انقلاب برپا ہونے والا ہے‘ 70 سال کا حساب لیں گے : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''انقلاب برپا ہونے والا ہے‘ 70سال کا حساب لیں گے‘‘ اور یہ انقلاب 28 تاریخ کے بعد کسی وقت بھی برپا ہو سکتا ہے اور اس کے بعد میں جہاں بھی ہوں گا‘ انقلاب وہیں میرے ساتھ جائے گا اور وہیں نشوونما پاتا اور پھلتا پھولتا رہے گا کیونکہ میرے ساتھ چند اہلخانہ اور دیگر انقلابی کامریڈ بھی ہوں گے جبکہ وہیں میں 70 سال کا حساب بھی لیتا رہوں گا اگرچہ میں حساب کتاب میں خاصا کمزور ہوں اور اسی لیے میرے اثاثہ جات کا بھی میرے پاس کوئی حساب نہیں ہے اور یہ کام بیچاری نیب کو کرنا پڑ رہا ہے لیکن اسے بھی پورے حساب کتاب میں کامیابی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن ثابت کریں‘ سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ اگرچہ یہ سارا کام عدالت کرنے والی ہے جس کے بعد سیاست ویسے بھی چھوٹ جائے گی اور یہ جو میں 50 سے لے کر پانچ ہزار کے کرنسی نوٹ لہرا رہا ہوں تو یہ بھی کسی سے اُدھار لیے ہیں کیونکہ میرے پاس تو پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے والد کی جنگ لڑتی رہوں گی : مریم نواز
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''اپنے والد کی جنگ لڑتی رہوں گی‘ اگرچہ ہم اکٹھے ہی ہوں گے لیکن اگر والد صاحب وہاں سے انقلاب برپا کر سکتے ہیں تو میں یہ جنگ کیوں نہیں لڑ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کو عوام نے نہیں بلکہ ووٹ کی پرچی روندنے والوں نے نکالا‘‘ اور عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا اور اس طرح بھرم رہ گیا ورنہ ووٹ کی پرچی والے ہی یہ کارخیر کر ڈالتے۔ انہوں نے کہا کہ ''انتقام لینے والوں سے بدلہ لو گے؟‘‘ اور اب اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ عوام اپنی یلغار سے بڑے سے بڑے انتقام لینے والوں کو مزہ چکھا سکتے ہیں جبکہ ہمارا تو ذائقہ ہی اتنا خراب ہو چکا ہے کہ کسی چیز کا مزہ نہیں آتا اور پتا ہی نہیں چلتا کہ کیا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کیا ایسے ہی پاکستان کا تماشہ بنتا رہے گا؟‘‘ کیونکہ وزیراعظم کا تماشا بننا پاکستان ہی کا تماشہ ہے جسے لوگ اتنے ذوق شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
ہمارے لوگوں کے ہونٹوں پر تالے لگائے جا رہے ہیں : مشاہد حسین
مسلم لیگ نون کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد حسین نے کہا ہے کہ ''ہمارے لوگوں کے ہونٹوں پر تالے لگائے جا رہے ہیں‘‘ جو ہمارے زعماء کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی سے صاف ظاہر ہے‘ حالانکہ ہمارے قائد اور ان کے عزیزان جو کچھ کہہ چکے ہیں‘ اور جو کچھ اب کہہ رہے ہیں اس کے مقابلے میں تو ان غریبوں کا کہا ہوا اُس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے لیکن ان کے سارے فرمودات کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے جو مساوات کے اصولوں کے سخت خلاف ہے اور اسی کو ہمارے قائد انتقامی کارروائی بھی کہتے ہیں‘ اگرچہ ریفرنسز کے فیصلوں سے یہ کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ ایک بار پھر کامیابی حاصل کرے گی‘‘ اگرچہ اب تک جو نیک کمائی اکٹھی کی جا چکی ہے‘ اب مزید کسی کامیابی کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن عدلیہ کی آنکھ میں وہ بھی کھٹک رہی ہے اور اس کا بھی کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے ایک بار پھر خدمت کا موقعہ تلاش کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی پریس کلب میں خطاب کر رہے تھے۔
نوازشریف اور زرداری کی حکومت میں خوشحالی نہیں آ سکتی : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نوازشریف اور زرداری کی حکومت میں خوشحالی نہیں آ سکتی‘‘ کیونکہ کنجوس مکھی چُوس کی طرح ہیں اور اپنے مخلص ساتھیوں اور حمایتیوں کی ضروریات کا کماحقہ ُخیال نہیں رکھتے اور خزانے کا منہ بند ہی رکھتے ہیں حالانکہ حکم یہ ہے کہ جتنا خرچ کرو گے اُتنا ہی برکت آئے گی اور اضافہ ہو گا جبکہ نوازشریف تو ایک ایک مہربانی کے لیے کئی کئی چکر لگواتے تھے اور میری مصروفیات کا بھی کبھی خیال نہ رکھا کہ تلاش رزق میں کہاں کہاں مارے مارے پھرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک تباہ حالی کا شکار ہے اور ساری توانائیاں دہشت گردی کے خلاف خرچ کی جا رہی ہیں‘‘ اور اسی بہانے ہماری درس گاہوں پر بھی سختی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدالتوں نے زرداری کو کلیئرنس دی‘‘ حالانکہ میرے ساتھ انہوں نے بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور اب ماشاء اللہ ہماری بددعائوں کو بھگت رہے ہیں۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب فیصل آباد سے نصرت صدیقی کے مجموعے تقاضے سے کچھ اشعار :
اگرچہ تیرے سوا کچھ سجھائی دیتا نہیں
مگر کبھی کبھی تُو بھی دکھائی دیتا نہیں
زندگی قید کے مانند ہے لیکن اُس نے
قید میں بھی مجھے آرام سے رکھا ہوا ہے
وہاں تک تو ہمارے ساتھ چلیے
جہاں تک خوفِ رُسوائی نہیں ہے
تجھے بھی ہے اگر دعویٰ وفا کا
تو پھر کوئی بھی ہرجائی نہیں ہے
مجھے اب احتیاطاً خط نہ لکھنا
مرے بچے کو پڑھنا آ گیا ہے
بنا رہے ہو عبث کھیل کُود کے میدان
ہمارے شہر کے بچے تو کام کرتے ہیں
ایک ظُلم کرتا ہے‘ ایک ظُلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کونسے گھرانے سے
زخم بھی لگاتے ہو‘ پھُول بھی کھلاتے ہو
کتنے کام لیتے ہو ایک مسکرانے سے
آج کا مقطع
چراغِ چہرہ کو بجُھنے نہیں دیا کہ ظفرؔ
ہم اس کے گرد ہوا کا حصار رکھتے ہیں