تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-02-2018

’’خواتین نواز‘‘ تحقیق

بچپن میں آپ نے وہ کہانی ضرور سنی ہوگی کہ ایک جن تھا جو کسی بھی حال میں فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ جو کوئی بھی اس جن کو بوتل سے نکالتا تھا اس کے لیے لازم ہوتا تھا کہ اس کے لیے کام تلاش کرتا رہے۔ جیسے ہی ایک کام ختم ہوتا تھا، اسے دوسرے کام پر لگادیا جاتا تھا۔ جن کا اصول یہ تھا کہ فارغ ہوتے یعنی نیا کام نہ ملنے کی صورت میں مالک کو دبوچ لی جائے! 
آج کل ماہرین نے طے کرلیا ہے کہ اُنہیں فارغ نہیں بیٹھنا ہے۔ کوئی نہ کوئی کام ملتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو تو وہ پورس کے ہاتھی ثابت ہوتے ہیں اور اپنے لشکر کو کچلنے پر تُل جاتے ہیں۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ اُنہیں موضوعات دیئے جاتے رہیں۔ اور اس معاملے میں وہ علامہ اقبال کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں ‘ کوئی ڈھنگ کا موضوع نہ ملے تو وہ کسی نہ کسی طور خود کوئی موضوع ایجاد کرلیتے ہیں۔ 
خواتین عام طور پر اخبارات و جرائد میں اپنے متعلق پیش کیے جانے والے مواد کو بہت شوق سے پڑھتی ہیں۔ اور اُن کے اس رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین بھی خوب کھیلتے ہیں۔ وہ ایسے موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے اور لکھتے ہیں جن سے خواتین کو زیادہ سے زیادہ سکون ملے۔ ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ ماہرین خواتین ہوں یا مرد، ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ خواتین پر سے کام کا بوجھ کم ہوتا جائے اور وہ فراغت کی ایسی زندگی بسر کریں جس کا کل تک صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ 
خاصی محنت سے ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا ہے جس میں خواتین اپنے معمولات کو کم سے کم سطح پر لاکر وقت کو زیادہ سے زیادہ بچاتی ہیں تاکہ بہت سکون سے اُسے ''قتل‘‘ کیا جاسکے! ماہرین چاہتے ہیں کہ خواتین بالعموم اور خواتینِ خانہ بالخصوص فضول سرگرمیوں میں الجھ کر نہ رہ جائیں، وقت بچائیں اور بچائے ہوئے وقت کو زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بروئے کار لائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کو بہت سے گھریلو سرگرمیوں کے تانے بانے سے نکال کر ماہرین فراغت کی ایسی منزل تک لے آئے ہیں جہاں اُن کے لیے ہر طرف راحت ہی راحت دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ سب محض فریبِ نظر ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ بہت خوش کن ہے مگر نتیجہ کچھ زیادہ اچھا نہیں، بلکہ کسی بھی اعتبار سے مطلوبہ معیار کا نہیں۔ 
خواتینِ خانہ صدیوں سے متوازن زندگی بسر کرتی آئی ہیں۔ ان کی زندگی میں توازن کام کرتے رہنے سے ہے۔ گھر کی چار دیواری میں جو کام روز کے اور لازم ہیں وہ انہیں کرنے ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ محنت طلب ضرور ہے مگر اِس کی انجام دہی میں قدرت نے فرحت کا پہلو بھی تو رکھا ہے۔ جو خواتین گھر کے کام خوشی خوشی کرتی ہیں اُن کے دل و دماغ میں تازگی اور بشاشت بھی تو رہتی ہے۔ 
مختلف ذرائع کو بروئے کار لاکر خواتین کو گھر کے کام کاج سے دور کرنے کی ایسی سازش رچی گئی ہے جس کے پَر بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ بازار میں سب کچھ تیار ملتا ہے۔ کل تک سالن کا مسالا گھر میں تیار کیا جاتا تھا۔ اب پیکٹ ملتا ہے۔ پیکٹ کھولیے اور مسالا پتیلی میں ڈال دیجیے۔ ادرک لہسن کا پیسٹ خواتین گھر میں تیار کرتی تھیں۔ اب خیر سے یہ بھی بنا بنایا ملتا ہے۔ اور تو اور، بُھنی ہوئی پیاز بھی بازار میں دستیاب ہے۔ لائیے اور چاولوں پر بُرک دیجیے۔ اگلا مرحلہ تیار شدہ کھانوں کا ہے۔ تیار کھانے تو اب بھی ملتے ہیں مگر ان کی قیمت نسبتاً زیادہ ہے۔ اور ورائٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ قورمہ، نہاری اور حلیم تو پکا پکایا، ٹن میںدستیاب ہے مگر آلو گوشت، پالک گوشت، مکس سبزی وغیرہ دستیاب نہیں۔ بریانی، تکے، کباب روز نہیں کھائے جاسکتے۔ ماہرین کے ''خواتین نواز‘‘ رویّے کو دیکھتے ہوئے ہمیں وہ دن زیادہ دور نہیں لگتا جب بیشتر کھانے جنرل اسٹورز کے ڈیپ فریزرز میں دکھائی دیں گے اور گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑے رہیں گے۔ 
بچوں کی پرورش کے علاقہ بھی گھر میں بہت سے کام ہیں جن کی انجام دہی سے خواتین سکون محسوس کرتی ہیں۔ ماہرین نے خاصی محنت کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گھریلو کام کاج سے خواتین کا سکون غارت ہو جاتا ہے اور ان کی زندگی میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ گھر کے کام کاج دوسروں کے سپرد کرو اور سکون کا سانس لو۔ کھانا پکانے کا کام کمپنیوں کے حوالے کرو، بچوں کی نگہداشت کے لیے ڈے کیئر سینٹرز ہیں تو سہی۔ اب رہ گئی گھر کی صفائی ستھرائی تو اِس کے لیے ماسیاں موجود ہیں۔ کچھ اضافی رقم دیجیے تو وہ کپڑے بھی دھو دیتی ہیں۔ 
گھر کی صفائی ستھرائی ایسا عمل ہے جس سے خواتین کی طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہیں۔ گھر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے طبیعت کو عجیب سی فرحت محسوس ہوتی ہے۔ گھر چمکتا ہوا بھی ہو مگر ساتھ ہی ساتھ خاتونِ خانہ کو احساس ہو کہ اِس میں اُس کا کوئی کردار نہیں تو دل کو وہ خوشی نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ 
امریکا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گھروں میں صفائی کے لیے یومیہ بنیاد پر استعمال کی جانے والی اشیاء صحت کے لیے اُسی قدر خطرناک ہوتی ہیں جس قدر روزانہ بیس سگریٹ پینا! ایک معروف سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق 6235 افراد کے طویل المیعاد مشاہدے کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ صفائی کے لیے گھروں میں استعمال کی جانے والی اشیاء کے استعمال سے خواتین کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ تجویز یہ دی گئی ہے کہ کسی بھی شے کو زیادہ مدت استعمال نہ کریں، تبدیل کرتی رہیں۔ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماہرین نے طے کرلیا ہے کہ خواتین کو گھر کے ہر کام سے ہٹاکر دم لینا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام وہ کر رہی ہیں اُسے بھی ترک کرنے کی ''تحریک‘‘ دی جارہی ہے! باریک کام دیکھیے کہ نقصان کے بارے میں ذہن تیار کرنے کے لیے مثال بھی اُس چیز کی دئی گئی ہے جو خواتین کو سخت ناپسند ہے! خواتین زندگی بھر اس کوشش میں مصروف رہتی ہیں کہ شوہر سگریٹ چھوڑ دیں۔ اور ماہرین اُسی سگریٹ کے اثرات کو اُن کے پھیپھڑوں تک پہنچا رہے ہیں! 
یہ بات تو ہم بھی پسند کرتے ہیں کہ خواتین پر سے کام کا بوجھ کم کیا جائے۔ انہیں ہر کام میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری میں کیے جانے والے کاموں کا گراف نیچے لاکر خواتین کو وقت بچانے کی تحریک تو دی جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ بچائے ہوئے وقت کا کرنا کیا ہے! اب صورتِ حال یہ ہے کہ گھریلو کام کاج میں زیادہ حصہ نہ لے کر خواتین خاصا وقت بچالیتی ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بچائے ہوئے وقت کو کس طور بروئے کار لائیں کہ زندگی مزید متوازن اور مزید فرحت بخش ہو۔ اس روش کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ خواتینِ خانہ کام کا بوجھ کم کرکے بچائے ہوئے وقت کو فول فون پیکیجز کی مدد سے قتل کرکے (اپنے) ضمیر پر بوجھ بڑھاتی رہتی ہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved