تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-02-2018

’’شہتیر‘‘

انتشار زدہ معاشرے میں ہر وہ شخص قابلِ احترام ہے جو زندگی کو منظم کرنے، معاملات کو ترتیب دینے اور ظلمت سے روشنی کشید کرنے کی سبیل کرنا جانتا ہو۔ ہم ایک معاشرے کا حصہ ہیں جس میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ جہان بھر کی نعمتیں میسر ہیں مگر ہم اُن سے کماحقہ مستفید ہونے کی اہلیت اور سکت نہیں رکھتے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہر معاملے میں صریح بے نظمی ہمارے اجتماعی وجود کا ناگزیر حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ 
گہن لگے ہوئے معاشروں کو درست کرنا، اصل حالت میں لانا آسان نہیں ہوا کرتا۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ سو طرح کی خرابیوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کے لیے توانائیاں کھپانے والے خال خال ہیں۔ مزمل فیروزی لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے حوالے سے متحرک ہیں۔ ملک بھر کے نوجوان اور کہنہ مشق دو طرح کے کالم نگاروں اور بلاگرز کو ایک لڑی میں پرونے کے حوالے سے ان کی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہی پڑے گا۔ انہوں نے کالم نگاروں اور بلاگرز کو ایک پلیٹ فارم ہی فراہم نہیں کیا بلکہ سرکردہ فلاحی اداروں کے دوروں کا اہتمام کرکے لکھاریوں اور فلاحی اداروں کے منتظمین کے درمیان بہتر روابط یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ 
مزمل فیروزی نے گزشتہ دنوں میڈیا کے لیے ایک معروف فلاحی تنظیم کے صدر دفتر کے دورے اور اہداف و کارکردگی سے متعلق بریفنگ کا اہتمام کیا۔ یہ غیر سرکاری تنظیم کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں جو خدمات انجام دے رہی ہے اس کے بارے میں سرسری طور پر سبھی جانتے ہیں مگر صدر دفتر کے دورے میں اور بریفنگ میں شرکت کے بعد اندازہ ہوا کہ جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہے اُس سے کہیں زیادہ پسِ پردہ ہے یعنی وہ کہ جس کا ڈھول نہیں پیٹا جارہا۔ 
تنظیم کا بیرونی چہرہ ایمبولینس سروس کا ہے۔ جدید ترین سہولتوں سے مُزیّن ایمبولینس سروس سے شہرِ قائد میں یومیہ سیکڑوں مریض مستفید ہو رہے ہیں۔ جدید ترین طبّی سہولتوں سے آراستہ ایک ایمبولینس کی لاگت کم و بیش 70 لاکھ روپے تک ہوسکتی ہے! مریض کی حالت اور مرض کی شدت کے تناظر میں ایمبولینس تین مختلف درجوں کی خدمات کے ساتھ دستیاب ہے۔ 
اب تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ تنظیم کی خدمات کا دائرہ مریضوں کی خدمت تک محدود ہے۔ یہ بات البتہ سُن رکھی تھی کہ تنظیم کے زیر اہتمام تربیتی پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں یعنی نئی نسل کو ہنر مند بنانے پر بھی توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ 
نئی نسل کو بامقصد زندگی کی طرف لانا اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر بروئے کار لانے کا اہتمام کرنا بجائے خود معاشرے کی اتنی بڑی خدمت ہے کہ اس کے مقابل کوئی خدمت شاید ہی ٹھہر سکے۔ تنظیم کے دورے سے اندازہ ہوا کہ نئی نسل کو مختلف شعبوں میں کارآمد مہارت سے ہم کنار کرنے کا اہتمام کتنے بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ معاشرے کو جن شعبوں کے ماہرین درکار ہیں ان پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ الیکٹریشین، میکینک، لیتھ مشین آپریٹر، ڈینٹر، پینٹر، ویلڈر، کارپینٹر اور دوسرے بہت سے ''عملی انسان‘‘ تیار کرنے میں تنظیم تعمیری کردار ادا کر رہی ہے۔ 
