تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-02-2018

خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے

کیا وہ پست ہو جائے گا اور ہار جائے گا۔ عامی کا خیال مختلف ہے : وہ سب پست ہوں گے اور سب مارے جائیں گے۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔
پیرس میں رتّی جناح کی قبر پر قائداعظم پھوٹ پھوٹ کر روئے، پھر اسے اللہ کے سپرد کیا اور اپنے مشن کی طرف لوٹ گئے۔ چند برس بعد اس سے بھی زیادہ المناک حادثہ پیش آیا۔ صاحبزادی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی۔ اسے بھی اللہ کے سپرد کیا اور پھر سے اپنے مشن کی طرف لوٹ گئے۔ مسلم برصغیر کی تاریخ کے عظیم ترین کارناموں میں سے ایک کارنامہ انجام دینے کے بعد وہ دنیا سے اُٹھے تو آسودہ تھے۔ ایک آدھ بار نہیں زندگی کے آخری ایام میں، تین بار انہوں نے کہا تھا: اس کے سوا میں کچھ نہیں چاہتا کہ دم رخصت میرا ضمیر مطمئن ہو کہ میں نے مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔
یہ سطح سمندر کے اوپر کی حکایت ہے۔ جہاں تک دل و دماغ کی کائنات کا تعلق ہے، کون جانتا ہے کہ گوشت پوست کے آدمی پر کیا گزری ہو گی۔ وہ اُن نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک تھے، اپنے درد کی حکایت جو کبھی بیان نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ آخرِ عمر اپنی صاحبزادی کا ملبوس دیکھتے، آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ احساسِ کمتری اور خود ترسی برصغیر کا شعار ہے۔ غلامی کی اَن گنت تاریک صدیوں کا یہ ثمر ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی، پوری طرح اس سے بچتا نہیں۔ صوفیوں کے سوا... اور وہ النادر کالمعدوم ہوتے ہیں۔
قائداعظم کی کردار کشی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، حتیٰ کہ کافراعظم قرار دیئے گئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ایسے شائستہ آدمی نے بھی ان کے پاکستان کو ''ناپاکستان‘‘ کہا۔ 1947ء کے بعد بھی بے رحمی سے ان پر تنقید کرتے رہے، تاآنکہ یہ مشکل ہو گیا۔ ربع صدی کے بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ کم از کم میرا خیال یہی ہے۔ لاہور کے ایک سیمینار میں، جب آپ نے تاریخ ساز لیڈر کی دیانت و امانت کو خراج تحسین پیش کیا۔
افتخار عارف کا ایک دلچسپ شعر یہ ہے:
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
زمانہ کب کسی کو معاف کرتا ہے کہ عمران خان کو معاف کر دے۔ جب اس نے حریف کو کبھی کوئی رعایت نہ دی تو اس کی اُمید بھی نہ رکھے۔ یہ ناچیز اُن لوگوں میں شامل ہے جس نے اُنہیں اِس شادی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس طرح کے مشورے، اسی وقت تک دیئے جاتے ہیں، جب تک واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ ہو جائے تو کوئی بھی ایسا شخص طعن نہیں توڑتا، گالی نہیں بکتا ،جو اقدار پہ یقین رکھتا ہو۔ جو خاندان کی تقدیس کا قائل ہو۔
اس ممتاز خاتون لیڈر کی شادی کس طرح طے پائی تھی؟ ہمارے زمانے کے اس نجات دہندہ نے جو خود کو تاریخ کے دوام میں دیکھتا ہے‘ کتنی خواتین سے بیاہ رچایا۔ اس امریکی اخبار نویس نے ہمارے ایک عظیم لیڈر کے بارے میں کیا لکھا ؟جی نہیں ذاتی زندگیوں پر بحث نہیں کی جاتی اور شادیوں پر تو قطعی نہیں۔ چار ہفتے قبل اس کالم میں عمران خان کی مجوزہ شادی کا ذکر تھا۔ ہرگز نہ کرتا اگر معلوم ہوتا کہ طے پا چکی۔ ایسی حرکت سے پہلے، آدمی کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے‘ اپنے احوال پر غور کرنا چاہیے۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
ایک ناکام رفاقت کے بعد ایک شب عمران خان نے مجھے فون کیا۔ اپنے درد کی داستان کہی۔ عرض کیا: مجھ سے تم نے مشورہ کیا ہوتا تو یہ شادی کبھی نہ کرتے۔ اس نے پوچھا کیوں؟ عرض کیا فلاں اور فلاں وجوہ کی بنا پر۔ سب لوگ ایک دوسرے کے لیے نہیں ہوتے۔ سب لوگ سب لوگوں کے ساتھ بسر نہیں کر سکتے۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ ایک آدمی اچھا ہوتا ہے مگر بھاتا نہیں۔ ایک آدمی بھا جاتا ہے، حالانکہ اچھا نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے کبھی عالی جنابﷺ سے پوچھا تھا؟ فرمایا: جی ہاں! آپﷺ نے ارشاد کیا تھا: روحیں لشکروں کی طرح اُتاری گئیں۔ روزِ ازل جو ایک دوسرے کے شناسا تھے، اِس دنیا میں بھی ایک دوسرے سے مہر و محبت رکھتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: تم میں سے بعض، بعض سے عداوت رکھیں گے۔ سچ پوچھئے زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بھی یہی ہے۔ ایسے میں آدمی توازن کھو نہ دے۔ کم از کم نفرت میں اندھا نہ ہو جائے۔
لاہور کی ایک خوبصورت عمارت میں دو سو مجاہد‘ براجمان ہیں، جن کی ذمہ داری ناپسندیدہ لوگوں کی کردار کشی ہے۔ گالیوں سے بھرے کم از کم پانچ سات پیغام ہر روز وہ ناچیز کو بھجواتے ہیں۔ عمران خان کے باب میں کیا نہ کرتے ہوں گے؟ عمران خان کے چھوکرے بھی کم نہیں‘ بلکہ اس بات پہ وہ فخر کرتے ہیں کہ حکمرانوں کو ہر روز وہ نمٹا دیتے ہیں۔ اب وہ کیا کریں گے؟ کوئی اخبار ان کے ساتھ ہے نہ چینل۔ کوئی عالمی طاقت اور نہ میڈیا گروپ۔ حکمران پارٹی کے ساتھ تین میڈیا گروپ کھڑے ہیں اور ایک تو کردار کشی پر اُتارو ہے۔
پینتیس برس ہوتے ہیں۔ عمران خان اس حال میں کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں داخل ہوا کہ ساڑھے تین گھنٹے گیند پھینکنے کی مسلسل مشق کے بعد اس کا وزن آٹھ پائونڈ کم ہو چکا تھا۔ لڑکوں اور لڑکیوںکی قطاریں، ہوٹل کے دروازے پر بے چین کھڑی تھیں۔ ''شام کو...‘‘ اس نے کہا جیسا کہ اس کا مزاج ہے۔ ہوٹل کے سٹاف کو ہدایت کی کہ کوئی اس کے کمرے میں داخل نہ ہونے پائے۔ کوئی گھنٹی نہ بجائے۔
تعجب ہے کہ ایک آدمی داخل ہوا اور اجازت کے بغیر۔ کمرے کی چٹخنی اس نے کس طرح کھولی ہو گی اور کیوں؟... اب بھی کم جذباتی نہیں، اس زمانے میں تو فاسٹ بالر کا خون بات بات پہ کھولتا تھا۔ آئو دیکھا نہ تائو، اس طویل قامت آدمی کو کپتان نے دیوار پہ دے مارا۔
اس نے اپنا تعارف کرانے کی کوشش کی مگر مشتعل آدمی کو تاب کہاں تھی۔ کچھ دیر میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین عارف عباسی کی پاٹ دار آواز فون پر سنائی دی: تم نے یہ کیاکیا؟ عمران تم نے یہ کیا کیا۔ کھلاڑی کو رتّی برابر پروا نہ تھی۔ اس نے کہا: میں نے ٹھیک کیا اور آئندہ بھی ایسا ہی کروں گا۔ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین اس آدمی کا کیا کرتا جو اب ایک لیجنڈ تھا۔ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کپتان۔ جس کی ریٹائرمنٹ پر پاکستان کے فوجی حکمران کو استدعا کرنا پڑی ''براہ کرم اپنا فیصلہ واپس لیجئے ‘‘۔ دانش و بصیرت تو خیر مگر عزم کا تو وہ ایک کوہ گراں تھا۔ اسے دنیا کا پہلا فری کینسر ہسپتال تعمیر کرنا تھا۔ اسے پاکستان میں عالمی معیار کی پہلی یونیورسٹی بنانا تھی۔ جسے سیاست کے میدان میں ایک کے بعد دوسرے فرعون کا سامنا کرنا تھا۔
ساڑھے تین عشرے قبل جس آدمی کو کرکٹ کے کپتان نے دھتکار دیا تھا، مارا پیٹا تھا، اب وہ اس کے خلاف چلائی جانے والی کردار کشی کی مہم کا سب سے اہم سالار ہے۔ کیچڑ اس کے پاس بہت ہے۔ کیچڑ اُچھالنے کا خوگر بھی‘ نقد داد دینے والے بھی بے شمار اور لاتعداد۔ تین سال کی آمدن پانچ ارب۔
ابھی کیا ہے۔ ابھی تو ایک کتاب بازار میں آئے گی۔ ابھی کیا ہے، ابھی ایک فلم یوٹیوب پر جاری کی جائے گی، الیکشن سے چند دن قبل۔ ماہرین نے مہینوں اس فلم پر ریاضت کی ہے۔ کروڑوں روپے اس پر خرچ ہوئے ہیں۔ یہ فلم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ عمران خان دنیا کا غلیظ ترین آدمی ہے۔ جن کے کھربوں خطرے میں ہوں، کروڑوں کی سرمایہ کاری ان کے لیے کیا ہوتی ہے، جب کہ حریف کی تذلیل بھی ہو۔
کیا وہ پست ہو جائے گا اور ہار جائے گا۔ عامی کا خیال مختلف ہے: وہ سب پست ہوں گے اور سب مارے جائیں گے۔ یہ مکافات عمل کی دنیا ہے۔ خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved