تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     18-02-2018

مودی اسرائیل کے زخموں پر نمک کیوں چھڑکتے؟

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا تین روزہ مغربی ایشیا کا دورہ میرے ذاتی نقطۂ نظر سے خاصا کامیاب رہا۔ حقیقت میں یہ چار ملکوں کا دورہ ہو گیا تھا‘ کیونکہ مودی کو فلسطین جانے کے لئے جارڈن (اردن) کی دارالحکومت عمان سے ہیلی کاپٹر لینا پڑا تھا۔ یعنی انہیں کچھ دیر اردن میں بھی رکنا پڑا۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ سے اپنی مختصر ملاقات میں انہوں نے دہشت گردی وغیرہ جیسے ایشوز پر گفتگو کی۔ مودی جب فلسطین پہنچے تو صدر محمود عباس نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ انہوں نے مودی کو فلسطین کا اعلیٰ اعزاز گرانڈ کالر عطا کیا اور مودی نے فلسطین کے لئے پانچ کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ مودی نے فلسطینیوں کے مفاد کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی‘ لیکن مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کی بات کو وہ ٹال گئے۔ اس مدعہ کو اٹھا کر وہ اسرائیل کے زخموں پر نمک کیوں چھڑکتے؟ حالانکہ بھارت ان مدعوں پر ہمیشہ دو ٹوک رائے رکھتا رہا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ مودی نے اس معاملے میں چپ رہ کر ٹھیک کیا‘ کیونکہ مودی اس حوالے ٹھیک بات کرتے تو اسرائیل ناراض ہو جاتا اور فلسطین کو بھی اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت نے اسرائیل فلسطین تنازع کے بارے میں اپنی رائے بدل لی ہے بلکہ یہ ہے کہ کچھ معاملات میں سرِ عام چپ رہ کر‘ باہمی طور پر بات کرنا بہتر سیاست ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس دورے سے پہلے میں نے کہا تھا کہ مودی چاہیں تو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مصالحت بھارت کردار ادا کر سکتا ہے‘ میں اپنی بات پر اب بھی قائم ہوں۔ صدر عباس نے اس بات کو بیان دے کر دہرایا ہے۔ دیکھنا ہے کہ ہماری سربراہی اس معاملے میں صرف پرچار اور نوٹنکی سے مطمئن ہو جاتی ہے یا کچھ ٹھوس پہل بھی کرتی ہے؟ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا سوال ہے‘ وہاں کا یہ مودی کا دوسرا دورہ ہے۔ اس کے ساتھ ریل‘ بجلی‘ سڑک اور دیگر کئی شعبہ جات میں معاہدے ہوئے ہیں۔ ابوظہبی کی ایک تیل کمپنی میں بھارت نے دس فیصد کا حصہ لے لیا ہے۔ مودی نے ایک مندر کا بھی افتتاح کیا۔ مشترکہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف کھل کر مورچہ لیا گیا۔ سب سے اہم دورہ عمان کا رہا۔ عمان سے بھارت کے تعلقات پہلے سے مضبوط ہیں لیکن اس بار خلیج کے مہانے پر بسے دکم بندرگاہ کی سہولیات کے لیے جو معاہدہ ہوا ہے‘ وہ اہم پیش رفت ہے۔ عمان سے اگر تیل اور گیس کی پائپ لائن‘ بحری راستے سے سیدھی بھارت آ سکے تو جنوبی ایشیا کی شکل بدل سکتی ہے۔ یہاں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اب ایران کے صدر حسن روحانی کا ہونے والا دورۂ بھارت مودی کے ان دوروں کے حوالے سے کافی مثبت رہے گا۔
پاکستان کی عظیم بیٹی‘ عاصمہ جہانگیر
عاصمہ جہانگیر کی اچانک وفات کی خبر سن کر پاکستان ہی نہیں‘ سارے جنوبی ایشیا کے ممالک میں سمجھدار لوگوں کو بہت دھچکا لگا۔ عاصمہ جہانگیر 66 برس کی تھیں اور اس عمر میں بھی بے حد متحرک تھیں۔ ان سے میری ملاقات 1983ء میں (بزرگ لیڈر) مبشر حسن اور مشہور صحافی محترم آئی اے رحمان نے کروائی تھی۔ اس کے بعد بھارت اور پاکستان میں ہم درجنوں بار ملتے رہے‘ اتنی ہی بار بات چیت بھی کی گئی۔ وہ پاک بھارت دوستی کی علمبردار تھیں‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کی بہبود اور ترقی کا کام‘ اور لوگوں کو انصاف دلانے کا کام انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ پاکستان ہو یا
