تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-02-2018

فرسودہ لڑائیون کے بجائے‘ نئے ذہنوں کی جنگ

(آخری قسط)
چینی صدر مصنوعی ذہانت کی اہمیت سے غافل نہیں۔ نئے سال کے موقع پر صدرکا سالانہ خطاب ٹی وی پر نشر کیا گیا تو اُن کے پیچھے شیلف پر دوکتابیں اس موضوع پر دکھائی دیں۔ چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے کے لیے تین سالہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبہ جولائی 2017ء میں شروع کردہ ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبہ نیورل نیٹ ورک‘ پروسیسنگ چپس‘ انٹیلی جنس روبوٹس‘ خودکار گاڑیاں‘ انٹیلی جنس میڈیکل تشخیص کے آلات‘ انٹیلی جنس ڈرونز اور مشینی ٹرانسلیشن کی ترقی کے لیے کام کر رہا ہے۔ چینی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے اعلان کیا کہ مصنوعی ذہانت اور آواز شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کو ترقی دینے کے لیے عظیم ترین کمپنی علی بابا‘ بیدو اور ٹین سیٹ پر مشتمل ایک ڈریم ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ تمام کمپنیاں ٹیکنالوجی‘ ہارڈ ویئر اور مواد کے حصول کے لیے انتھک محنت کر رہی ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت کے لیے درکار پلیٹ فارمز قائم کیے جا سکیں۔ مثال کے طور پر بیدو نے اوپن سورس پروگرامز کو ترقی دینا شروع کر دیا ہے جیسا کہ خود کار ڈرائیونگ پلیٹ فارم‘ اپالو۔ یہ زیادہ سے زیادہ مواد اکٹھا کر رہا ہے ۔ 
دوسری طرف امریکی محکمۂ دفاع بھی مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر رہا۔ اپنے پیش رو‘ ایش کارٹر کی طرح موجودہ ڈیفنس سیکرٹری‘ جیمز میٹس بھی پینٹاگون کے ''ڈیفنس انوویشن یونٹ ایکس پیریمنٹل‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔ ریپبلیکنزکا مطالبہ ہے کہ اس پروگرام کو ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ ''ڈیفنس انوویشن یونٹ ایکس پیریمنٹل‘‘ کا ہیڈ کوارٹر سیلیکون ویلی میں ہے۔ اس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ کیلیفورنیا کی ٹیکنالوجی کی اس عظیم وادی میں ہونے والی پیش رفت فوراً فوج کے زیرِ استعمال آ جائے۔ گزشتہ سال کے آخر تک‘ ایک ایوارڈ یافتہ فرم C3 IoT نے ایئر فورس کے استعمال کے لیے‘ مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم کو ترقی دینے کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ اپنی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوںکو ترقی دینے کی غرض سے محکمۂ دفاع نے‘ چین میں ہونے والی پیش رفت پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ چین کا عقربی حجم اسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں پیش رفت کرنے والی دیگر ریاستوں‘ جنوبی کوریا اور جاپان سے ممتاز بناتا ہے۔ خطے میں چین ہی ایسا ملک ہے جو ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ روس ایسا کرنے کے قابل نہیں۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے جیمز میٹس نے چین کی ترقی پر نگاہ رکھنے اور مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کو ترقی دینے کیلئے‘ اپنی نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجی کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔
امریکہ کو آج صرف مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہی مسابقت کا سامنا نہیں۔ سرد جنگ کے دور میں‘ امریکہ اور سوویت یونین‘ خلائی پروگرام اور جوہری ہتھیاروں کو ترقی دینے کی دوڑ میں شامل تھے۔ اس مقابلے میں امریکہ نے فتح حاصل کی۔ سوویت یونین کی توجہ فوجی ہتھیاروں کی تیاری پر تھی۔ وہ امریکہ جیسی جدت اور اختراع نہیں رکھتا تھا۔ اہم صنعتوںکی ترقی اور حجم نے امریکہ کو سوویت یونین کے ساتھ مسابقت میں مات دینے کے قابل بنایا تھا۔ سوویت یونین کی طرح چین بھی نیشنل سکیورٹی اور دفاع میں کمرشل سکیٹر سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے؛ تاہم چین کی معیشت‘ سوویت معیشت سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اس کی وجہ سے چین اپنی کمپنیوںکو امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے چین میں‘ حکومت پرائیویسی پر زیادہ پالیسی نہیں رکھتی۔ چین مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے والی کمپنیوں کو سہارا دے کر‘ امریکی کمپنیوں کے مقابلے پر کھڑا کر سکتا ہے۔ سوویت یونین کی معیشت سخت کنٹرول میں تھی۔ وہاں کمپنیاں آزاد ماحول میں کام کرتے ہوئے نئی راہیں اختیار نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لئے وہ‘ امریکہ کی آزاد معیشت میں کام کرنے والی کمپنیوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ چین میں یہ صورت حال نہیں ہے ۔ اس کی کثیر الجہتی معیشت کمپنیوں اور افراد کو‘ ٹیکنالوجی کے نئے مورچے فتح کرنے کا محرک فراہم کرتی ہے۔ مغربی میڈیا چین کے معاشی نظام کی غلط تصویر کشی کرتا ہے کہ اس کی ٹیک کمپنیاں محض بیجنگ کی سبسڈی پر انحصار کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا معاشی نظام مرکزی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کے بجائے مرکزی حکومت صرف ایک آئوٹ لائن وضع کرتی ہے‘ جس میں یہ کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ مرکزی حکومت‘ کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ان کے لیے امکانات تلاش کرتی ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کمپنیاں‘ عالمی مسابقت میں بے دھڑک شریک ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اس مسابقت کا ایک اہم شعبہ مصنوعی ذہانت ہے۔
اس وقت تک چین یقینا ٹیکنالوجی‘ خاص طور پر سیمی کنڈکٹر کو ترقی دینے کی دوڑ میں امریکہ سے پیچھے ہے۔ یہ فرق بہت زیادہ نہیں۔ گزرنے والے وقت کے ساتھ اس میں کمی آتی جا رہی ہے۔ چین کی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے‘ امریکہ جواب دینے پر مجبور ہو گا۔ واشنگٹن کے سامنے چیلنج یہ ہو گا کہ ماضی کی دہرے استعمال (فوجی اور سویلین) کی ٹیکنالوجیز کے برعکس مصنوعی ذہانت‘ الیکٹرونکس مارکیٹ پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی معیشت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ چین کی پیش رفت‘ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے۔ امریکہ کے سامنے سوال یہ نہیں کہ چین اس دوڑ میں آگے نکل جائے گا بلکہ ایک ایشیائی ملک‘ اس کے اتنا قریب کیسے آ گیا؟ چین اتنا بڑ ا ملک ہے کہ وہ امریکہ کی سیلیکون وادی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب امریکہ کی پوری دنیا پر اجارہ داری تھی۔ کوئی ملک اس کی جدت اور اختراع کا حریف نہیں تھا۔ سوویت یونین بھی نہیں۔ چین نے ایسا کر دکھایا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ ''امریکہ کے اس ابھرتے ہوئے حریف‘‘ کے پَر کاٹنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ وائٹ ہائوس تحقیقات کر رہا ہے کہ کہیں چین اس کے ذہنی وسائل تو نہیں چرا رہا۔ اگر امریکہ‘چین پر توجہ دیتا ہے تو چین لازماً اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔ امریکہ اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔ امریکی کمپنیوں گوگل‘ امیزون اور ایپل کا حجم جتنا بڑا ہو گا‘ اس کی پریشانی اتنا ہی بڑھتی جائے گی۔ اگر امریکہ تحقیقات جاری رکھتا ہے تو عدم اعتماد کی فضا میں چینی کمپنیوں کو قدم رکھنے کا موقع مل جائیگا۔ (استفادہStratfor )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved