تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     21-02-2018

حفظِ قرآن …(2)

اپنے بچوں کو حفظ کرانے کی خواہش رکھنے والے والدین کو حفظ سے کئی ماہ قبل مستقل طور پر اپنے لائف سٹائل میں کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی؛ تاہم یہ جاننے سے قبل پہلے آپ حافظ اور قاری میں فرق جان لیں۔ ہر حافظ تو قاری ہو سکتا ہے لیکن ہر قاری حافظ نہیں ہوتا۔ بعض حافظ انتہائی پرسوز اور دل کو چھو لینے والی آواز کے مالک ہوتے ہیں لیکن تمام نہیں؛ تاہم بیشتر قاری حضرات خوش کن آواز کے ساتھ تلاوت کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا فوکس اسی پر ہوتا ہے۔ بچے میں حفظ کرنے کا شوق پیدا کرنے کیلئے اسے ویسا ماحول دینا ضروری ہے۔ بنیادی طور پر یہ شوق دل نشیں تلاوت سن کر پیدا ہوتا ہے۔ تلاوت میں کتنا اثر ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ آپ خلیفہ دوم جنابِ عمر فاروقؓ کے قبول اسلام سے لگا لیں کہ جب آپؓ ننگی تلوار لئے‘ غصہ کی حالت میں جا رہے تھے تو راستے میں حضرت نعیمؓسے ملاقات ہوئی‘ پوچھا: اے عمر! ننگی تلوار لئے کہاں جا رہے ہو؟ آپؓ نے کہا:آج پیغمبر اسلام کا فیصلہ کر دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو‘ تمہاری بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعیدؓ بن زید مسلمان ہو گئے ہیں۔ آپؓ رخ بدل کر بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو دونوں آیاتِ قرآنی کی تلاوت کر رہے تھے۔ اس تلاوت نے آپؓ کے دل پر اتنا گہرا اثر کیا کہ آپؓ نے چند لمحوں میں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہر شہر میں ایسی مساجد ہیں جہاں بہترین قاری حضرات موجود ہیں‘ آپ بچوں کو ایسی مساجد میں روزانہ ایک جہری نماز پڑھائیں‘ یہ بھی ممکن نہیں تو کم از کم جمعتہ المبارک خشوع و خضوع سے اٹینڈ کریں‘ پہلی اذان سے قبل مسجد میں داخل ہوں اور پورا خطبہ سننے کے بعد نماز میں کی گئی تلاوت سنیں۔ ہر جمعہ اس چھوٹی سی ایکٹیوٹی سے بچے کے دل میں اس جانب رغبت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح ہر سال رمضان المبارک میں ایسی ہی کسی چھوٹی یا بڑی مسجد میں تراویح اوراعتکاف کی کوشش کریں۔ میں نے کئی خاندان ایسے دیکھے ہیں جو ہر سال رمضان کے آخری دس دن دفتر اور سکول سے چھٹیاں لے لیتے ہیں اور‘ والدین اور بچے سبھی اعتکاف کرتے ہیں۔ بچے اس ایونٹ کو بہت انجوائے کرتے ہیں‘ تراویح میں پڑھا جانے والا قرآن ان کے دل کو بھا جاتا ہے‘ اس طرح وہ نہ صرف رمضان کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹتے ہیں بلکہ بچوں میں تلاوت کا شوق بھی اجاگر ہوتا ہے اور طاق راتوں میں جو دینی پروگرام اور دروس ہوتے ہیں‘ ان میں انہیں مائیک پر آ کر تلاوت اور نعتیں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں پہلی مرتبہ لاہور میں لارنس روڈ پر واقع مرکز قرآن و سنہ میں گیا تو وہاں پر جمعہ کی نماز میں تلاوت سن کر رقت طاری ہو گئی۔اس وقت میری شادی نہیں ہوئی تھی‘میں نے دعا کی اللہ مجھے بھی شادی کے بعد ایسا ہی خوش الحان بیٹا عطا کرے۔ اس کے بعد شاذ ہی میں نے کوئی جمعہ یا تراویح وہاں چھوڑی ہو۔ ''پاکستان کے سدیس‘‘ خوش الحان قاری عبدالودود عاصم نے یہیں سے حفظ کیا۔ سال ہا سال سے سینکڑوں لوگ ہر جمعہ کو یہاں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کا ایمان افروز بیان ‘ ولولہ انگیزخطابت اورحافظ عبدالودود عاصم کی تلاوت سننے آتے ہیں۔ دور دراز سے حتیٰ کہ دیگر شہروں سے بھی لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برس سے عبدالودود عاصم تراویح مرکز قادسیہ چوبرجی میں پڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح مرکز لارنس روڈ میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کے بھانجے ڈاکٹر سبیل اکرام تراویح پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب میں رہ کر حفظ مکمل کیا۔ میں نے ایک تفصیلی کالم گزشتہ رمضان میں‘ ان پر لکھا تھا۔ وہ قرآن کے ایک ایک حروف کو اس قدر واضح اور بہترین انداز سے ادا کرتے ہیں کہ تلاوت دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے اور روح کو قرآن کے پاکیزہ اور دلفریب روحانی اثرات سے سیراب کر دیتی ہے۔ میرے بیٹے کو بھی ان دو قراء حضرات کو سن کر تلاوت اور پھر حفظ کا شوق پیدا ہوا۔ امام الحرمین سعد الغامدی اور امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس اسے بہت پسند ہیں۔ آپ جب گاڑی میں کہیں جائیں تو معروف قرا حضرات کی تلاوت ضرور لگائیں‘ خاص طور پر تیسواں پارہ اور سورہ الرحمن جیسی سورتیں موبائل فون میں محفوظ کر لیں۔ مختلف مواقع پر بچے کو تلاوت کا موقع دیتے رہیں‘ سکول میں‘ گھروں کی تقریبات میں۔ اس سے بچے کے شعور میں یہ چیزیں اترتی چلی جائیں گی‘ اسے بیشتر سورتیں سن کر ہی یاد ہو جائیں گی اور یوں اس کی گاڑی چل پڑے گی۔
حفظ کا سکول منتخب کرتے وقت سب سے پہلے وہاں کے قاری حضرات سے ملیں‘ ان کی تلاوت سنیں۔ دورانِ کلاس اندر بیٹھ کر ماحول دیکھیں۔ ان کا پڑھانے کا انداز اور بچے کے اسباق کے حوالے سے طریقۂ کار کا جائزہ لیں۔ بچوں سے بات چیت کریں۔ بہترین بچوں کی تلاوت سنیں۔ صفائی ستھرائی پر غور کریں‘ یہ بھی دیکھیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ موجود ہیں یا نہیں‘ اور سب سے اہم یہ کہ چھٹی کے وقت بچوں کو لینے کے لئے آنے والے کم از کم پانچ والدین سے لازماً ملیں۔ اس سے آپ کو فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔ آگے آپ کے پاس دو آپشنز ہوں گے۔ کسی ایسے مدرسے میں داخل کرائیں جہاں صرف حفظ قرآن ہوتا ہو یا پھر ایسے سکول میں جہاں دونوں چیزیں ساتھ چلتی ہوں۔ دونوں ساتھ ہوں گی تو حفظ کا دورانیہ تین سال سے کم نہیں ہو گا اور بچے پر بوجھ بھی دوگنا پڑے گا۔ میں نے دارِ ارقم مسلم ٹائون کے پرنسپل ریاض ہاشمی صاحب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں صرف حفظ کرائوں گا اور حفظ کے بعد ہونے والی درسی کلاسز سے قبل بچے کو لے جائوں گا۔ وہ مان گئے چنانچہ اس نے پوری توجہ حفظ پر مرکوز رکھی۔ آپ کو بچے کے قاری سے روزانہ‘ مسلسل رابطہ رکھنا ہو گا۔کسی قاری صاحب کو گھر بلا لیں تاکہ وہ اس کی منزل وغیرہ شام کو بھی سنیں۔ گھر آکر سبق یاد کرنا اور منزل پکی کرنا اس ایکسر سائز کا لازمی جزو ہے۔ دوران حفظ آپ کو اپنے لائف سٹائل میں کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی‘ اس کے بغیر آپ کی خواہش ادھوری رہے گی۔ غیرمعمولی آئوٹنگ سے خود کو دور اور گھر کا ماحول پاک صاف رکھیں‘ حتیٰ کہ غیر ضروری شادیوں اور فنکشنز سے اجتناب کریں کیونکہ بچے کا فوکس ایک مرتبہ آئوٹ ہو جائے تو پھر بچے پر بوجھ بڑھتا جائے گا۔ حفظ کا طریقہ بھی سمجھ لیں۔ آٹھ دس لائنیں یا بچے کو استعداد کے مطابق‘ روزانہ سبق یاد کرنا ہو گا‘ اسی طرح اگلے روز نہ صرف نیا سبق سنانا ہو گا بلکہ پرانا سبق بھی‘ جسے سبقی کہتے ہیں۔ جب وہ ایک پارے سے زیادہ یاد کر لے گا تو پھر اسے روزانہ سبق اور سبقی کے ساتھ منزل بھی سنانا ہو گی یعنی ایک پارہ۔ اس میں ایڈجسٹمنٹ بچے اور والدین کی مشاورت کے ساتھ ہوتی رہتی ہے لیکن طریقۂ کار کم و بیش یہی ہوتا ہے۔
اب ہم حفظ کے اثرات کی جانب آتے ہیں۔ بعض والدین سمجھتے ہیں کہ شاید قرآن یاد کرنے سے دماغ پر بوجھ بڑھ جاتا ہے اور اس میں اتنی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے والدین صرف ایک گرام ڈی این اے اور ایک کمپیوٹر سی ڈی کا موازنہ دیکھیں۔ ایک سی ڈی میں اندازاً ایک پوری لغت ذخیرہ کی جا سکتی ہے، لیکن جتنی معلومات ایک کھرب سی ڈیز میں ذخیرہ کی جا سکتی ہے‘ اُتنی صرف ایک گرام ڈی این اے میں سما سکتی ہے۔ دماغ کو آپ جتنا استعمال کریں گے‘ اس میں اتنی ہی جگہ بڑھتی جاتی ہے اور حافظہ مزید تیز ہوتا جاتا ہے۔ جبکہ سستی دماغ کو زنگ آلود کر ڈالتی ہے۔ حافظ بچوںکی میموری اور مشاہدے کی رفتار عام بچوں سے دو فیصد بڑھ جاتی ہے۔ حفظ کرانے کے لئے چھ سے بارہ سال کی عمر کا وقت بہترین ہوتا ہے‘ اس عمر میںبچے کو یاد کرائی گئی چیز آسانی سے نہیں بھولتی اِلّا یہ کہ وہ دہرائی کرنا چھوڑ دے۔ اسی لئے حفظ کے بعد بچے پانچویں سے سیدھا آٹھویں میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ ویسے تو حفظ کیلئے نہ عمر یا جنس کی قید ہے‘ نہ جگہ کی؛ تاہم چوتھی یا پانچویں جماعت کے بعد حفظ کرانا معمول ہے۔ بعض اس سے پہلے بھی داخل کرا دیتے ہیں۔ معروف سکالر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے ایف ایس سی کے امتحانات کے بعد چھٹیوں میں حفظ شروع کیا تھا اور وقفے وقفے سے مکمل کر لیا۔ بچے اور بچی کے حافظے میں کوئی فرق نہیں۔ میری اہلیہ نے گیارہ برس کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا تھا۔ اسی طرح لاہور کی سنٹرل جیل میں ایک قیدی بارہ سال بعد جیل سے نکلا تو نہ صرف اس نے جیل میں ناظرہ و ترجمے سے قرآن پاک پڑھا بلکہ حفظ بھی مکمل کرچکا تھا۔
حفظ قرآن کے دوران بچے کے ساتھ والدین کا برتائو کیسا ہونا چاہیے‘ اس کی ہمت بندھانے کیلئے انہیں کیا کرنا چاہیے‘ حفظ قرآن مکمل ہو نے پر تقریب کیسی ہونی چاہیے اور حفظ قرآن کے فروغ و ترویج کے سلسلے میں ترکی اور سعودی حکومتیں کیا انداز اپناتی ہیں‘ یہ سب ان شاء اللہ آئندہ اور آخری قسط میں...

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved