برادرم ہارون الرشید نے اگلے روز اپنے کالم میں علامہ اقبال کا ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
یہ علامہ کے ایک قطع کا دوسرا مصرعہ ہے، پورا قطعہ اس طرح ہے:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اس میں ایک غلطی صاحب موصوف نے کی ہے کہ لفظ روزگار کے بعد یائے نہیں بلکہ ''ر‘‘ کے نیچے زیر ہے۔ تاہم یہ ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے جبکہ اصل گڑ بڑ علامہ صاحب کے دوسرے مصرعہ میں ہے جہاں ''فقیر‘‘ کے بعد ''یائے‘‘ لگا دی گئی ہے جو باکل فالتو ہے اور قواعد کے لحاظ سے بھی درست نہیں کیونکہ جس لفظ کے بعد ''یائے‘‘ آئے وہ ''ایک‘‘ کے معنوں میں آتی ہے اور ایں فقیر کے بعد معنوی لحاظ سے مصرعہ مکمل تھا البتہ نصف رکن کی کمی تھی جو علامہ نے ''یائے‘‘ لگا کر پوری تو کر دی جبکہ مصرعہ کے معنی یہ ہیں کہ اس فقیر کا روزگار یا زمانہ ختم ہوا اور یائے لگانے سے مطلب یہ ہوگیا کہ اس ایک فقیر کا روزگار اختتام کو پہنچا، چنانچہ خانہ پُری تو ہو گئی لیکن ''یائے‘‘ کا فالتو ہونا برقرار ہے۔ البتہ ''اگر اے فقیرم‘‘ کہہ دیتے تو صورتحال کچھ نہ کچھ بہتر ہو سکتی تھی، اگرچہ ''م‘‘ یہاں بھی کھٹکتا ہے۔ نیز یہ تعلِی کا شعر ہے اور شعر میں تعلِی کچھ زیادہ پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی۔ شاعر اپنے آپ کو جیسا کہہ رہا ہے اور اپنی جو توصیف بیان کر رہا ہے‘ اگر وہ واقعی ایسا ہے بھی تو اسے اس سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اصل توصیف و تعریف وہی ہوتی ہے جو دوسرے کریں۔ نیز جینوین شاعر کو انکسار سے کام لینا چاہیے۔ کسی حد تک یہ اس زمانے کا چلن بھی تھا جیسا کہ غالب کے ہاں تعلِی کے اشعار وافر تعداد میں دستیاب ہیں۔ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ علامہ نے دوسرے مصرعے میں بھی نسیمے کہہ کر ''یائے‘‘ کا جو اضافہ کیا ہے‘ وہ بھی ایسے ہی ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک نسیم حجاز سے آئے‘ نہ آئے۔ صرف ''نسیم‘‘ لکھنے سے بھی مطلب پورا ہو جاتا تھا لیکن چونکہ جگہ بچتی تھی اس لئے یہاں بھی ''یائے‘‘ ہی سے کام لیا گیا۔ البتہ اگر یہاں ''یائے‘‘ سے ''کوئی‘‘ مطلب لیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے لیکن بہت کم۔ کیونکہ اساتذہ جہاں بھی ''نسیم‘‘ مصرعے میں لائے ہیں تو صرف نسیم ہی لکھا ہے، ایک نسیم یا کوئی نسیم نہیں البتہ ''اے نسیم‘‘ ضرور کہا گیا ہے یعنی جہاں اسے مخاطب کیا گیا ہو مثلاً
نسیما جانب بستاں گزر کن
بگو آں نازنیں شمشادِ ما را
بہ تشریف قدوم خود زمانے
مشرف کن خراب آبادِ ما را
یہ مثال اس لئے بھی دی ہے کہ یہاں بھی شاعر نے ''زمانے‘‘ میں یائے کا استعمال کیا ہے یعنی کسی وقت جو کہ یہاں ضروری بھی تھا اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔
غلطی چونکہ ہر کوئی کر سکتا ہے اور اساتذہ نے بھی فنی غلطیاں کی ہیں جن کی نشانی دہی بھی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہنی چاہیے بھی۔ شاعر کے زندہ اور اہم اہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے کلام کی چھان پھٹک ہوتی رہے۔
میں نے چند سال پہلے ''دیوان غالب مرمت شدہ‘‘ کے عنوان سے کئی قسطوں میں ایک مضمون لکھا تھا جو مجیب الرحمن شامی صاحب کے ہفتہ روزہ ''زندگی‘‘ میں چھپتا رہا اور جو ان شاء اللہ میرے تنقیدی مجموعہ ''لاتنقید‘‘ کی دوسری جلد میں شامل ہو گا۔ اس پر لے دے بھی بہت ہوئی کہ دیکھو جی! یہ غالب کی غلطیاں نکالتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میں نے میرؔ کے اس شعر پر بھی اعتراض اٹھایا تھا
میرؔ کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میں نے عرض یہ کیا تھا کہ میرؔ صاحب کہنا دراصل یہ چاہتے تھے کہ عطار کے اسی لونڈے سے دوا لیتے ہیں لیکن مصرعہ سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ عطار کے سبب بیمار ہوئے ہیں‘ اس کے لونڈے کے سبب نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ضرورت شعری تھی اور مصرے کی بُنت ایسی تھی کہ اس میں عطار کے لونڈے ہی آ سکتا تھا‘ عطار کے اسی لونڈے سے نہیں۔
اور اب آخر میں خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
یہ عشق ہے تو کیا ہے کہ مقصد کوئی نہیں
جس میں اداس رہنے کی بھی حد کوئی نہیں
آباد ہے یہ دل ترے قدموں کی چاپ سے
اور‘ اس طرح کا دہر میں گنبد کوئی نہیں
ہو جائے جو بھی تیری محبت سے منحرف
اس جیسا اس دیار میں مرتد کوئی نہیں
جس سے تمہارے نام کے ہجے بنا سکیں
دنیا میں اس مثال کی ابجد کوئی نہیں
اللہ کی طرف سے محبت کا یہ ورود
ہے وہ دلیل جس کا کہیں رد کوئی نہیں
ہم گھاس کی طرح بھی نہیں اُگ سکے یہاں
حالانکہ سر پہ سایۂ برگد کوئی نہیں
آوارگانِ شہر کو مت کہہ بُرا کہ یہ
سارے کے سارے نیک ہیں اور بد کوئی نہیں
کوئی شریف آدمی کیسے جیئے یہاں
تعریف ہے کوئی نہ خوشامد‘ کوئی نہیں
اونچا نہیں ہوا شجرِ شاعری‘ ظفرؔ
پھیلائو بے حساب ہے اور قد کوئی نہیں
آج کا مطلع
خوشی اگر نہیں کی ہے‘ ملال کیا کرتا
جواب تھا میرے اندر‘ سوال کیا کرتا