ہندوستان‘ یا دیگر ہمسایہ ملک‘ اگر وہاں کسی انسان کا حق مارنے کا کام ہو رہا ہو تو عاصمہ جہانگیر شیرنی کی طرح دہاڑتی تھیں۔ وہ غریب سے غریب آدمی کے لیے لڑنے کو تیار ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کئی طوفان اٹھا دیے تھے۔ اکیلی عاصمہ بہن کافی تھیں‘ جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کا دم پُھلانے کے لیے۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی‘ جھوٹے مقدمے لڑنے اور روپے کمانے کے لیے نہیں‘ بلکہ زمانے کے جبر کے ستائے ہوئے بے زبان مظلوموں‘ محروموں کو انصاف دلانے کے لیے۔ انہیں کئی بار جیل جانا پڑا اور متعدد بار نظر بند بھی رہنا پڑا‘ اس کے باوجود انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور آخری دم تک اپنے اس آدرش پر قائم رہیں۔ وہ غریبوں کو ہر دم ان کا حق دلاتی رہیں۔ وہ ہمت کی دھنی تھیں۔ وہ مشکل سے مشکل چیلنج قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ کئی موقعوں پر انہوں نے انہونی کو ہونی کر دکھایا۔ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ عاصمہ اتنی بہادر ہیں۔ مشرف کے خلاف چلی وکیلوں کی تحریک میں عاصمہ جہانگیر نے زبردست کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس چودھری افتخار محمد کی کھلی حمایت کی تھی‘ انہیں بحال کرایا تھا۔ لیکن بعد میں حالات بدلے تو انہوں نے پھر انہی جسٹس افتخار چودھری کے جمہوریت مخالف فیصلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کی۔ وہ دیکھنے میں خوبصورت اور معصوم تھیں۔ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل میں فرشتے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو اپنی اس عظیم بیٹی پر ناز ہونا چاہیے۔ وہ ایک باہمت خاتون تھیں۔ وہ پاکستان کے تاج میں جڑے ہوئے چمکدار ہیرے کی طرح تھیں۔ انہیں میرا خراج عقیدت!
باتوں کی استاد سرکاریں
پاکستان میں سرکار کو یہ اختیار دیا گیاہے کہ وہ وہاں متحرک دہشتگرد گروہوں پر پابندی لگائے‘ ان کے دفتر بند کرے‘ اور ان کے بینک کھاتے رد کرے۔ حکومت پہلے ہی دہشت گردوں کے متعدد سرغنوں پر مقدمے چلا چکی ہے‘
اور کچھ کو نظربند اور گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنے لوگ افغانستان اور بھارت میں مارے جاتے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ پاکستان میں دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود وہاں دہشت گردی جاری رہتی ہے۔ یہ آرڈیننس لائق تعریف ہے‘ لیکن اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گرد اپنے گروہوں کے نام بدل لیں گے یا نئے اتحاد کھڑے کر لیں گے۔ بینک کھاتے بھی نئے ناموں سے کھل جائیں گے‘ اور اس طرح دہشت گردی کے حوالے سے مسائل برقرار رہیں گے۔ پاکستان کی فوج دہشت گردی کے خلاف مہم میں شاندار کارکردگی دکھا رہی ہے‘ جو خوش آئند ہے۔ اس مہم کی رفتار بڑھائی جائے۔ جہاں تک بھارت سرکار کا سوال ہے‘ وہ ہر دہشت گردانہ حملے کا جواب بیان بازی سے دیتی ہے۔ بھارتی سرکار کے وزرا اور وزیر اعظم آج کل جملے بازی کو اپنی لاٹھی بنائے ہوئے ہیں۔ بیانات اور جملہ بازی کی لاٹھیوں کے سہارے انہوں نے چار سال کاٹ دیے ہیں۔ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ پاکستان سے بات کیے بنا کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مودی سرکار یہی تو کر رہی ہے‘ یعنی صرف باتیں۔ باتیں بنانے میں اس کا کوئی جواب‘ کوئی ثانی نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو سب سرکاریں باتوں کی استاد ہوتی ہیں۔
مودی نے فلسطینیوں کے مفاد کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی‘ لیکن مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کی بات کو وہ ٹال گئے۔ اس مدعہ کو اٹھا کر وہ اسرائیل کے زخموں پر نمک کیوں چھڑکتے؟ حالانکہ بھارت ان مدعوں پر ہمیشہ دو ٹوک رائے رکھتا رہا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ مودی نے اس معاملے میں چپ رہ کر ٹھیک کیا‘ کیونکہ مودی اس حوالے ٹھیک بات کرتے تو اسرائیل ناراض ہو جاتا اور فلسطین کو بھی اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved