کیا آپ کا وزیراعظم اسی طرح ذلیل و رُسوا ہوتا رہے گا ؟: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ '' کیا آپ کا وزیراعظم اسی طرح ذلیل و رُسوا ہوتا رہے گا‘‘ حالانکہ اس کی مجبوریوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ ملک کی دونوں ہاتھوں سے خدمت اس کی سب سے بڑی مجبوری ہے ‘ اگرچہ اب آپ لوگ بھی اس کا اصل راز سمجھ گئے ہوں گے اور ‘آپ کی متوقع طوطا چشمی کا میں اندازہ لگا رہا ہوں کہ جب مرکز اور پنجاب میں ہماری حکومت کی بجائے ایک نگران حکومت کام کررہی ہوگی اور فصلی بٹیرے بھی اڑانیں بھر چکے ہوں اور خاکسار صرف قیدیوں کے سامنے ولولہ انگیز تقریریں کررہا ہوگا تو اس وقت پتا چلے گا کہ کس بھائو بکتی ہے، ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ '' فیصلے امپائر کی انگلی نہیں ، عوام کے انگوٹھے کرتے ہیں ‘‘ اور خدشہ ہے کہ عوام کی طرف سے ہمیں انگوٹھے ہی دکھائے جائیں گے ، انہوں نے کہا کہ ''لودھراں کا فیصلہ دنیا میں گونج رہا ہے ‘‘ اگرچہ ہمارے خلاف جو فیصلے آنے والے ہیں ان کی گونج رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔ آپ اگلے روز لودھراں میں شکرانے کا خطاب کررہے تھے ۔
20 کروڑ عوام کے نمائندوں کو مافیا ‘ ڈاکو اور
چور کہنا قبول نہیں : شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ '' 20 کروڑ عوام کے نمائندوں کو مافیا ‘ ڈاکو اور چور کہنا قبول نہیں ‘‘ کیونکہ اگر گاڈ فادر کہا گیا تھا تو وہی کافی تھا کیونکہ زیادہ جامع فقط ہے نیز لفظوں کے استعمال میں کفایت شکاری سے کام لینا چاہئے کیونکہ اب ہمارے پاس بھی صرف الفاظ ہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں سابق وزیراعظم نہایت کفایت سے استعمال کررہے ہیں اور 20 کروڑ عوام الگ سے حیران و پریشان ہو رہے ہیں کہ کیا ہمارے ووٹ کا تقدس یہ ہے کہ سارا کچھ اکٹھا کرکے بیرون ملک بھجوا دیا جائے حالانکہ اپنی نیک کمائی کو گھر میں ہی رکھنا چاہئے تاکہ اس کی برکت میں اضافہ ہوتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ '' ملک میں ایک ملزم نظر آرہا ہے اور وہ ہے نوازشریف ‘‘ حالانکہ دیگر شرکاء بھی انہی کے شانہ بشانہ چل رہے تھے ، انہیں نظر ا نداز کرنا بجائے خود ایک زیادتی ہے اور ان کی خدمات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے اور کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ اگلے روز حافظ آباد میں ہیلتھ کارڈ سکیم کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔
عوام اپنے ووٹ کے تقدس اور احترام
کے لئے نوازشریف کے ساتھ ہیں : پرویز رشید
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عوام اپنے ووٹ کے تقدس اور احترام کے لئے نوازشریف کے ساتھ ہیں کیونکہ انہوں نے عوام کے دیئے ہوئے ووٹوںکا خود جو احترام کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس لئے جب تک مرکز اور پنجاب میں ہماری حکومت ہے ہم ووٹوں کا تقدس اُجاگر کرتے رہیں گے بلکہ اس بہانے اپنے دیگر اُلو بھی سیدھے کرتے رہیں گے اور عوام انشاء اللہ یہی سمجھتے رہیں کہ ہم لوگ واقعی ووٹ کا احترام کررہے ہیں اور جو کچھ چار سال تک کیا ہے، ووٹ کے احترام ہی میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' نوازشریف نے لوڈشیڈنگ ختم کرکے ملک کو اندھیروں سے نکال دیا ہے ‘‘ جس کے لئے ہم موسم سرما کے انتہائی شکر گزار ہیں جس کی بدولت ایئر کنڈیشنر وغیرہ بند ہیں اور بجلی کی کھپت بہت کم ہو کر رہ گئی ہے البتہ مارچ اپریل کے شروع ہوتے ہی پھر یہی رنڈی رونا شروع ہو جائے گا اور سارا کیا کرایا خاک میں مل جائے گا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔
ہمارے مولوی محمد سعید اظہر
ہم دونوں پیدائشی پیپلئے ہیں اور یہ تعلق اسی گرمجوشی سے اب تک چلاتا رہا ہے کیونکہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اگر ایک بار دماغ میں گھس جائیں تو مشکل ہی سے باہر نکلتی ہیں۔ ملاقات ایک دوسرے کے کالموں ہی کے ذریعے ہوتی ہے اور یہ بھی بسا غنیمت ہے۔ اگرچہ آپ تشریف لانے کا وعدہ بھی کرچکے ہیں لیکن شاید کالمی ملاقات ہی کو کافی سمجھے ہوئے ہیں۔ آج ان کی بے ساختہ یاد آوری کا بہانہ شہزاد احمد مرحوم کا شعر ہے جو کل انہوں نے اپنے کالم '' کاروانِ وقت جا پہنچے گا ایک پل میں کہاں ‘‘ کے عنوان سے شائع کرتے ہوئے اس طرح درج کیا ہے
شہزاد بڑی چیز ہیں لاہور کے گلی کوچے
اور تُو نے گھر بیٹھ کر ہی عمر گنوا دی
بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر شہزاد ؔ کا نہیں بلکہ موصوف کے اپنے ہی زور قلم کا کرشمہ ہے کیونکہ دونوں شعر وزن سے محروم ہیں۔ شعر تو مجھے بھی یاد نہیں ہے لیکن تھوڑے لوہارے ترکھانے کے بعد اس کی درست صورت یوں ہوسکتی ہے ۔
شہزاد بڑی چیز ہیں لاہور کی گلیاں
اور تُو نے تو گھر بیٹھ کے ہی عمر گنوا دی
بلکہ عنوان میں بھی لفظ '' ایک ‘‘ کی بجائے ''اک‘‘ ہونا چاہئے تاکہ یہ بے وزن ہونے سے بچ جائے۔ واضح رہے کہ یہ صرف یاد آوری کا بہانہ تھا۔
آخر میں نیٹ سے موصول ہونے والی شاعری کے کچھ نمونے :
ایک وہ خواب تھا جو نیند میں آنا تھا ضمیر ؔ
ایک یہ خواب ہے ، سونے نہیں دیتا مجھ کو
نظر قریب سے کرتی نہیں ہے کام ضمیر ؔ
دماغ دور تلک سوچنے سے عاری ہے
میں وہ سکوت ہوں جو تیرے کام کا نہیں
تو ایسا شور ہے جو میں مچا نہیں سکتا
( ضمیر ؔ طالب )
آج کا مطلع
ہوا نہیں ہے تو امکان ہو بھی سکتا ہے
وہ معجزہ جو کسی آن ہو بھی سکتا ہے