(پہلی قسط)
ہم دو طرح کے بحرانوں میں پھنسے ہیں۔ ایک طرف حکمران جماعت ہے‘ جو پٹواریوں‘ تھانیداروں‘ تحصیلداروں اور پولیس والوں پر تکیہ کئے ہوئے‘ ڈنڈے اور لالچ میں‘ جلسوں اور جلوسوں کا رنگ باندھتی ہے اور جمع شدہ ہجوم کو کھدیڑ کے نعرے لگاتے ہوئے اپنا حامی قرار دیتی ہے اور دعوے کرتی ہے کہ آئندہ الیکشن میں بھی ہم ہوں گے کامیاب۔ حکمران خاندان کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ وزارت عظمیٰ کو گھر کی سویٹ ڈش سمجھ کر‘ ایک دوسرے کو نوازنے پر تلے ہیں۔ دو بھائی وزارت عظمیٰ چلانے کے ماہر ہیں۔ چھوٹے بھائی کے پاس چھوٹی حکومت ہے اور بڑا بھائی‘ بڑی حکومت کے لئے بڑے امتحان میں کودنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ دونوں خاندانوں کے بچوں کی نظریں‘ وزار ت عظمیٰ کی کرسی پر ہیں۔ ایک طرف چھوٹے میاں کا بڑا صاحبزادہ‘ عوامی رابطے کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسری طرف بڑے میاں کی ایک صاحبزادی‘ کندھے پہ ترکش رکھے ہوئے‘ پورے ملک کے ووٹروں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہی ہے۔ اس وقت خاندان میں یہ جھگڑا نہیں کہ اقتدار واپس گھر آئے گا۔ کشمکش یہ ہے کہ اقتدار تو بہرحال اپنے ہی گھر آنا ہے‘ فیصلہ صرف یہ باقی ہے کہ وزارت عظمیٰ کس کے حوالے کی جائے؟ ایک ہی خاندان میں وزارت عظمیٰ کے چار امیدوار تو یقینی ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہ جب تک اقتدار واپس آئے گا‘ خاندان کے مزید کچھ امیدوار‘ میدان میں کود پڑیں۔ سابق وزیراعظم کے دو بیٹے تو تیار شدہ ہیں‘ صرف والد محترم کی طرف سے اشارے کی ضرورت ہے۔ شیروانیاں پہن کر فوراً میدان میں اتر سکتے ہیں۔ شیروانیاں پہلے سے تیار پڑی ہیں۔
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں‘ اس میں نہ تو رنگ و نسل کی اہمیت ہے۔ نہ سرمائے اور نہ ہی جائیداد کی۔آج کی دنیا نسلی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر‘ معاشی طاقتوں کی محاذ آرائی کے نتیجے کی منتظر ہے۔ پرانے دور کی صف بندیاں‘ اب ماضی کے پرانے قصے کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر آپ گزشتہ صدی کے وسط سے‘ عالمی مقابلہ آرائی کا جائزہ لیں تو مقابلے کے میدانوں میں ان گنت طاقتیں نظر آتی ہیں۔ موجودہ صدی کے آغاز سے ہی‘ مقابلے کے پرانے میدانوں میں اب ریت‘ پہاڑ‘ پانی اور صحرا سب قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ آج کے دور میں مستقبل کے منظر میں‘ جو دو نئی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل آتی دکھائی دے رہی ہیں‘ وہ امریکہ اور چین ہیں۔
امریکہ اگلی جنگ عظیم کے وسط تک پہنچ چکا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ ابھی یہ جنگ شروع ہی ہوئی ہے۔ وائٹ ہائوس نے حالیہ نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی میں‘ چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجیکل مہارت کو امریکی معیشت اور فوجی طاقت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ ایشیا کی اس عظیم طاقت نے‘ ٹیکنالوجی کے ابھرتے ہوئے کئی ایک میدانوں میں‘ نمایاں پیش رفت دکھائی ہے۔ پانچ سال پہلے تک چین ٹیکنالوجی کا موجد نہیں تھا بلکہ نقل کرنے والا ملک تھا۔ آج صورت حال مختلف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ واشنگٹن کے لیے یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہو لیکن چین ٹیکنالوجی کی دوڑ میں تیزی کے ساتھ اس کی برابری کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہائی ٹیک امریکی کمپنیاں‘ جو ایک آزاد معیشت میں کام کرنے والے نجی ادارے ہیں‘ اپنی مسابقت میں ابھرنے والی چینی فرموں اور ان کی پیش رفت کا مقابلہ کر پائیں گی؟ چینی صدر‘ شی چن پنگ نے ٹیکنالوجیکل مہارتوں کو‘ ترقی دینا اپنی اہم ترین ترجیح بنایا ہوا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف چین کو غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کی محتاجی سے نکالنا بلکہ جدت اور اختراع کے میدان میں بھی عالمی لیڈر بنانا ہے۔ کوئی شک نہیںکہ چین اس شعبے میں نمایاں پیش رفت دکھا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران چین نے اہم کامیابیاںحاصل کی ہیں جیسا کہ ہائپر سونک میزائلوں‘ انسانی جینز کی ایڈیٹنگ اور کوانٹم سیٹلائٹ کے تجربات۔ جن ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو چین بطورِ خاص ترقی دینے کی کوشش میں ہے‘ وہ مصنوعی ذہانت ہے۔ یہ بیجنگ کے علاوہ اس کے حریفوں کے لیے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
گوگل کے چیف ایگزیکٹو سندر پیچائی نے حال ہی میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں جدت‘ بجلی یا
آگ سے بھی اہم پیش رفت ہے۔ اگر انہوں نے ضرورت سے زائد ٹیکنالوجی کو فروخت بھی کیا تو اس کا حجم بہت کم ہو گا۔ مصنوعی ذہانت ہمارے دور کی سب سے اہم مہارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ انتہائی اہم چیز ایئر و سپیس اور انٹرنیٹ کی طرح‘ سویلین استعمال میں بھی آ سکتی ہے اور فوجی بھی۔ اس کی وجہ سے دونوں میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ سویلین شعبے میں مصنوعی ذہانت کے لامحدود استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہ سمارٹ فون اپیلی کیشنز‘ شناخت کرنے والے سافٹ ویئرز اور ڈیجیٹل پرسنل معاونت کے شعبوں میں زیادہ استعمال ہو رہی ہے؛ چونکہ گلوبل ڈیٹا کولیکشن کا حجم غیر معمولی تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ اس لیے معلومات اور مواد کی پروسیسنگ کے لیے مصنوعی ذہانت ہی کام دے گی۔ مصنوعی ذہانت میڈیکل کی صنعت‘ تشخیص اور بیماریوں کا علاج کرنے میں بھی انقلاب برپا کر رہی ہے۔ دیگر دفتری امور میں بھی یہ ٹیکنالوجی‘ افراد کی انتہائی معاونت کرے گی یا ان کا مکمل متبادل بن جائے گی۔ دفاعی شعبے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کم متاثر کن نہیں ہو گا۔ 2016ء میں ایک چھوٹے سے Raspberry Pi کمپیوٹر‘ جو ہتھیلی میں سما سکتا تھا‘ جس کی قیمت صرف 35 ڈالر تھی‘ نے امریکی ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ کرنل کو مصنوعی ڈاگ فائٹ کی سیریز میں‘ ہر مرتبہ شکست سے دوچار کیا۔ کمپیوٹر مسلسل ''فائٹ‘‘ کے بعد بھی تھکاوٹ کا شکار نہ ہوا جبکہ مد مقابل انسان تھک گیا۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیش رفت جاری ہے۔ یہ میدانِ جنگ میں ٹینک چلانے‘ سمندر میں بحری جہازوں اور روبوٹ سپاہیوں کو کنٹرول میں لائے گی۔ یہ ٹیکنالوجی مواد کی انتہائی تیز پروسیسنگ کر سکتی ہے‘ اس لیے فرنٹ لائن پر موجود دستے دشمن کی پوزیشن اور نقل و حرکت کو تیزی سے سمجھ سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت غیر روایتی جنگوںکے لیے غیر معمولی استعمال رکھتی ہے۔ شام اور عراق میں داعش نے اپنے اہداف تک‘ دھماکہ خیز مواد پہنچانے کے لیے ڈرونز استعمال کیے ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں نے دھماکہ خیز مواد کے لیے‘ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں استعمال کیں۔ اب تک یہ گاڑیاں ریموٹ کنٹرول سے چلائی جاتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں خود مختار ٹیکنالوجی استعمال ہو گی۔