ہوتی گئی ۔وہ اس خوبصورتی سے مانگ رہا تھا کہ لوگ ششدر تھے۔ وہ چلتا رہا بولتا رہا ۔ مجمع بڑھتے بڑھتے ہزاروں تک پہنچ گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس روز خواجہ منگتا17گھنٹے تک خدا کی تعریف بیان کرتا رہا ؛حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر گیا ۔
خواجہ منگتا کو ہوش آیا۔وہ خود کو انتہا کا پرسکون محسوس کر رہا تھا۔ طویل عرصے بعد اس نے جی بھر کے کھانا کھایا۔ پھر وہ گھر سے نکل کر گلیوں میں پھرنے لگا۔ پھر وہ ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ایک جگہ اس نے گرد آلود زمین پر اپنی انگلی سے نشان لگایااور کہا، یہاں کھانا تقسیم کرنا چاہئیے ۔ حسبِ معمول لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ اس نے ایک گتا اور قلم لانے کا حکم دیا ۔پھر اس نے لکھا '' کھانا دو بجے سے چار بجے تک تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ‘‘کون سا کھانا؟ کیسا کھانا ؟ لوگ حیران تھے ۔ پھر ایک شخص ، جو اپنے گھر کسی تقریب میں اس کی شمولیت کا آرزومند تھا، ڈرتے ڈرتے اس نے سوال کیا : میں کھانا لے آئوں ۔ خواجہ نے اثبات میں سرہلایا ۔''کتنے لوگوں کا؟‘‘ خواجہ نے کہا، جتنے کی استطاعت ہے ، اتنوں کا۔ پھر اس نے کہا : تیری شادی پر میں آجائوں گا لیکن انسانوں کی تعریف کرنا میں نے چھوڑ دی ہے ۔ اس شخص نے کہا: آپ شادی پر آجائیں ، میرے لیے یہی بہت ہے ۔
دو بجے وہاں بھوکوں کا ایک ہجوم تھا اور کھانا تقسیم ہو رہا تھا ۔ اس کے بعد یہ ایک معمول ہو گیا ۔ اس غیر معمولی مشہور آدمی کو اپنی شادیوں میں مدعو کرنے کے آرزومند کھانے کے عوض اسے لے جاتے ۔جیسے جیسے کھانا تقسیم ہوتا جا رہاتھا، اسی تیزی سے خواجہ کی عزت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لوگ دعائیں کرانے اس کے پاس آیا کرتے ۔ 
خواجہ شادیوں میں جاتا ۔ چپ کر کے ایک طرف بیٹھا رہتا۔ پھر اٹھ کر خدا کی بڑائی بیان کرنے لگتا۔ کبھی تو گھنٹوں بولتا رہتا؛حتیٰ کہ محفل ختم ہو جاتی ۔ اب یہی اس کی زندگی تھی ۔ خدا کی تعریف بیان کرنا اور کھانا کھلانا ۔پھر دلوں میں اس کی عزت کیوں جنم نہ لیتی۔ پھر اس عزت میں اضافہ کیوں نہ ہوتا ؟
یہ ایک اصلی اور نسلی بھکاری کی کہانی ہے ۔بھکاریوں کو عزت نہیں ملتی ۔ اس کے باوجودجب خدا سے اس نے عزت مانگی ، خدا نے اسے خواجہ بنا دیا ۔اس سے بڑھ کر کسی کی کیا آزمائش ہو سکتی ہے کہ بھکاریوں کے گھر میں پیدا کر کے انسان کو عزت کا خواہشمند بنا دیا جائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں ؟کہیں ہمارے دلوں میں کھوٹ تو نہیں ؟ کہیں ہم خدا کی بجائے انسانوں سے تو نہیں مانگ رہے ؟ (ختم)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved