کسی کو گڑھے میں گِرنے کا شوق ہو سکتا ہے؟ یہ ہنسنے کی بات نہیں، سوچنے کا موقع ہے۔ آپ سوچیں گے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسا بے وقوف کون ہو گا جو گڑھے میں گِرنے کا شوق پالے گا؟ مگر ہم اپنے ماحول پر نظر ڈالیں تو بہت سے لوگ ایسا ہی کرتے ملیں گے۔ جن چیزوں سے صحت کو صرف نقصان پہنچ سکتا ہے اُن چیزوں کو بلاناغہ استعمال کرنے والوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ گڑھے میں گِرنا اور کیا ہوتا ہے؟
گھر بسانا بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ گھر بسانے کے معاملے میں بالعموم اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ باقی سب کچھ اجاڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ منزل ایک طرف رہ جاتی ہے اور شوقِ سفر ہی سب کچھ ہو جاتا ہے۔ گھر بسانے کے معاملات میں بھی بالعموم ایسا ہی رجحان دیکھا گیا ہے۔ جیسے ہی کوئی پرکشش رشتہ دکھائی دیتا ہے آنکھیں بند کرکے ہاں کر دی جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ رشتے کا حدود اربعہ کیا ہے، اُس کے مضافات میں کون کون آباد ہے!
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی لڑکی لڑکوں والی وضع قطع بناکر دنیا کو اس حد تک بے وقوف بنا دے کہ شادی بھی کر بیٹھے اور کسی کو پتا نہ چلے؟ آپ سوچیں گے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں مگر اِتنے بھی نہیں کہ کسی لڑکی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جائیں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک لڑکی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اور ایک بار نہیں، دو بار۔
اترا کھنڈ (بھارت) میں ایک لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس نے مرد بن کر دو شادیاں کیں! سوئیٹی سین نے کرشنا سین بن کر گھر بسایا۔ اس نے ایک ''بیوی‘‘ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ سوئیٹی سین نے 2013ء میں فیس بک پر پروفائل بنائی۔ اس پروفائل کے ذریعے اس نے دو لڑکیوں سے دوستی کی اور پھر انہیں محبت کے جال میں پھانس کر اُن کا جیون ساتھی بن گئی! ایک لڑکی کو اس نے بتایا کہ وہ علی گڑھ کے ایک بزنس مین کا ''بیٹا‘‘ ہے۔ شادی کے بعد اس نے ''بیوی‘‘ کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا اور کاروبار کی خاطر رقم منگوانے کے لیے دباؤ ڈالنے لگی۔ دوسری شادی 2016ء میں ہوئی۔ اس دوران بیوی کو اس کے مرد ہونے پر شک ہوا تو اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ شکایت درج کرائے جانے پر پولیس نے سوئیٹی کو گرفتار کر لیا۔
سوئیٹی نے بتایا کہ اس نے جہیز جمع کرنے کے لیے یہ ڈراما کیا۔ لڑکوں والی وضع قطع اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے سگریٹ پینے کی عادت ڈالی اور موٹر سائیکل چلانے کی تربیت بھی حاصل کی۔ اس کے شب و روز لڑکوں کی طرح گزرتے تھے اور وہ کسی پر اپنا لڑکی ہونا ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔ پولیس اب اس کے اہل خانہ کو تلاش کر رہی ہے جو رشتہ کراتے تھے۔
دیکھ لیجیے! دنیا کہاں سے کہاں سے پہنچ گئی اور ہمارے خطے میں اب تک معاملات کہاں اٹکے ہوئے ہیں! خوشا کہ ہم اب تک اختلاطِ مرد و زن کے قائل نہیں۔ اخلاقی حدود و قیود کا شدید احساس موجود ہے۔ شادی کا ادارہ اب تک برقرار ہے۔ فی زمانہ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ مغرب دنیا کو پانے کے چکر میں اِس دنیا کی بہت سی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے‘ اِن میں شادی کا ادارہ بھی شامل ہے۔ اختلاطِ مرد و زن کے معاملے میں مادر پدر آزادی وہاں زندگی کے چلن میں شامل ہو چکی ہے۔ لوگ شادی کرتے بھی ہیں تو اِسے ایک مقدس بندھن سے ہٹ کر محض معاشرتی تقاضوں کا ایک چھوٹا سا جُز سمجھتے ہیں۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ مغرب میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ شادی ہوئی اور کچھ مدت بعد معلوم ہوا کہ دلہن تو مرد ہے یا دولہا عورت ہے! وہاں اگر ایسا ہوتا ہے تو کچھ حیرت کی بات نہیں۔ وہاں کون رشتوں کے معاملے میں زیادہ چھان پھٹک کرتا ہے؟ زیادہ سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارہ نہیں کرتا۔ ایک بار ڈیٹ پر گئے، ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کرلی۔ ؎
اب آگے جو بھی ہو انجام، دیکھا جائے گا
خدا تراش لیا اور بندگی کر لی!
ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں شادی ''لائف ٹائم ایونٹ‘‘ ہے اور شادی کی تیاری کا ہر عمل ایونٹ سے کم نہیں ہوتا۔ شادی کی تیاریوں سے پہلے رشتہ طے کرنے کا مرحلہ بجائے خود لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ فریقین بہانے بہانے سے مل بیٹھتے ہیں اور کھانے پینے، گپ شپ لگانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
رشتہ طے کیے جانے کے مراحل میں بزرگوں کا اور بالخصوص بڑی بوڑھیوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ خوب چھان پھٹک کرتی ہیں تاکہ رشتے کا ہر جوڑ اچھی طرح بیٹھے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوئیٹی کو جانچنے اور پرکھنے کے معاملے میں متعلقہ بڑی بوڑھیوں کی عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی تھی؟ کسی بھی خاندان میں بزرگ خواتین کس کام کے لیے ہوتی ہیں؟ اُن سے کوئی کھانا تو پکواتا نہیں۔ جھاڑو پونچھا بھی نہیں لگوایا جاتا۔ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں اُن کا مصرف اور منصب یہ رہ جاتا ہے کہ رشتے وغیرہ طے کرنے کرانے میں اپنا کردار ڈٹ کر، پورے جوش و خروش سے ادا کریں۔ یہ کیسی بزرگ خواتین تھیں جنہیں مردانہ وضع قطع والی سوئیٹی کا زنانہ پن ہی دکھائی نہ دیا؟ عورت کی نزاکت کو عورت نہیں پہچانے گی تو اور کون پہچانے گا؟ رشتے کے سلسلے میں دونوں لڑکیوں کے والدین اور دیگر بزرگوں نے سوئیٹی سے ملاقاتیں بھی کی ہوں گی اور باتیں بھی کی ہوں گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دونوں لڑکیاں کیسی عقل لے کر دنیا میں آئی ہیں جو سوئیٹی کی اصلیت بھانپنے میں ناکام رہیں؟ اُس کے نام کی مٹھاس اُس کی شخصیت میں محسوس کیوں نہ ہوئی؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ سوئیٹی اپنی حقیقت چھپانے میں اس حد تک کامیاب رہی کہ بارات لے کر آئی اور دلہنیا لے کر چلتی بنی۔ اِسے کہتے ہیں آنکھوں سے کاجل چُرانا!
دنیا کو جو کچھ کرنا ہے‘ کرتی رہے۔ تحقیق و ترقی کے بازار گرم کرتی رہے۔ ہم تو اپنی ہی موج میں بہتے رہیں گے۔ سوئیٹی کو داد دینا پڑے گی کہ اُس نے ایک دو نہیں، دونوں سسرالوں کے بیسیوں بزرگوں کی آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی کہ کسی کو کچھ اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ اگر ہمارے بس میں ہو تو ہم سوئیٹی کو ''کمالِ فن‘‘ ایوارڈ سے نوازیں! کسی لڑکی کا لڑکا بن کر ایسی بھرپور کامیابی حاصل کرنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں۔ ایسے ہی ''صاحبانِ فن‘‘ کے دم سے تو ہمارے معاشرے کی رونق برقرار ہے۔ دھوکا خوبصورت ہو تو کون ہے جو خوشی سے کھانا پسند نہیں کرے گا؟ سوئیٹی کا کیس انوکھا نہیں۔ کوئی کھانے کو تیار ہو تو یہاں قدم قدم پر سو دھوکے ہیں۔ تو بچ بچ کے چلنا حضور!