تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     17-03-2013

یہ بھی کیسا جینا ہے؟

ایک زمانہ تھا‘ کسی حادثے میں ایک بچہ بھی زخمی ہوتا ‘ تو اس کے نام اور تصویر کے ساتھ خبر شائع ہوا کرتی ۔ آج کل کی طرح اس کا ایک نام ہوتا۔ اس کے خاندان اور اہل محلہ کا ذکر آیا کرتا اور شہر میں اس المناک حادثے پر چہ میگوئیاں ہوتیں۔ حکومت اور پولیس پر تنقید ہوتی۔ مطالبے کئے جاتے کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال کو ٹھیک کیا جائے۔غالباً یہ 1956-57ء کا ذکر ہے۔ لاہور میں دو معروف ’’بدمعاش‘‘ ہوا کرتے تھے۔ ایک کا نام اچھا شوکر والا اور دوسرے کا نام بڈھا گجر ہوتا تھا۔ ان دونوں کے اپنے اپنے علاقے تھے۔ اچھا شوکر والا قلعہ گجر سنگھ میں رہتا۔ اس کے زیراثر علاقوں میں گوالمنڈی اور برانڈرتھ روڈ بھی شامل تھے۔ جبکہ بڈھا گجر کاعلاقہ ’’مزنگاں‘‘ تھا۔ آج کل اس کا نام مزنگ ہے۔ ان دونوں ڈیرے داروں کے کارندے‘ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتے تھے۔ اسے ڈیرے دار کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ ایک روز یوں ہوا کہ بڈھا گجر کے کارندے اپنے ریڑھے پر بیٹھے‘ قلعہ گجر سنگھ کی مرکزی سڑک سے گزر رہے تھے‘ جو لاہور ہوٹل کے بالکل سامنے ہے۔ لاہور میں ریڑھا ‘تانگے کی سامان ڈھونے والی شکل کا نام ہے۔ جس پر بڑے بڑے ڈرموں میں رکھا ہوا دودھ‘ شہر کے اندر تقسیم کیا جاتا۔ جس دن کا ذکر میں کر رہا ہوں‘ اس دن بڈھا گجر کے کارندے خالی ریڑھے پر بیٹھے‘ اچھا کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ اچھا کے کارندوں نے انہیں دیکھ کر للکار دیا۔ تکرار بڑھی۔ دونوں طرف سے پستول نکل آئے۔ گولیاں چلیں۔کارندوں کو تو معمولی زخم لگے لیکن ایک راہ چلتا بچہ گولی کا نشانہ بن گیا۔ مجھے یاد ہے‘ اس روز لاہور کے تما م اخباروں میں بچے کی ہلاکت کی خبر صفحہ اول پر چھپی۔ ساتھ اس کی تصویریں تھیں۔ اس کا نام تھا۔ اس کے ایک ماموں یا چچا کا نام تھا‘ جو اپنے شاعرہونے پر اصرار کیا کرتے۔ایک بے گناہ معصوم بچے کی ہلاکت‘ اس کے پورے خاندان کے وجود کا پتہ دے دیتی۔ زمانہ بدلا۔ بدمعاشوں کے جھگڑے بڑھنے لگے۔ پھر خبریں کچھ اس طرح کی ہو گئیں کہ ’’شاہیا کے بندوں نے فلاں کو مار دیا۔ مرنے والوں کے ساتھیوں نے شاہیا کا بیٹا مار دیا۔یٰسین پہلوان کے کارندوں نے‘ فلاں واردات کر دی اور اس کے مخالفوں نے کسی اور کو گولیاں مار دیں‘‘ ۔ ماردھاڑ کی یہ خبریں بدمعاشوں تک محدود رہا کرتیں۔اس کے بعد عوامی مظاہروں کا دور آیا‘ جو ظاہر ہے ایوب خان کے خلاف ہوا کرتے اور مشرقی پاکستان سے خبریں آیا کرتیں کہ پولیس نے اتنے طالب علموں کو ہلاک کر دیا۔ اتنے مزدور مار دیئے گئے۔ اتنے سیاستدان قتل کر دیئے گئے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے‘ انسانوں کے ہندسوں میں بدلنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ مشرقی پاکستان میں انسانی ہلاکتیں ہندسوں میں بدلتے بدلتے‘ ہزاروں تک پہنچیں اور پھر سارا خون جمع ہو کر بغاوت کی شکل میں اُبھرا۔ پاکستان کی سالمیت اس میں ڈوب گئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں پھر بھی غیرطبعی موت مرنے والوں کے نام موجود تھے۔ ان کے چہرے بھی تصویروں میں چھپ جاتے تھے۔ ان کے رشتہ داروں کے نام بھی آ جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ایک حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑا تو لاہور میں ہجوم پر گولی چل گئی‘ جس میں 8یا 9افراد ہلاک ہوئے۔ ان کے بھی نام تھے۔ ان کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی شناخت تھی۔ ان سب کی بھی تصویریں اور نام شائع ہو ئے تھے۔ اس واقعہ پر پنجاب کے ایک سینئر وزیر چوہدری اعتزاز احسن نے احتجاجاً وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت تک بھی‘ ہم انسان تھے۔ ہمارے نام تھے۔ ہمارے چہرے تھے۔ ہمارے اہل خاندان تھے۔ ضیاالحق کی آمریت آئی‘ تو ظلم و جبر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت بھی ہمارے نام باقی اور چہرے موجود تھے۔ اپنی ساری شناختوں کے ساتھ‘ ہمیں افغان جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ وہاں سے اعدادوشمار کا وہ کھیل شروع ہوا‘ جو آج ہماری زندگی کا عنوان بن چکا ہے۔ افغانستان سے خبریں آیا کرتی تھیں کہ بم کے دھماکے میں اتنے لوگ مارے گئے۔ ہیلی کاپٹر کے حملے میں اتنے ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد ہم‘ جن کے نام تھے۔ جن کے چہرے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندسوں میں بدلنے لگے۔ بوہری بازار میں دھماکہ ہوا۔ خبر آئی‘ اتنے مر گئے۔ پشاور میں دھماکہ ہوا۔ خبر آئی اتنے مر گئے۔ نام معدوم ہوتے گئے۔ چہرے دھندلاتے گئے۔ اعدادوشمار میں اضافہ ہونے لگا۔ پہلے خبروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہندسے میں ہوتی۔ پھر دو ہندسے ہوئے۔ پھر تین ہو گئے۔ اب یہ ہزاروں میں چلے گئے ہیں۔ اب ہم نام نہیں لکھتے۔ چہرے نہیں دکھاتے۔ بموں کے دھماکوں میں چہرے بچتے ہی نہیں۔ دکھائیں کیا؟ اب ہم کہتے ہیں ہمارے 35ہزار شہری شہید ہو گئے۔ ہماری فوج کے 5ہزار افسر اور جوان شہید ہو گئے۔ اتنے تو اعداد و شمار ہماری جنگوں کے نہیں‘ جتنے اب شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام شہری صرف ہندسے بن کر رہ گئے ہیں۔ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاورکے شہری گھر سے نکلتے وقت ‘ کسی نام کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی خاندان کے فرد ہوتے ہیں۔ کسی ہمسائیگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد‘ سکور بورڈ پر ہندسے آنا شروع ہوتے ہیں۔ 9 بجے صبح ٹیلیویژن پر ٹکر چلتا ہے کہ 3 ہلاک ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد گنتی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اور شام ڈھلنے کے بعد سکور ہوتا ہے کہ آج 24 افراد ہلاک ہوئے۔کراچی میں ہندسوں کا کھیل صرف دو جگہ دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک سٹاک ایکسچینج۔ دوسرے وہاں کی سڑکیں۔ سڑکوں کا ریٹ آتا ہے کہ آج 40ہلاک ہو گئے۔ سٹاک ایکسچینج کا ریٹ آتا ہے کہ مارکیٹ 50پوائنٹ گر گئی۔ فرق یہ ہے کہ سٹاک ایکچینج میں کم از کم یہ ضرور بتا دیا جاتا ہے کہ جو گرے‘ وہ پوائنٹس تھے۔ مگر انسانوں کا تو ذکر تک غائب ہوگیا۔ ان کے بارے میں صرف یہ خبر آتی ہے کہ 40ہلاک ہو گئے۔ کراچی کے شہری‘ اب صرف وہ ہندسے ہیں جومیزان کا حصہ بننے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ گھر کے اندر ان کا نام ہوتا ہے۔ گلی میں جائیں تو ان کی پہچان ہوتی ہے۔ سڑک پر نکل کر گولی کا نشانہ بنیں‘ تو ہلاک ہونے والوں میں ایک ہندسے کی حیثیت سے شمار ہونے لگتے ہیں۔ شام تک وہ دن کے پورے کھاتے کا حصہ بن جاتے ہیں۔پھر چند روز کے بعد ‘وہ میزان میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر آپ جب 30ہزار یا 35ہزارکے میزان میں ڈوب جانے والوں کو ڈھونڈتے ہیں‘ تو ہمارے وہی پیارے‘ وہی دلارے ‘ دلوں کے وہی ٹکڑے‘ جن کے نام تھے۔ جن کے چہرے تھے۔ جن کی شناخت تھی۔ جن کا پتہ تھا۔ وہ سب ہندسوں کے سمندر میں گم ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ شہر سمندر کے ساحل پر آباد ہے۔ سمندر میں قطروں کی پہچان نہیں ہوتی اور اس شہر کے اندر لاشوں میں بدلنے والوں کی بھی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ محض ایک میزان ہوتا ہے‘ جو سمندر کی بیکرانی کی طرح‘ یادوں کی حدوں سے آگے نکلتا رہتا ہے۔ ہمیں شرف انسانیت سے محروم کر کے‘ ہندسوں میں بدلنے والے‘ اپنے اپنے شعبے کی حدود میں رہ کر ایک ہی کام کرتے ہیں۔ ہمیں ‘ ہمارے ناموں‘ شناختوں اور ٹھکانوں سے الگ کر کے‘ ہندسوں میں بدل دیتے ہیں۔ٹرانسپورٹرز کے لئے ہم 90 یا 100 ہوتے ہیں۔ کشتی میں ڈیڑھ دو سو ہوتے ہیں۔پی آئی اے والوں کے نزدیک تین ساڑھے تین سو ہوتے ہیں۔ سیاسی جلوسوں میں ہم لاکھوں ہوتے ہیں۔ جلسوں میں ہم ملینز بن جاتے ہیں۔ خیرات مانگنے والوں کے ہجوم میں ہم سینکڑوں کی گنتی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ووٹروں کی فہرست میں ہم کروڑوں بن جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ ہمارے ہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ‘ کسی نہ کسی شعبے میں اپنانام کما کر معاشرے کا باوقار شہری بنا کرتا تھا۔ جتنی زندگی وہ اپنے خالق سے لے کر آتا‘ اسے پوری کرنے کا حق بھی ساتھ لاتا ۔یہ حق پہلی آمریت کے دور سے چھینا جانے لگا اور چوتھی آمریت ‘ہمیں انسانوں سے ہندسوں میں بدلنے کا عمل شروع کرگئی۔ اب ہم صرف اکائیاں ہیں‘جو دہائیوں ‘ سینکڑوں‘ ہزاروں اور لاکھوں کے میزان میں ڈوب کر گم ہونے کے لئے جی رہے ہیں۔یہ بھی کیسا جینا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved