تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     21-02-2018

عدلیہ کے حوالے سے نواز لیگ کی تکلیف

وزیراعظم جو اپنے آقا کی آواز ہیں‘ بھی عدلیہ پہ برس پڑے۔ شاید یہی وفاداری کا تقاضا تھا۔ نواز شریف اور مریم بی بی کو سپریم کورٹ سے شدید گلہ ہے اس بنیاد پہ کہ مجھے کیوں نکالا۔ سو وزیراعظم نے بھی رسم پوری کرنا تھی اور قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکے اعلیٰ عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کیا ہمیں پوچھ کر اور پہلے اجازت لے کے قانون سازی کرنا ہو گی؟
ججوں کا اصلی گناہ یہ ہے کہ اُنہوں نے پاناما کیس کیوں سُنا۔ نواز لیگ کے پاس پورے ایک سال کا موقع تھا کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں نمٹاتے یا سُلجھاتے۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ حقیقت بیان نہ کر سکے۔ قومی اسمبلی میں اُن کی تقریر سُنی جائے تو لاہور کے کسی تھیٹر کا کامیڈی سین لگتا ہے۔ لامحالہ سپریم کورٹ کو پاناما پیپرز سے پیدا شدہ صورتحال کا نوٹس لینا پڑا۔ کچھ قصور عمران خان کا بھی تھا۔ اُس نے اس مسئلے پہ شور مچائے رکھا اور ایک آدھ مارچ بھی اسلام آباد کی طرف کیا۔ تقریباً مجبور ہوکے سپریم کورٹ نے مسئلے کا نوٹس لیا۔
شریف زادوں کو پورا موقع ملا کہ سپریم کورٹ کے سامنے حقائق بیان کریں اور بتائیں کہ لندن فلیٹس کی رقم کہاں سے اورکیسے آئی۔ یہ نہ فلسفے کا سوال تھا نہ پیچیدہ ریاضی کا۔ سطحی تفصیلات مہیا کرنا تھیں اور ایک آدھ بینک ڈاکیومنٹ دکھانا تھا کہ کب اورکس پیسے سے فلیٹ خریدے گئے۔ سپریم کورٹ پہ اثر ڈالنے کے لئے چوٹی کے وکلاء کی ٹیم بھرتی کی گئی۔ پانچ رُکنی سپریم کورٹ بینچ دُہائی دیتا رہا کہ تفصیلات بتائیے۔ جواب میں پہلے وکیل جناب اکرم شیخ ایک قطری شہزادے کا خط لے آئے‘ جس میں ایک ایسا افسانہ تراشا گیا کہ پوری قوم کی ہنسی نکل گئی۔ خط میں درج تھا کہ ہمارے بڑوں اور میاں محمد شریف مرحوم کے گہر ے مراسم تھے اور مذکورہ میاں محمد شریف نے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں قطر میں ہمارے بڑوں کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا اور جب اپنے حصے کے پیسے لینے تھے تو اُس پیسے کے عوض میاں محمد شریف کو لندن فلیٹس دے دئیے گئے۔ اور ہم نے سُنا کہ وہ فلیٹس میاں محمد شریف نے اپنے پوتے حسین نواز کے نام کر دئیے۔ کہانی مضحکہ خیز نہ ہوتی تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان شاید مان جاتے۔ لیکن افسانہ ہی ایسا تھا کہ اُسے رَد کرنے کے علاوہ جج صاحبان کے سامنے کوئی چارہ نہ تھا۔
اکرم شیخ کو وکالت سے فارغ کیا گیا اور نئے وکیل بھرتی کئے گئے۔ پھر وہ بھی فارغ ہوئے اور وکلاء صاحبان کی تیسری ٹیم میدان میں آئی۔ چوٹی کے وکیل تھے لیکن کہنے کو اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ لہٰذا تمام تر قابلیت کے باوجود سپریم کورٹ کے فاضل ارکان کو مطمئن نہ کر سکے۔ فیصلہ آیا تو دو جج صاحبان نے وزیراعظم نواز شریف کو قصوروار ٹھہرایا۔ تین نے البتہ یہ فیصلہ صادر کیا کہ مزید چھان بین کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک چھ رُکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ معیاد مقرر کی گئی کہ جے آئی ٹی اپنا کام ساٹھ (60) دن میں مکمل کرے۔ پوچھ گچھ کے لئے شریف زادوں اور نواز شریف کو جے آئی ٹی میں بلایا گیا۔ وہاں اِن سب کی حالت دیدنی تھی۔ بھاری اکثریت کے حامل وزیراعظم ہوں اور نسبتاً جونیئر افسران کے سامنے پیش ہونا پڑے‘ پارہ تو چڑھنا ہی تھا۔ اس لئے بھی کہ یہاں بھی کہنے کو کچھ نہ تھا۔ جے آئی ٹی کے سامنے مزید کہانیاںگھڑی گئیں لیکن ظاہر ہے کہ اُن کا اثر بھی کچھ نہ ہوا۔ میڈیا والے‘ ہم سب سمجھ رہے تھے کہ جے آئی ٹی بے سُود نکلے گی اور ساٹھ دن میں کام مکمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جے آئی ٹی نے نہ صرف ساٹھ دن میں اپنی رپورٹ مرتب کر دی بلکہ مزید ستم یہ کیا کہ مریم نواز کی جعل سازی کا ٹھوس ثبوت پکڑ لیا اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ لندن فلیٹس کی اصل مالکن بی بی مریم ہی ہیں۔
ایک اور چیز جو جے آئی ٹی کی تحقیق کی بدولت سامنے آئی وہ یہ کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے وزیراعظم اپنے پاس یو اے ای کا ورک پرمٹ رکھتے ہیں۔ پہلے دو جج صاحبان نے تو وزیراعظم کو دروغ گوئی کی بنا پہ نااہل ٹھہرایا۔ دیگر تین جج صاحبان نے ہاتھ ہولا رکھا اور ورک پرمٹ کے چھپائے رکھنے اور ظاہر نہ کرنے پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا۔ مزید حکم صادر کیا کہ لندن فلیٹس کا مسئلہ احتساب عدالت میں بھیجا جائے جہاں سابق وزیراعظم اور بی بی مریم پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ بیٹوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ بھگوڑے ہو جائیں اور احتساب عدالت کے سامنے پیش نہ ہوں۔
نواز شریف کا سارا رونا اس سوال میں پابند ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ گلہ اُن کا صحیح بھی ہے اور بے جا بھی۔ صحیح اس لئے کہ ججوں نے اُنہیں دستیاب شواہد کی بنا پہ نکال باہر کیا ۔ بے جا اس لئے کہ اصل قصور ججوں کا نہیں بلکہ پاناما پیپرز کا ہے۔ یہ آفت کسی نے گھڑی نہیں تھی۔ آئی ایس آئی یا کسی اور ادارے کی ایجاد کردہ نہ تھی۔ آفت گری تو آسمانوں سے جس کا اقرار سب سے پہلے کسی نواز شریف کے دشمن نے نہ کیا بالکل ان کے قائم کردہ صدر مملکت جناب ممنون حسین کے لَبوں سے ہوا۔ اُس وقت جب بیشتر پاکستانی پاناما پیپر ز کے سکینڈل کی اہمیت سے ناواقف تھے تو ایک تقریب میں وہ کہنے سے نہ رہ سکے کہ آپ دیکھیے گا کہ پاناما پیپرز کا کیا بنے گا اور اِس میں کتنے بڑے بڑے ہاتھ پاؤں مارتے رہ جائیں گے۔ اُس وقت نہ تو اس مسئلے پہ نواز شریف نے کوئی تقریر کی تھی نہ اس کی بازگشت پارلیمنٹ میں سُنی گئی تھی لیکن صدر مملکت جن کی پہلی مشہوری دہی بھلے کھلانے کی تھی‘ وہ یہ سچ کہہ گئے۔ نواز شریف کے ماتھے پہ شکن تو آئی ہو گی لیکن کیا کرتے۔ یہ بھی سمجھ رہے ہوں گے کہ وقتی طوفان ہے‘ جلد ٹل جائے گا۔ اتنے بڑے طوفان اورسکینڈلز آئے اور اِن کا کچھ نہ کر سکے، پاناما پیپرز نے کیا کرنا تھا۔ یہ سوچ ضرور اُن کے ذہن میں آئی ہو گی۔
اُن کی بدقسمتی کہ ٹلنے کی بجائے معاملہ گمبھیر ہوتا گیا اور بالآخر سپریم کورٹ کے نہ چاہتے ہوئے بھی سپریم کورٹ میں آ گیا۔ سپریم کورٹ یا تو کان بند کر لیتی اور آنکھوں پہ پٹی باندھ لیتی لیکن جب معاملہ سُننے بیٹھ گئی اور اپنی صفائی میں شریف زادے کچھ پیش نہ کر سکے تو سوائے مکاری کے پکڑے جانے کے‘ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ لہٰذا درپیش صورتحال میں نرم سے نرم فیصلہ صادر کیا گیا جس کے بارے میں ملک کے طول وعرض میں نواز شریف چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ احتساب عدالت کا فیصلہ تو ابھی باقی ہے۔ صفائی تو وہاں بھی پیش نہیں کی جا سکی اور دونوں شریف فرزندان بوجہ عدم پیشی اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں۔ چند دنوں میں فیصلہ متوقع ہے۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں یا چیخ و پکار کا سلسلہ آسمانوں تک جاتا ہے‘ یہ ابھی دیکھنا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حقِ وفاداری ادا کر دیا۔ لیکن اُن کی تنقید میں اتنا وزن نہیں۔ ججوں کی بجائے گلہ اپنے لیڈر سے کریںکہ جناب والا! کچھ سچ تو سامنے لے آتے تاکہ ہم اس امتحان سے بچ جاتے۔ جج صاحبان نے پاناما پیپرز نہیں لکھے تھے۔ وہ آفت کہاں سے اُٹھنی تھی اورکہاں پہ گرنی تھی‘ اِس میں جج صاحبان کا کیا قصور ہے؟ کسی ایک کہانی پہ شریف زادے متفق تو ہوتے لیکن ہر ایک کا بیان دوسرے سے مختلف نکلا۔ جج صاحبان ایسا فیصلہ نہ دیتے‘ جو اُنہوں نے دیا تو قوم کی نظروں میں قصور وار ٹھہرتے۔ عوام نے اُن کا مذاق اُڑانا تھا اور انصاف کے تصور سے لوگوں کا ایمان اُٹھ جانا تھا۔ شاہد خاقان میں ہمت ہو تو گلہ اپنے لیڈر سے کریں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved