تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-02-2018

جہانگیر ترین کی نااہلی کے علاقائی اثرات

شکست لاوارث ہوتی ہے جبکہ فتح کے ہزار وارث ہوتے ہیں۔ یہی کچھ لودھراں کے حلقہ این اے 154 میں ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن نے الیکشن سے پہلے اس سیٹ کی ٹکٹ تقریباً چوک میں رکھ دی تھی لیکن کوئی بندہ اس ٹکٹ کو ہاتھ لگانے پر بھی تیار نہ تھا کہ کہیں ہاتھ ہی نہ جل جائے۔ اس حلقہ سے قومی الیکشن 2013 ء میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے صدیق خان ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین سے بری طرح ہار گئے تھے۔ اب 2013 ء کے قومی الیکشن سے محض چند ماہ پہلے وہ دوبارہ اس قسم کی شکست سے ہرگز دوچار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اگر میں یہ الیکشن ہار گیا تو لگاتار دو شکستیں اس کے سیاسی مستقبل کا ''کونڈا‘‘ کر دیں گی لہٰذا وہ اس الیکشن سے بھاگ گیا۔ ویسے بھی وہ صرف چار ماہ کی رکنیت اسمبلی کیلئے دس بارہ کروڑ روپے خرچ کرنے سے بھی ڈر گیا۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ محمد اقبال شاہ کو بھی یہ ٹکٹ تقریباً زبردستی تھمائی گئی تھی۔ اقبال شاہ کی اچانک ایسی لاٹری نکلی کہ وہ پورے پاکستان میں نہ صرف مشہور ہو گیا بلکہ آج کل وہ مسلم لیگ (ن) کی آنکھوں کا تارہ ہے۔
اقبال شاہ کو ٹکٹ تھمانے کے بعد ضلع لودھراں کے سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو لاہور بلا کر سخت ہدایت کی گئی کہ اس کے سب اختلافات بھلا کر جیت کیلئے کام کرنا ہے اگر یہ سیٹ ہار گئے تو الیکشن 2018 ء میں آپ سب کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا اور جہانگیر ترین اور اس کی ٹیم آپ سب کو اسمبلی کے بجائے گھر بھجوا دے گی۔ ویسے بھی اقبال شاہ جیسے شریف اور ''بیبے‘‘ آدمی پر کسی مسلم لیگی کو اختلاف ہی نہیں تھا۔ یونین کونسل کے چیئر مین سے لے کر ایم این اے تک سب نے زور لگا دیا۔ خاص طور پر اس جیت میں عبدالرحمن کانجو کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ گھر گھر گیا، واسطے دیئے، باپ دادا کے حوالے دیئے اور سب بڑے زمینداروں اور اہم لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا حتیٰ کہ اس نے رفیع الدین شاہ کو بھی دل و جان سے اس کمپین میں شامل کر لیا۔ احمد خان بلوچ ایم پی اے بھی اس ٹکٹ کے اقبال شاہ کو ملنے کے بعد دلی طور پر اقبال شاہ کیلئے ووٹ لینے نکل کھڑا ہوا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگر اقبال شاہ ہار گیا تو 2018 ء کے الیکشن میں دوبارہ صدیق خان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ مل جائے گا‘ یہ بات احمد خان بلوچ کو کسی طور پر گوارہ نہ تھی لہٰذا وہ صدیق خان سے نجات حاصل کرنے کیلئے اقبال شاہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اقبال شاہ کی شرافت نے لوگوں کو اکٹھا کرنے میں بڑا رول ادا کیا۔
اس حلقے میں سب سے بری میرے کالج فیلو اور دوست مرزا ناصر بیگ کے ساتھ ہوئی۔ مرزا ناصر بیگ اس حلقے سے‘ جب یہ ملتان ضلع کا حصہ تھا (تب لودھراں ضلع نہ بنا تھا) 1988ء کے الیکشن میں این اے 118 ملتان سے ایم این اے بنے۔ 1990ء میں اسی حلقہ این اے 118 ملتان سے وہ PDF کے امیدوار تھے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ 1993 ء میں وہ پھر اسی حلقہ این اے 118 سے ایم این اے بنے۔ 1997 ء میں انہیں صدیق کانجو نے ہرا دیا۔ 2002 ء میں انہوں نے اسی حلقہ سے جو این اے 154 بن چکا تھا، 79000 ووٹ لئے اور 2008 ء میں 76000 ووٹ لئے۔ 2013 ء میں ان کا گراف گر کر 11000 ووٹ تک آگیا؛ تاہم اس سال پی پی کے دیگر امیدواروں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بری ہوئی تھی مگر اس بار ان کے صاحبزادے محمد علی بیگ کو صرف 3432 ووٹ ملے جبکہ تیسرے نمبر پر تحریک لیبک پاکستان کے امیدوار اظہر احمد سندھیلہ نے دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے۔
اقبال شاہ اچھا بھلا شریف آدمی ہے لیکن جیتنے کے ساتھ ہی سیاسی منافقت کا شکار ہوگیا اور بیان داغ مارا کہ لودھراں مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ بڑا اچھا گڑھ ہے؟ 2002 ء میں اس ضلع میں مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک سیٹ نہیں تھی اور سارے کے سارے مسلم لیگ (ق) کے ایم این اے اور ایم پی اے تھے۔ صرف اختر کانجو مسلم لیگ (ق) کے علاوہ جیتا تھا وہ بھی مسلم لیگ (ن) سے نہیں بلکہ آزاد امیدوار کے طور پر جیتا تھا۔ 2013 ء میں سارا ضلع مٹکے کے انتخابی نشان پر جیتنے والوں سے بھر گیا تھا۔ این اے 154، این اے 155 کے ساتھ ساتھ صوبائی حلقہ جات پی پی 207 تا پی پی 211 یعنی پورے پانچ صوبائی حلقوں پر آزاد گروپ کامیاب ہوا۔ ان میں خود اقبال شاہ کے بیٹے عامر اقبال شاہ بھی شامل تھے۔ 2015 ء میں مسلم لیگ (ن) کو ضلع لودھراں کی دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں میں سے کسی ایک پر بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں سارے کا سارا آزاد گروپ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گیا۔ لیکن کوئی احمق سے احمق آدمی بھی اس ضلع میں اسے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی قرار نہیں دے سکتا۔ بقول اقبال شاہ مسلم لیگ (ن) کے گڑھ ضلع لودھراں میں‘ مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ دو جنرل الیکشن میں ایک بھی سیٹ نہیں جیتی اور دعویٰ ہے کہ پورا ضلع مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔
حلقہ این اے 154 میں جہانگیر ترین کے بیٹے کی شکست اور جہانگیر ترین کی اپنی نااہلی نے اردگرد کے حلقوں کا بھی ستیاناس کر دیا ہے اور خاص طور پر حلقہ این اے 153 اقبال پور میں بڑی خرابی پیدا کر دی ہے۔ سنا تھا کہ اس بار جہانگیر ترین این اے 154 کے ساتھ ساتھ این اے 153 جلالپور پیروالہ سے بھی امیدوار ہوگا۔ اس حلقہ میں اس وقت مسلم لیگ (ن) سے رانا قاسم نون منتخب ہوا ہے۔ یہ وہی قاسم نون ہے جو کاغذات جمع کروانے سے چار دن پہلے تک پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے میں تھا اور شمولیت کا اعلان کرنے والا تھا مگر جس دن اس نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرنا تھا اس دن وہ لاہور جا کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گیا۔ اس دھوکہ پر سب سے زیادہ بے عزتی تو شاہ محمود قریشی کی ہوئی کہ وہ یہ سارا اہتمام کر رہا تھا۔ اس کے بعد صورتحال یہ ہوئی کہ جہانگیر ترین رانا قاسم نون کے سخت خلاف ہو گیا۔ اب حلقہ این اے 153 میں بڑا ''گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو رانا قاسم کے سلسلے میں جلالپور پیروالہ کے دو بڑے سیاسی گروپوں دیوان گروپ اور اس کے اتحادی لنگاہ گروپ کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو دیوان گروپ اور لنگاہ گروپ کے پی ٹی آئی میں کھسک جانے کا خوف بھی ہے (یہ خوف این اے 154 کے رزلٹ کے بعد تھوڑا کم ہونا چاہئے کہ شجا عبادی اور جلالپوری ڈوبتی کشتی سے چھلانے لگانے کے ماہر ہیں) اسی خوف سے نجات حاصل کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) نے جعلی ڈگری فیم ایم پی اے نغمہ مشتاق لانگ کو وزارت عطا فرما دی ہے تاکہ وہ مسلم لیگ (ن) سے جڑی رہے اور اپنے پرانے مہربانوں سے الگ ہو جائے۔ اب مسلم لیگ (ن) نے نغمہ مشتاق لانگ کی صورت این ایم این کا امیدوار ریزرو میں رکھا ہوا ہے۔ اگر دیوان عاشق بخاری کی نااہلی کی مدت پانچ سال طے ہوئی تو وہ مدت گزار چکا ہے لہٰذا وہ خود الیکشن لڑے گا بصورت دیگر اس کا دوسرا بیٹا (ایک بیٹا ضلع ناظم ملتان ہے) ایم این اے کا امیدوار ہوگا، کس طرف سے ہوگا ؟ یہ ابھی پتا نہیں کہ شجاع آباد اور جلالپور والوں کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ آخر کار وہ کس کے ساتھ ہوں گے۔ ساتھ والے حلقہ این اے 152 کے ایم این اے اسد جاوید علی شاہ کو بھی وزیر بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ حلقے میں لوگوں کے کام کر سکیں اور اس حلقہ سے ممکنہ طور پر سید یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ کر سکیں۔ دوسری طرف افواہ ہے کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی شجا عباد کے حلقہ این اے 153 سے امیدوار ہوئے تو شاید جاوید علی شاہ این اے 153 میں کھسک جائے؛ تاہم زیادہ گڑ بڑ جہانگیر ترین کی نااہلی سے ہوئی ہے اور اس کے اثرات این اے 153 پر زیادہ اور 152 پر کم پڑے ہیں۔ این اے 152 میں اگر نواب لیاقت علی ایم این اے اور اس کے ساتھ ابراہیم خان اور رانا سہیل نون ایم پی اے آ جائیں تو سیٹ پی ٹی آئی جیت سکتی ہے بصورت دیگر وہی حال ہوگا جو این اے 154 میں ہوا ہے لیکن ابراہیم خان کا ایم این اے سے کم پر راضی ہونا مشکل نظر آ رہا ہے۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
فی الحال میں چولستان جیب ریلی میں جا رہا ہوں اور تین دن غیر حاضر رہوں گا۔ سابقہ لمبی غیر حاضریوں کے مقابلے میں یہ غیر حاضری بڑی معمولی ہے اگر میں نہ بتاتا تو آپ کو اس غیر حاضری کا پتا بھی نہ چلتا؛ تاہم کبھی کبھی قارئین کو بتا بھی دینا چاہئے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved