ماہرین کی دست درازی کا سلسلہ ہوتے ہوتے اب بچوں تک آ پہنچا ہے۔ بڑے تو بھگتتے ہی تھے، اب بچے بھی ماہرین کو بھگت رہے ہیں۔ اب بچوں کے معمولات اور فطری میلانات پر تحقیق کا بازار گرم ہے۔ بچے شرارتی ہوں تو مصیبت، سنجیدگی اختیار کریں تو مصیبت۔ ان کا بولنا پریشان کن اور نہ بولنا زیادہ پریشان کن، بلکہ تشویشناک۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے زیادہ گھل مل کر نہیں رہتے یا شرمیلے ہوتے ہیں وہ دراصل بے چینی یا ''اینگزائٹی ڈِس آرڈر‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ عام مرض ہے اور دنیا بھر میں 100 میں سے 4 افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ بچوں میں یہ بیماری شرمیلے پن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی اجنبی کے سامنے زیادہ بولنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ چُپ ہی سادھ لیتے ہیں۔ جب کوئی اجنبی پاس نہ ہو اور صرف گھر کے افراد ہوں تو ایسے بچے خوب کھل کر بات کرتے ہیں۔ ماہرین اس پیچیدگی کو ''میوٹزم‘‘ (عارضی گونگا پن) بھی کہتے ہیں یعنی ایسے بچے چاہ کر بھی ڈھنگ سے نہیں بول پاتے۔
ہم یہ خبر پڑھ کر پہلے تو سہم گئے کیونکہ کبھی ہم بھی بچے تھے۔ پھر خیال آیا کہ ہم تو خوب بولتے تھے، گھل مل کر رہتے تھے۔ یہ سوچ کہ البتہ ذہن کچھ دیر کے لیے الجھ سا گیا کہ بے چارے بچے کیسی الجھن میں مبتلا رہتے ہیں۔ چاہ کر بھی نہ بول پانا؟ اِسے تو قیامت ہی سمجھیے۔ اگر یہ معاملہ خواتین کے ساتھ ہو تو وہ موت ہی کو گلے لگا لیں! ایسے بچے پڑھنے لکھنے کے معاملے میں بھی کیسی کیسی الجھنیں محسوس کرتے ہوں گے۔ ان کے لیے تو اساتذہ بھی اجنبی ہی ہوئے۔ کلاس روم میں بھی یہ شرمیلے یا ''عارضی گونگے‘‘ بچے دِقّت کا سامنا کرتے ہوں گے۔ ذہن میں کوئی سوال ابھرتا ہو گا تو یہ (سِکّہ بند شوہروں کی طرح) پی جاتے ہوں گے۔ ذہن تو اپنا کام کرتا رہتا ہے یعنی خیالات ابھرتے اور پنپتے رہتے ہیں مگر زبان ساتھ نہ دے تو انسان کیا کرے۔ ایسی صورت میں تو انسان بیٹھے بٹھائے ذہنی مریض بننے میں دیر نہیں لگاتا۔
اِس سے پہلے کہ ہم سوچ سوچ کر مزید ہلکان ہوتے، خیال آیا کہ ماہرین بھی مغرب کے ہیں اور بات بھی مغربی معاشرے کی ہے۔ وہاں کوئی ذرا بھی سنجیدہ ہو تو اُس پر ابنارمل ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ کوئی ذرا سا بھی شوخ ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔ کم بولے تو مصیبت، زیادہ بولے تو عذاب۔ انسان کرے تو کیا کرے! ع
تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
بات یہ ہے کہ ماہرین کو رائی کے دانے کے برابر کوئی معاملہ ملنا چاہیے۔ بس، وہ رائی کے دانے کو پربت بنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ ماحول کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے بہت خوش یا بہت اداس ہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ کیفیت عارضی ہو۔ مگر ماہرین ظاہری علامات کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اب اگر کوئی بچہ کسی وجہ سے خاموش رہتا ہے یعنی کم گو ہے تو اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ کسی عارضے میں مبتلا ہے۔ ہر علامت لازمی طور پر کسی بیماری یا عارضے کی نہیں ہوا کرتی۔
ماہرین کی مہربانی سے ہمیں اپنا بچپن یاد آ گیا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری! زندگی کی ہماہمی تھی کہ رکنے، تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ جو بہت کماتے تھے وہ بھی خوش تھے اور جو زیادہ کما نہیں پاتے تھے وہ بھی ناخوش بہرحال نہیں رہتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ جس بچے کے پاس ضرورت سے کہیں زیادہ کھلونے ہوں وہ بھی پاگل ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ بھی حواس میں نہیں رہتا۔ قلب و نظر میں اطمینان کا بسیرا تھا۔
ہم ہی نہیں، ہمارے ماحول میں موجود دوسرے بچے بھی ہر اعتبار سے مطمئن اور پُرسکون رہتے تھے۔ ہاں، شرارتیں اور شوخیاں اپنی جگہ تھیں۔ زمانہ ہی ایسا محکم اور متوازن تھا کہ ہم جیسوں کے لیے پریشان ہونے یا چُپ سادھ کر کونا پکڑنے کی کچھ خاص گنجائش و ضرورت نہ تھی۔ صد شکر کہ اُس دور میں ماہرین کا اتنا فیشن نہ تھا۔ اگر یہ ہوتے تو ہمارا بچپن ہی طرح طرح کی مُوشِگافیوں سے برباد کرکے دم لیتے! ہم اپنے بچپن کو جس قدر بھی یاد کریں، کوئی ایک ساتھی بھی ایسا نظر نہیں آتا جس میں آج کے ماہرین کے بیان کردہ نفسی عوارض کی رمق بھی ملتی ہو۔ پریشانیاں تو تب بھی تھیں مگر پریشانیوں کو سر پر سوار کرنے کا رجحان عام نہ تھا۔ بچے کسی بھی معاملے کو دل پر نہیں لیتے تھے۔ گھریلو جھگڑوں میں بھی بچے زیادہ ملوث نہیں ہوتے تھے۔ ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگانے کا فیشن عام نہ ہوا تھا۔ بڑوں میں کچھ بگاڑ ہو بھی جاتا تھا تو بچے الگ تھلگ رہتے تھے مگر اپنا ملنا جلنا ترک نہیں کرتے تھے۔ ان کے شب و روز زندگی سے بھرپور اور توانا ہی رہتے تھے۔
اور آج بھی ماحول کہاں بدلا ہے؟ ماہرین تو چند مخصوص معاشروں کے تناظر میں بات کرتے ہیں۔ مغربی دنیا میں بہت کچھ بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں تو آج بھی بچے چیختا، چنگھاڑتا وجود رکھتے ہیں! جدھر دیکھیے، بچوں میں زندگی دکھائی دیتی ہے۔ وہ بیشتر معاملات کو وقت سے بہت پہلے سمجھنے والے ہو گئے ہیں۔ پروین شاکر نے بہت پہلے کہا تھا ؎
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
اگر وہ آج ہوتیں تو بچوں کی چالاکی سے متعلق اپنی رائے سے رجوع کرتیں اور یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتیں کہ ہمارے عہد کے بچے چالاکی کا مظاہرہ کرتے کرتے پتا نہیں کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں!
ہمارے اپنے ماحول میں جو بچے ہیں وہ ''جان لیوا‘‘ حد تک شرارتی اور شور و غل کے عادی ہیں۔ ہم اس اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے ہیں‘ اُس میں بچے سیڑھیوں پر اودھم مچائے پھرتے ہیں۔ دن بھر شور مچا رہتا ہے۔ ایسے میں ہمیں ماہرین سے یہ پوچھنا ہے کہ جناب، وہ شرمیلے اور کم گو بچے ہیں کہاں جن پر آپ تحقیق فرما رہے ہیں! ؎
تم ذکرِ وفا کر تو رہے ہو مگر اے دوست!
مجھ کو بھی دکھا دو جو زمانے میں کہیں ہے
ہمیں تو دن میں دس بار دروازہ کھول کر بچوں سے استدعا کرنا پڑتی ہے کہ ذرا دم لیں اور دوسروں کو بھی سکون کا سانس لینے دیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم بچوں سے کہہ بھی دیں کہ ماہرین کے مطابق شرمیلے بچے بھی پائے جاتے ہیں تو وہ ہماری بات کو بھرپور قہقہوں کی نذر کرتے ہوئے اچھلتے کودتے غائب ہو جائیں گے!