چند ماہ ہوئے‘ اپنے ایک دوست محفوظ خان کی بھیجی‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دو منٹ پر مشتمل ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں جلال آباد میں کوئی تین سو کے قریب افغان نوجوان ہاتھوں میں افغان پرچم اٹھائے‘ ایک دائرے کی شکل میں کھڑے نعرے بازی کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان پانچ چھ‘ افغان نوجوان پاکستانی پرچم پکڑے اسے زمین کی جانب لٹکائے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکے نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لائٹر سے پرچم کو جیسے ہی نذرِ آتش کرنا شروع کیا‘ دائرے میں کھڑے لڑکوں کے ایک گروپ نے خوشی سے اچھلنا شروع کر دیا۔ اسی لمحے ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا‘ جس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا۔ جیسے ہی پاکستانی پرچم نے آگ پکڑی تو اسی دائرے میں کھڑے افغان نوجوانوں کا ایک گروہ بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور جھپٹ کر افغان لڑکوں سے جلتے ہوئے پاکستانی پرچم کو چھین کر اس کو لگی آگ بجھانا شروع کر دی اور دائرے میں کھڑے کسی ایک نے بھی انہیں پرچم کو لگی آگ بجھاتا دیکھ کر روکنے کی ذرہ بھر کوشش نہ کی۔ سوشل میڈیا پر وائرل یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ دائرے میں کھڑے نوجوانوں کے اس گروپ نے صرف پاکستانی پرچم کو لگی آگ بجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس آگ کو بجھانے کی شروعات کی ہے جو دونوں ممالک میں لگی ہوئی ہے۔ اس زہر کا تریاق کیا اور اس نفرت کی آگ کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو خونِ مسلم کا پیاسا بھارت‘ پاکستان اور افغانستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے ذہنوں میں‘ ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔
افغانستان کی نئی نسل سوچ رہی ہے کہ کیا ہمارے اور ہماری آ نے والی نسلوں کا مستقبل یہی افغانستان رہے گا جو امریکہ اور بھارت کے خطے میں موجود مفادات کی تکمیل کے لئے میدان جنگ بنا ہوا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں سمیت مارکیٹوں میں بیٹھا ہوا ہر افغان نوجوان آج کل ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔ اشرف غنی اور انڈین را کے مفادات سے اپنا پیٹ بھرنے والوں پر مشتمل این ڈی ایس جب بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنے منہ سے آگ کے شعلے پھینکتی ہے تو ایک لمحے کے لئے ہر پاکستانی کو یہ دیکھ کر دکھ ہونے لگتا ہے کہ کیا ہم نے یہی زبان سننے کے لئے افغانستان کے چالیس لاکھ سے زائد مہاجرین کو اپنے ساتھ رکھا؟ انہیں اپنے ملک میں پناہ دی؟ کیا ہم نے اسی دن کے لئے‘ اس قسم کی زبان سننے کے لئے اپنی سالمیت تک کو دائو پر لگاتے ہوئے‘ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور کو افغانستان سے نکالنے کے لئے‘ اس کے خلاف سینہ سپر ہوئے؟
سوشل میڈیا پر وائرل‘ افغانستان کے نوجوانوں کی اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر پرچم کو لگی ہوئی آگ کو اپنے ہاتھوں سے بجھانے والی ویڈیو دیکھتے ہوئے ایک ڈھارس سی ضرور بندھتی ہے کہ شاید وہ وقت قریب ہے جب دونوں ملکوں کی نئی نسل صدیوں کے چلے آتے رشتوں کو مضبوط کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد میں پھر سے پہلے جیسی قوت اور محبت سے شریک ہو گی۔
دونوں ممالک کے کھلاڑیوں، کلچر اور فنون لطیفہ سے متعلق نوجوانوں اور کالجوں‘ یونیورسٹیوں کے طلبہ کو ایک دوسرے کے خیالات سننے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کاوشوں کی ابتدا کرتے ہوئے پاکستان میں ''امن، تعلیم اور ترقی‘‘ کے نام سے قائم کی جانے والی فائونڈیشن اور افغان عوام کی ''افغانستان نیو جنریشن آرگنائزیشن‘‘ کی شرکت اور تعاون سے ایک سیمینار منعقد کروایا جس میں 16 یوتھ ایمبیسیڈرز نے شرکت کی۔ اس سیمینار کے شرکاء کی جانب سے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ دونوں ممالک سے نوجوانوں کے اس قسم کے وفود کو متواتر ایک دوسرے کے خیالات اور تجربے سے مستفید ہونے کے لئے ''مشترکہ جرگہ‘‘ کا انعقاد کرنا ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے افغان طلبہ کی سکالر شپ تعداد کو پہلے سے د وگنا کرنے کا اعلان اور بھارت اور پاکستان کی طرز پر اسلام آباد سے کابل تک دوستی بس کے اجرا اور دونوں ممالک کے میڈیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے، آپس میں ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کے لئے ورکشاپس منعقد کرنا ہوں گی۔ گوکہ اس سلسلے میں پشاور یونیورسٹی کافی حد تک پہلے سے ہی کوششیں کر رہی ہیں جس میں CRSS (سینٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز)، IPRI اورIPS جیسے ادارے قابل ذکر ہیں۔
صدر ممنون حسین نے پاک افغان یوتھ کے اس مشترکہ سیمینار سے اپنے خصوصی خطاب میں پاکستان کی جانب سے اپنے مسلم برادر ملک افغانستان کے نوجوانوں کے لئے بہتر تعلیم کی سہولیات کو سامنے رکھتے ہوئے 3 ہزار افغان طلبہ کو دوسرا ہائر ایجوکیشن سکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے ایک دوسرے کے قریبی اور مسلم ہمسایہ ممالک کے نوجوانوں کا ایک دوسرے کے قریب آنے کی خواہش کا جس طریقے سے اظہار کیا‘ وہ الفاظ امید کی وہ کرن ہیں جو اس بات کی نوید دے رہے ہیں کہ خونِ مسلم کا پیاسا چاہے جتنا بھی مکار ہو‘ صدیوں کے رشتوں میں بندھے ہوئے ان دو بھائیوں کے درمیان زیا دہ عرصے تک اپنے مذموم مقاصد جاری نہیں رکھ سکے گا۔
اس وقت کابل سے ہر روز تقریباً دو سے تین ہزار افغانوںکو ویزہ جاری کیا جا رہا ہے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد پاکستان میں علاج اور تعلیم کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ علاج کے لیے آنے والے افغان مریضوں کے لیے خطے کے دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان کا ماحول اجنبی اور پیچیدہ نہیں ہوتا اور ان میں سے بہت سے افغانوں کی‘ پاکستان میں برسوں سے چلی آ رہی رشتہ داریاں بھی ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے سے لے کر امریکہ کی افغانستان پر موجودہ یلغار تک‘ ایک اندازے کے مطابق اب تک افغانستان اور پاکستان کے مرد و خواتین اور بچوں سمیت‘ ان کی سکیورٹی فورسز کے پچاس لاکھ سے زائد لوگ مسلم دشمن آگ اور بارود کی نذر ہو چکے ہیں۔
ایک نہایت ہی محتاط اندازے کے مطابق دونوں اطراف کے دس لاکھ سے ز ائد لوگ بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور گولہ باری سے جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں اور قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن ستم دیکھیے کہ مرنے والے، زخمی ہونے والے اور زندگی بھر کے لیے معذور ہونے والے کوئی اور نہیں‘ صرف مسلمان ہیں۔ چاہے ان کا تعلق افغانستان سے ہو یا پاکستان سے۔ کس قدر چالاک اور مکار ہے چانکیہ کا یہ چیلا کہ ایک کونے میں کھڑا ہو کر آگ اور خون کی بارش برسا رہا ہے اور خون مسلم پی پی کر اپنے چہرے کی لالیاں بڑھائے جا رہا ہے۔ بھارت سے تجارتی مفادات سے اپنا گھر بھرنے والے چند ہزار مفاد پرست افغان تاجروں کے علاوہ لاکھوں افغان یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ ظاہر شاہ کی پاکستان دشمن کمیونسٹ حکومت میں ہندوستان کی جو چاندی تھی وہ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کے ہاتھوں اس قدر کیوں پھل پھول رہی ہے؟ بات اگر تجارت اور مالی مفادات تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن ساتویں گھر سے کودنے والا بھارت کس طرح افغان عوام کا سٹریٹجک پارٹنر بن سکتا ہے؟
افغان عوام کو سوچنا ہو گا کہ اگر افغان سر زمین استعمال کرتے ہوئے وہ پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت پیدا کرے گا تو اس کا نقصان افغانستان اور افغان عوام کو ہو گا نہ کہ سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے بھارت کو؟کیا افغانستان کی نئی نسل بھارت کی پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو اسی طرح دیکھتی رہے گی؟ کیا وہ جان نہیں چکے کہ بلوچستان میں آئے روز قتل و غارت کے لئے بھارت ان کے ملک افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے؟