تنظیم کے سی ای او ملک احمد جلال و ویگر ذمہ داران نے مختلف امور پر سیر حاصل بریفنگ دی۔ خاکسار نے استفسار کیا کہ شہر کے پس ماندہ علاقوں سے آنے والے کم تعلیم یافتہ نوجوان اسٹینڈرڈ طریقوں سے سیکھتے ہیں یا ان کا رجحان ''جگاڑ‘‘ کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ جواب ملا کہ تربیت متعلقہ شعبے کے طے کردہ معیاری طریقے سے اور بنیادی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ یعنی اگر الیکٹریشن کو تار چھیلنا ہو تو وہ دانت کے بجائے کٹر بروئے کار لائے گا! یہ سب کچھ ذہن نشین کرایا جاتا ہے تاکہ جب وہ عملی زندگی کا آغاز کریں تو کہیں بھی نقصان نہ اٹھائیں اور مطلوبہ معیار پر پورے اتریں۔ 
ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جارہا ہے کہ نئی نسل جب عملی زندگی کے لیے تیار ہو تو محض ہنر مند ہی نہ ہو بلکہ مودب، مہذب اور شائستہ مزاج بھی ہو۔ اس کے لیے خصوصی کلاسز کا اہتمام کیا گیا ہے جہاں اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، اظہارِ خیال، استفسار، توضیح، ٹیم ورک، تحمل، مثبت سوچ ... ہر معاملے کے بنیادی آداب سکھائے جاتے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ سود مند ثابت ہوں، تعمیری رویے کے حامل ہوں اور جس ادارے میں کام کریں اس کے لیے اثاثہ ثابت ہوں۔ 
تنظیم نے اپنے بنیادی شعبے یعنی طب کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ ٹیلی ہیلتھ کے ذریعے بھی عوام کی بھرپور خدمت کی جارہی ہے۔ ملک بھر کے ہزاروں ڈاکٹرز تنظیم کی فہرست میں ہیں۔ فون پر اگر کوئی طبی مشورہ طلب کرے تو ڈاکٹرز کو ریفر کردیا جاتا ہے۔ یہ معیاری سروس ہے۔ روزانہ سیکڑوں کالز آتی ہیں اور موزوں رہنمائی کی جاتی ہے۔ 
ملک جس طرح کے حالات سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ سرکاری مشینری عوام کی رہنمائی کرے اور بالخصوص نئی نسل کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری یا ریاستی مشینری تو دیمک زدہ ہے۔ کرپشن نے سب کچھ چٹ کرلیا ہے۔ عوام کو ریاستی مشینری سے کچھ خاص امیدیں نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض بیانات داغے جاتے ہیں، وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں لوگ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس شعبے میں فلاحی ادارے بھی کام کر رہے ہیں مگر ضرورت رفاہی اداروں کی زیادہ ہے۔ 
فلاحی ادارے وہ ہیں جو لوگوں کو فوری راحت پہنچانے کا سامان کرتے ہیں مگر کھانا کھلانا، کپڑے برتن وغیرہ تقسیم کرنا، ادویہ فراہم کرنا، علاج کا اہتمام کرنا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست مگر ان کے مقابلے میں رفاہی ادارے زیادہ مفید ہیں جو معاشرے میں پائیدار بنیاد پر تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا۔ اس صورت میں عملی زندگی کی طویل اور کامیاب اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہو پاتے ہیں۔ بھوکے کو کھلانا اچھی بات سہی مگر اِس سے اچھی بات یہ ہے کہ اُسے کمانے کے قابل بنایا جائے۔ کسی بھی حقیقی رفاہی و فلاحی ادارے کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔ تنظیم اس مقصد کے حصول میں بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔ 
کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ برے وقت میں ذرا سی بھی مدد مل جائے تو بہت بڑا سہارا معلوم ہوتی ہے۔ حالات کی چکی میں پسنے والے انسانوں کے لیے فلاحی اور رفاہی اداروں کا دم غنیمت ہے۔ یہ اندھیری رات میں چراغ کے مانند ہیں۔ بہبودِ عامہ کے لیے کام کرنے والے ادارے کہنے کو ڈوبتے کے لیے تنکے کی مانند ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بُرے حالات کے بہاؤ میں یہ ادارے تنکے سے کہیں بڑھ کر شہتیر ثابت ہوتے ہیں جن پر بہت کچھ ٹِکا ہوتا ہے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved