کسی بھی پلیٹ فارم سے خود کو متعارف کرانا انتہائی آسان ہوچکا ہے مگر چونکہ یہ سہولت سب کے لیے میسر ہے اس لیے اس بھیڑ میں اپنے آپ کو منوانا انتہائی دشوار ہے۔ لوگ صلاحیتوں کے اظہار کے لیے سو طریقے اپناتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو جانیں اور مانیں تو کچھ ایسا کرنا پڑے گا جو لوگوں پر اثر انداز ہو، انہیں متاثر کرے۔
لوگ اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ انفرادیت دکھائی دے۔ منفرد دکھائی دینے کا خبط اگر ذہن پر سوار ہو جائے تو سمجھ لیجیے بندہ گیا کام سے۔ اللہ نے ہمیں ایسے جسم سے نوازا ہے جس میں سبھی کچھ مکمل توازن کے ساتھ ہے۔ اس توازن کو بگاڑنا اللہ کے کام میں دخل دینا ہے مگر لوگ باز نہیں آتے۔ اب برطانیہ کی ایک مشہور فنکارہ کا معاملہ ہی لیجیے جس نے محض منفرد دکھائی دینے کے خبط میں مبتلا ہوکر بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کاٹ ڈالی۔ آپ سوچیںگے اس میں انفرادیت پیدا کرنے والی بات کون سی ہے۔ عرض ہے کہ ایسیکس کی ٹورز رینلڈز دس سال سے چھوٹی انگلی کاٹنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس انگلی کو مزید چھوٹی کرکے اِسے ہیٹ نما زیور پہنائے! ٹورز نے گھر میں موجود وائر کٹر کی مدد سے انگلی کاٹ لی اور اِسے ہیٹ نما زیور پہنادیا!
ٹورز اپنے جسم سے پہلے بھی کِھلواڑ کرتی رہی ہے۔ ایک بوائے فرینڈ کا نام اس نے جسم پر ٹیٹو کرایا ہوا تھا۔ جب بوائے فرینڈ نے بے وفائی کی تو ٹورز نے جسم پر سے اس کے نام کا ٹیٹو کھرچ ڈالا اور گوشت کے ریشوں سمیت وہ ٹیٹو دوست کو کوریئر کے ذریعے بھیج دیا!
انفرادیت کا مظاہرہ کرنے کا جنون انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ لوگ منفرد دکھائی دینے کے لیے سو جتن کرتے ہیں اور ہر جتن توازن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اچھی خاصی زندگی کو غیر متوازن کرکے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ انفرادیت کی داد دیں گے، سراہیں گے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ غیر ضروری یا مضحکہ خیز انفرادیت منفی نتائج پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں ایسی ہر کوشش نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جو بے عقلی کے ساتھ محض اس لیے کی گئی ہو کہ تھوڑی سی انفرادیت دکھائی دے جائے۔ کبھی کبھی انسان کسی کوشش کے نتیجے میں تھوڑا سا منفرد تو دکھائی دیتا ہے مگر اس کی خاصی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کرکٹ میں بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی کبھی شرارتی انداز سے کھیلا جانے والا کوئی ایک شاٹ پوری اننگز کا بیڑا غرق کردیتا ہے۔ اور اِس کے بعد صرف کفِ افسوس ملنے کا آپشن رہ جاتا ہے!
انفرادیت پیدا کرنے یا منفرد دکھائی دینے کا جنون کچھ ترقی یافتہ معاشروں کی میراث نہیں۔ پاکستان جیسے خاصے پچھڑے ہوئے معاشرے میں بھی یہ جنون اِس حد تک پایا جاتا ہے کہ دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہونے کے سِوا آپشن نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں خیر سے ہر شعبے میں لوگ انفرادیت کا اہتمام کرنے کے لیے حد سے گزرنے کے شوقین ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بیشتر کیسز میں یہ معاملہ اب آپشن سے کہیں آگے جاکر ''ڈیفالٹ‘‘ کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔
ایک زمانے تک ہمارے ہاں ایسی فلمیں بنائی جاتی رہیں جو ہر اعتبار سے منفرد تھیں۔ ساری دنیا میں فلمیں کسی نہ کسی تھیم کے گرد گھومتی ہیں۔ کوئی نہ کوئی بنیادی آئیڈیا ضرور ہوتا ہے جس کے گرد کہانی کا تانا بانا بُنا جاتا ہے۔ اور کہانی ہی کی بنیاد پر کردار متعین ہوتے ہیں۔ کردار مل کر کہانی کو ایک باضابطہ شکل دیتے ہیں۔ یوں فلم ایک الگ دنیا کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ مضبوط تھیم پر بنائی جانے والی فلم ایک الگ دنیا کے مانند ہوتی ہے جس میں ناظرین گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بنائی جانے والی فلموں میں تھیم سوچنے کا فریضہ ناظرین پر چھوڑا جاتا رہا ہے! ناظرین ہال میں بیٹھے یہی سوچتے رہتے ہیں کہ آخر فلم کی تھیم ہے کیا۔ بہت سوچنے پر بھی کوئی آئیڈیا دکھائی نہیں دیتا۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان میں فلمیں دیکھنے والے یہ سمجھنے لگے کہ شاید باقی دنیا غلط ہے کہ کسی نہ کسی تھیم یا کہانی کو لے کر فلم بناتی ہے۔ ہمارے ہاں تھیم اور کہانی کے بغیر فلمیں دھڑلّے سے بنائی گئیں۔ ایسے میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ شاید فلمیں بنانے کا یہی ڈھنگ بہترین ہے!
اور خود کو منفرد منوانے کا شوق یا جنون فلموں تک کب محدود رہا ہے؟ یہاں تو ہر شعبے میں لوگ کارکردگی سے زیادہ انفرادیت کے قائل رہے ہیں۔ گانے ہی کو لیجیے۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے کسی بھی استاد کو زحمت دیئے بغیر گانا شروع کیا اور ایک آدھ گانا ہٹ ہوجانے پر خود استاد بن بیٹھے! ایک مشہور نوجوان گلوکار سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کسی استاد سے باضابطہ سیکھا کیوں نہیں تو اُس نے انتہائے معصومیت سے مزیّن جواب دیا ''میں نہیں سمجھتا کہ گانا کوئی سیکھنے کی چیز ہے۔ یہ تو انسان کے اندر ہوتا ہے اور باہر آجاتا ہے!‘‘
ایک دور تھا کہ کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیے بغیر عملی زندگی شروع کرنا یعنی بے پیرا ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ خیر سے اب بے پیرا ہونا بھی منفرد ہونے کی ایک واضح نشانی ہے! لوگ کسی انسان کا احسان اٹھانے کے بجائے اللہ کے سکھائے ہوئے پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں یعنی ''تلمیذ الرحمن‘‘ کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں!
تعلیم و تدریس کا معاملہ بھی انفرادیت کی زد میں رہا ہے۔ جو خود ڈھنگ سے کچھ نہیں سیکھ اور پڑھ نہیں پاتے وہ بالآخر پڑھانے پر مامور کردیئے جاتے ہیں! ہمارے ہاں ایسے اساتذہ خال خال ہیں جو پڑھانے کا حق ادا کرنا جانتے ہیں۔ یاروں نے سوچ لیا ہے کہ جس طور اداکاری، گلوکاری اور دیگر فنون سیکھنے کی ضرورت نہیں یعنی بس شروع ہو جاؤ بالکل اُسی طرح تدریس بھی کوئی ایسا فن نہیں جو سیکھا جائے۔ گاتے گاتے لوگ گویّے بن جاتے ہیں۔ اِسی اصول کے تحت پڑھاتے پڑھاتے پڑھانا آ ہی جاتا ہے! یہ ہے انفرادیت کی انتہا!
مرزا تنقید بیگ کو دیکھ کر انداز ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے انفرادیت ثابت کرنے کے شوق ہی میں گھر بسایا تھا! ان کی گھریلو زندگی انتہائی منفرد، بلکہ انفرادیت کے نمونوں سے مزیّن رہی ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں نمونوں سے مراد ان کی اولاد نہیں!) خود مرزا کا یہ کہنا ہے کہ صحافت میں بھی انفرادیت ثابت کرنے کا رجحان بہت توانا ہے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ کسی زمانے میں لوگ کچھ نہیں بن پاتے تھے تو مُدرس بن جاتے تھے، اب صحافی بن جاتے ہیں! ہماری کالم نگاری کے بارے میں بھی اُن کی یہی رائے ہے۔ کہتے ہیں کہ فی زمانہ ذہن کو بروئے کار لائے بغیر کالم لکھنا انتہائے انفرادیت ہے! مرزا کی رائے سے آپ متفق ہوں تو ہوں، ہمارا متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں!