سیاست میں اور عام زندگی میں بھی جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے، وہ حالات ہیں۔ حالات کا جبر انسانوں سے وہ کچھ کرواتا ہے، جو کبھی ان کے تصور میں بھی نہیں ہوتا۔ لوگ جب سیاست کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وہ حالات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پاکستان کا قرض چھ ہزار ارب روپے سے بڑھا کر چودہ ہزار ارب روپے کردینے والے، سرے محل کے مالک اور سوئٹزر لینڈ کے 60 ملین ڈالرز رکھنے والے زرداری صاحب کیا پاک صاف ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیا ماجرا ہے کہ نواز شریف کو تو عدالت نے نااہل کر دیا او زرداری صاحب اپنے پانچ سال پورے کرکے ہی واپس گئے۔ ایسے سوالات کرنے والے حالات کے رخ کو نہیں سمجھتے۔ جس وقت سرے محل کا قصہ سامنے آیا تھا، پاکستانی میڈیا اور عدالتیں آزاد نہیں تھیں۔ ایک وقت تھا، جب جسٹس سجاد علی شاہ کو میاں صاحب نے زچ کر کے رکھ دیا تھا۔ سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا گیا تھا۔ آج پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی سپریم کورٹ پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر کوئی ایسا اقدا م کرے گا تو میڈیا، عوامی دبائو اور وکلا کونسلز ایک تحریک چلا کر اسے سیاست سے نکال باہر کریں گے۔ پرویز مشرف کی طرف سے جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی اور پھر کئی سال تک وکلا، میڈیا اور عوامی جدوجہد سے بحالی کے نتیجے میں عدالت انتہائی حد تک طاقتور ہوئی۔ طاقتور میڈیا کا وجود، جس میں حکومتِ وقت پر شدید تنقید کی جا سکتی ہو، وہ ایک دوسری وجہ ہے۔ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ تو بہرحال پاناما لیکس ہی ہیں۔ زرداری صاحب کے زمانے میں ایسی کوئی عالمی لیکس سامنے نہیں آئیں، جن میں سربراہانِ مملکت سمیت اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کی اس طرح کی تفصیل سامنے آئی ہو۔ کئی لوگوں کو، بشمول آئس لینڈ کے وزیراعظم کو اس پر استعفیٰ دینا پڑا۔ اگر کبھی دبئی لیکس سامنے آئیں تو آپ دیکھیں گے کہ سندھ کابینہ اور پیپلز پارٹی کے کتنے عہدیدار اس میں فارغ ہو تے ہیں۔ ایک بہت بڑا فیکٹر تو بہرحال خود عمران خان ہیں۔ پاناما لیکس دب چکی تھیں‘ اگر رائیونڈ میں بہت بڑا جلسہ نہ ہوتا، اگر اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کا اعلان نہ ہوتا، اگر پختونخوا سے پرویز خٹک کی قیادت میں تحریکِ انصاف کا قافلہ بھرپور شیلنگ کا سامنا کرتا ہوا اسلام آباد کا رخ نہ کرتا۔ یہ حالات کا دبائو تھا، جس میں چیف جسٹس کو پاناما لیکس کا معاملہ ٹیک اَپ کرنا پڑا۔
میرا یہ کالم سیاست پر نہیں بلکہ ایک بہت ہی حیران کن انکشاف پر ہے۔ جب انسان سیاست اور حالات پر غور کرتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ خدا حالات کا رخ کیسے متعین کرتا ہے۔ سیاست اور عام زندگی میں بھی اہم ترین چیز، حالات کا رخ خدا کی طرف سے اس طرح سے متعین کیا جاتا ہے کہ ایک خاص طرح کے لوگ کسی بہت بڑے منصب تک پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی ضدی ہوتے ہیں۔ ان کے ماتحت ان کے خوف سے کانپتے رہتے ہیں۔ ان میں لچک نہیں ہوتی۔ بالخصوص اگر کوئی انہیں دبانے کی کوشش کرے تو یہ قبر تک اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ یہ لوگ فصیح ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ضرورت پڑنے پر 24 میں سے 20 گھنٹے بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ بلند بانگ اور بلند آہنگ کے ساتھ جب وہ ایک ایسی بات پر پوری قوت کے ساتھ زور دیتے ہیں، جو عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوتی ہے تو حالا ت کا رخ بدل جاتا ہے۔ آپ پاکستانی سیاست اور معاشرے میں دیکھ لیجیے۔ آ پ کو ایسے لوگ صاف نظر آ جائیں گے۔ مجموعی طور پر یہ مثبت کردار کے حامل ہوتے ہیں لیکن منفی کردار والے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی حد تک خطرہ مول لینے والی فطرت رکھتے ہیں۔
حالیہ پاکستانی تاریخ میں ان لوگوں میں ڈاکٹر شعیب سڈل، جسٹس افتخار محمد چوہدری، ذوالفقار مرزا، حتیٰ کہ مصطفی کمال اور ایسے کئی کردار مل جائیں گے۔ یہ ضرورت پڑنے پر اپنی حدود سے باہر نکلتے ہیں۔ انتہائی حد تک خطرہ مول لیتے ہیں۔ دشمن پہ پل پڑتے ہیں۔ اپنے مؤقف پر جم جاتے ہیں۔ یہ انتہائی غصہ ور ہوتے ہیں۔ یہ عوامی رائے بدل دیتے ہیں۔ میڈیا میں کسی حد تک نصرت جاوید بھی ان میں شامل ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ سال پہلے جب الطاف حسین نے میڈیا والوں کو بے غیرت کہا تو نصرت جاوید نے ان کا بھرپور مذاق اڑایا۔ ان کو دھمکیاں ملیں۔ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ حالات کے جبر نے بہرحال انہیں ان کی پوزیشن پر بحال کر دیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے تو بعد میں اپنا قد کاٹھ بہت چھوٹا کر لیا۔ پے درپے غلطیوں سے قومی سیاست میں انہوں نے اپنا کردار ختم کر دیا لیکن بہرحال عدلیہ کی آزادی میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش تھا۔
میرے والد ہارون الرشید بھی حالات کا رخ متعین کرنے والے ان لوگوں میں شامل ہیں۔ جس وقت انہوں نے عمران خان کو نواز شریف سے بہتر قرار دینا شروع کیا، اس زمانے میں اس بات کا مذاق اڑایا جاتا۔ جب انہوں نے الطا ف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف محاذ کھولا تو اکثر لوگ انہیں اس سے باز رہنے کا مشورہ دیتے۔ مشرف کے جانے کے بعد جب جنرل کیانی کے دور میں انہوں نے فوج کے حق میں کلمۂ خیر کہنا شروع کیا، تب فوج کے حق میں بات کرنا انتہائی مشکل تھا۔ عمران خان اگر یہ سمجھ کر ان سے تعلقات ختم نہ کر دیتے کہ اب مجھے ہارون الرشید کی ضرورت نہیں‘ اگر مشورے کے ساتھ پارٹی ٹکٹ اچھے امیدواروں کو دئیے جاتے‘ اگر ایک درست حکمتِ عملی اختیار کی جاتی تو 2013ء میں ان کے اقتدار کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ عمران خان اکثر لوگوں کے سامنے جنرل کیانی پر منفی تبصرے بھی کیا کرتے۔ 2012ء میں ایجنسیوں نے تحقیق کی تو عمران خان 90 سیٹیں جیت رہے تھے۔ 90 سے 30 تک کا سفر طے کرنے میں سب سے بنیادی وجہ انتہائی غیر موزوں امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنا تھا۔ انتہا تو یہ تھی کہ پشاور اور میانوالی میں جو سیٹیں عمران خان نے عام انتخابات میں جیت لی تھیں اور جن پر شکست کا کوئی خدشہ ہی نہ تھا، وہ بھی پارٹی نے ہار دیں۔ میانوالی میں تو نہ صرف سیٹ ہار دی گئی بلکہ کپتان نے اپنے خاندان سے تعلقات بھی کشیدہ کر ڈالے۔
بہرحال یہ سب تو تاریخ کا حصہ ہے۔ اگر 2018ء کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ اور حکمتِ عملی درست نہ ہوئی تو ایک بار پھر نون لیگ کے اقتدار کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ فی الحال ایسا ہی لگتا ہے کہ 60، 70 سیٹیں نون لیگ جیتے گی اور اتنی ہی تحریکِ انصاف۔ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار جیتیں گے اور پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھیں گے، فی الحال جو سیاست سے مکمل طور پر لا تعلق نظر آتی ہے۔
پسِ تحریر: 8 سال سے میں والد صاحب کو اسسٹ کر رہا ہوں۔ اتنے عرصے میں دو لیپ ٹاپس زیادہ نہیں۔ ایسے فرزند کو، جو آپ کے لیے ہر لمحہ حاضر ڈرائیور، کمپوزر اور ریسرچر کے فرائض تنِ تنہا انجام دے رہا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ کالم نویسی میں آپ کی نمائندگی کرتے ہوئے نیک نامی کا باعث بھی ہو۔ ہو سکے تو سالانہ ایک اچھا موبائل فون بھی اس ڈیل میں شامل کریں۔