ڈاکو اور چور جیسے الفاظ : عمران خاں اور ججز کی
زبان میں کیا فرق رہ گیا : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ڈاکو اور چور جیسے الفاظ : عمران خان اور ججز کی زبان میں کیا فرق رہ گیا‘‘۔ اگرچہ مجھے چور اور ڈاکو گردان کر کے ہی نکالا گیا ہے لیکن عمران خان ججز کی نقل مارنے کی بجائے کوئی اور الفاظ بھی استعمال کر سکتے تھے مثلاً لٹیرے اور اٹھائی گیر وغیرہ‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پی سی او حلف اٹھانے والے ہمیں اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں‘‘ حالانکہ ہماری اپنی اخلاقیات ہیں جن پر عمل کر کے ہم اس قدر پھلے پھولے ہیں کہ سب کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ نااہل ہونے کے بعد جس میں بیحد اضافہ ہوا ہے اور سزایابی کی صورت میں مزید اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی کرپشن میں ملوث نہیں‘‘ جبکہ منی لانڈرنگ تو سیاہ کو سفید اور گورا چٹا کر دیتی ہے اور کسی بیوٹی کریم وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتے ہیں‘ ایسے فیصلے کو نہیں مانتا‘‘ حالانکہ پہلے فیصلے کو من و عن مان چکا ہوں اور اسے روزانہ مزید بھی مانتا رہتا ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
دنیا دیکھ رہی ہے کیا ہو رہا ہے‘ روز جھوٹے
مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں : مریم نواز
سابق اور نااہل وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ'' دنیا دیکھ رہی ہے کیا ہو رہا ہے روز جھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں‘‘ اور اُمید ہے کہ دنیا یہ نہیں دیکھ رہی کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس کئے کی پاداش میں یہ سلوک ہو رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان جھوٹے مقدمات میں جھوٹی سزائیں بھی سنائی جائیں گی جو ہمیں سچ مچ ہی بھگتنی پڑیں گی؛ تاہم نہ ہم یہاں ہوں گے‘ نہ سزائیں بھگتی جائیں گی کیونکہ ہمارے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے‘ اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو دیکھیں گے‘ ہمیں باہر جانے سے کون مائی کا لعل روکتا ہے کیونکہ حکومت ہماری ہے اور سارے مائی کے لعل بھی ہمارے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے لندن سے آئے ہیں‘‘ اور جب تک مناسب سمجھیں گے ان مقدمات کا سامنا کرتے رہیں گے؛ تاہم آخر جھوٹے مقدمات کا سامنا کب تک کیا جا سکتا ہے جبکہ ہم بھاگنے والے نہیں ہیں اور جائیں گے تو بڑے آرام سے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جائیں گے اور یہ عدالتیں دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ جائیں گی۔ آپ اگلے روز پیشی کے بعد گفتگو کر رہی تھیں۔
ہم بھاگنا چاہیں تو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا : کیپٹن (ر) صفدر
نااہل اور سابق وزیراعظم کے داماد اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''ہم بھاگنا چاہیں تو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا‘‘ کیونکہ جتنا جاگنگ کا تجربہ ہمارا ہے‘ کسی اور کا کیسے ہو سکتا ہے اس لیے چاہے پورا پاکستان ہمارے پیچھے لگا ہو ہم پکڑائی دینے والے نہیں ہیں‘ خاطر جمع رکھیں‘ اور اگر سچ پوچھیں تو ہمیں بھاگنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ جھوٹے مقدمات میں اندر ہو جانا کوئی مردانگی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے جے آئی ٹی ارکان سے جان کا خطرہ ہے‘‘ اور چونکہ جان بچانا فرض ہے اس لیے بھاگ کر صرف فرض کی ادائیگی ہی کر رہا ہوں گا۔ انہوں نے کہا ''میں کھڑا ہونے والا کپتان ہوں‘‘ اور رنز بنانے کی بجائے بھی کھڑا ہی رہتا ہوں کیونکہ آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان زندہ باد ہمارے منہ سے نکلتا رہے گا‘‘ بیشک مودی انکل اس کا کتنا بھی برا مانتے رہیں۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی مزید درستی
برادرم ہارون الرشید نے اپنے کل والے کالم میں شاید مجھے آئینہ دکھانے کے لیے میرا ہی ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
پربتوں کی ترائیوں پہ ردائے رنگ تنی ہوئی
بادلوں کے بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا
جبکہ اصل شعر اس طرح تھا ؎
کہیں پربتوں کی ترائیوں پہ ردائے رنگ تنی ہوئی
کہیں بادلوں کے بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا
اس میں موصوف دونوں مصرعوں کی ''کہیں‘‘ شاید کہیں رکھ کر بھول گئے تھے۔ اگر وہ چاہیں تو درستی کر لیں ورنہ اُن کا کام تو چل ہی رہا ہے۔ اس کے بعد فارسی کا شعر بھی اس طرح نقل کیا ؎
خواجہ من نگاہ دار آبروئے گدائے خویش
کہ از مابجو کے دیگراں پُر نہ کنند پیالہ را
اس میں دوسرا مصرعہ صحیح نہیں ہے کہ وزن میں بھی نہیں آ رہا۔ یہ اس طرح ہو سکتا تھا ع
ماکہ زجوئے دیگراں پرنکنیم پیالہ را
پھر آپ نے یہ بھی لکھا کہ :
ایاز قدر خود بشناس
دراصل یہ پورا مصرعہ ہے جو اس طرح ہے ع
ایاز قدر خود را بشناس
منقول ہے کہ ایک بار ایک تھانیدار کسی فائیو سٹار ہوٹل میں جا گھسا اور گیٹ پر کھڑے گارڈ سے پوچھا: ٹوائلٹ کس طرف ہے؟ تو گارڈ نے کہا:سامنے چلے جائیے بائیں طرف مڑئیے آگے ایک دروازے پر لکھا ہو گا یہاں شرفاء کا داخلہ منع ہے‘ لیکن آپ اس کی پروا نہ کریں اور سیدھے اندر چلے جائیں‘‘
سو‘ اپنے بھائی سے بھی یہی گزارش ہے کہ شعر کے غلط یا صحیح ہونے کی پروا نہ کیا کریں اور جیسا جی میں آئے‘ لکھ دیا کریں‘ کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ آخر قارئین خود کس مرض کی دوا ہیں‘ وہ اپنے اپنے خورشید رضوی کا انتظام کر سکتے ہیں جو وقت پڑنے پر اُن کی مشکل آسان کر سکتے ہیں کہ میں بھی اُنہی سے مدد لے لیا کرتا ہوں :
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
اور‘ اب آخر میں احمد رضوان کا یہ شعر :
ہوتا نہ کوئی کارِ زمانہ مرے سپرد
میں اپنے کاروبارِ محبت کو دیکھتا
آج کا مطلع
بکھر رہا تھا سو اور انتظار کیا کرتا
یہ میری خاک تھی‘ اس کو غُبار کیا کرتا
بلاعنوان