پاکستانی قوم جب بے یقینی کا شکار تھی‘ جب ہر جانب ظلم اور لوٹ مار کے شعلے آبادیوں کو بھسم کررہے تھے ‘جب طاقتور قاتل کے سامنے مقتول کی لاش اور اس کے ماں باپ سر سے پائوں تک کانپتے ہوئے مقدمہ واپس لینے لگے کہ گھروں میں ان کی جوان بیٹیاں ہیں ۔۔۔۔جب خون بہا مقتول کے گھرانے کی مرضی سے نہیں بلکہ کلاشنکوف کی نوک پر دیے جانے لگے۔۔۔جب مجرم اور قاتل جیل کی بجائے ہسپتالوں کے پرائیویٹ کمروں میں رہنے لگے۔۔۔ جب ملک کی دولت اس طرح لوٹ کر باہر بھیجی جا رہی ہو جیسے کسی مفتوح ملک کا سمیٹا ہوا مال غنیمت ہو۔۔ جب ہر پراجیکٹ ہر سڑک اور کسی بھی ملک سے کئے گئے معاہدوں سے کروڑوں ڈالر کا کمیشن لینا ایک عام رسم سمجھی جانے لگے ۔تو ایسے وقت میں اگر سپریم کورٹ کی شکل میں ایک ایسی شمع روشن ہو جائے۔۔۔۔ امید کی ایک ایسی کرن پھوٹنا شروع ہو جائے جو اندھیر نگری اور چوپٹ راج کی تاریکیوں کو چیرنا شروع کر دے اور۔۔۔ ہر اس دل میں جہاں پاکستان کا پیار موجزن ہو جس میں انصاف کی طلب ہو جس میںاس ملک کا بے پناہ درد چھپا ہوا ہو‘ جہاں ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطا بق سزا اور جزا سے نوازا جا نے لگے جس سے ہر غلط کار سہم جائے جس سے جرم اور مجرم کانپنا شروع ہو جائیں۔۔۔تو کیا ایسا معاشرہ ہم سب کا خواب نہیں؟۔
اس وقت ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم مبینہ طور پر اداروں کی محترم ہستیوں کے خلاف جس مہم پر اتر آئی ہے اس کا اس ملک کے کروڑوں لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔۔۔وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسا رہی ہے SC Is The Last Firewall Standing Against The Corrupt Mafia اس لئے پاکستانی قوم کو عدلیہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہو گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب بڑھنے والے ہر ناپاک قدم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہو گا۔۔۔۔یقین کر لیجئے کہ اگر سپریم کورٹ بے خوف ہو کر آتش نمرود میں چھلانگ لگاتے ہوئے انصاف کا بے رحم ترازو سنبھال کر اپنے فرائض انجام نہ دیتی تو ملک عزیز پاکستان کی حالت اس انسان جیسی ہو جانی تھی جس کے جسم سے تمام ہڈیاں نکال دی گئی ہوں۔۔۔ یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جس کا اس ملک میں بیٹھا ہوا ہر ماہر معاشیات دہائیاں دیتے ہوئے واویلا کر رہا تھا کہ ہوش کرو معاشی تباہی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔
جمہوریت اور انصاف دو ایسے بنیادی جزو ہیں جو کسی ریا ست اور معاشرے کے سب سے اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔جمہوریت عوام کی اس مرضی کو کہا جاتا ہے جہاں وہ مکمل آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکے‘ اپنے اس ووٹ کے ذریعے جو ملک کا شہری ہونے کے ناطے اس کا بنیادی حق ہے۔ اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کر سکے وہ جمہوریت نہیں جس سے2013 کے عام انتخابات کی رات ''رانجھے اور اس کے حاکم‘‘ کو رات دس بجے ماڈل ٹائون کی بالکونی پر کھڑے ہو کر DO MORE کا پیغام دیا جا رہا تھا ۔ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے وہ اپنا حق لے کر رہتی ہے تاکہ کل اسے دیکھنے والے سچائی سے محروم نہ رہ جائیں۔
جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ انصاف کے ترازو کو ناکارہ یا زنگ آلودہ نہ ہونے دے۔ اگر کسی بھی جمہوریت میں انصاف نہیں ملے گا تو پھر وہ معاشرہ جمہوری نہیں کہا جا سکے گا ۔۔۔جہاں اس ریا ست کے خزانے اس کے حاکموں سے محفوظ نہ رہیں جہاں اس ریا ست کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ لینا ایک عام رواج سمجھا جانا لگے ، جہاں ووٹ کے نام پر اس ملک کے وسائل کو اس کی دولت کو اس کے اختیارات کو پا مال کرنا شروع کر دیا جائے تو اسے جمہوریت نہیں بلکہ رنجیت شاہی ۔۔۔کہا جائے گا۔قوم کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ لٹیروں کو روکنے والے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ہے یا اس ملک کو بغیر ہڈیوں کاانسان بنانے والوں کو سہارا دینا ہے؟۔ قوم نے آنکھیں بند رکھ کر اپنی بربادی کا تما شا دیکھنا ہے یااپنی عزتوں کا دفاع کرنا ہے؟۔
سسلین مافیا کے سوا دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ کو ہتک آمیز طریقوں سے مخاطب نہیں کیا جاتا‘ اس کے خاندان کے خلاف سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر سرکار کے فنڈز سے تنخواہ وصول کرتے ہوئے شرمناک مہم نہیں چلائی جاتی ۔کیا آئین پاکستان میں کسی کو بھی یہ لکھا ہوا نظر نہیں آ رہا کہ اداروں کوبد نام کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے؟۔ کیا عدلیہ کو سازشوں اور دھمکیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کرنا سنگین جرم نہیں؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صوبے کے گورنر نے اپنے مالک کے حکم پر مرضی کے فیصلے لینے کیلئے عدلیہ کے اندر نقب زنی شروع کر رکھی ہے ۔۔۔ تو اسے کس جمہوریت کا نام دیا جائے گا؟۔ اسے کس آئین کی رکھوالی کا نام دیا جائے گا؟۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ وہ گورنر اس ملک کی صوبائی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ایک دوسرے کے مقابل لانے کی اسی طرح سازشیں کر رہا ہے جس طرح 1997 میں سابق صدر رفیق تارڑ نے کوئٹہ بنچ میں سعیدالزمان صدیقی کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف نقب لگائی تھی تو یہ کون سی جمہوریت ہے؟۔
اس ملک کا لبرل طبقہ، نام نہاد دانشور، ملک بھر کی ہر بار کونسل، وکلا کی تمام تنظیمیں جو آئین اور قانون کے رکھوالے سمجھے جاتے ہیں یہ سب کوئی ایک چھوٹی سی مثال سامنے لا سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا چیف ایگزیکٹو کسی دوسرے ملک کا اقامہ ہولڈر ہو سکتا ہے؟۔ بیٹے سے تنخواہ لینے والا ڈرامہ ایک الگ موضوع ہے اسے الگ ہی رکھئے کیونکہ میرے پاس اس بات کے ثبوت مو جودہیں کہ میاں نواز شریف نے دوبئی کے اس اقامہ کی بنیاد پر حاصل ملازمت سے با قاعدہ تنخواہیں وصول کی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی آئین اور قانون کا حوالہ دے دیا جائے کہ کسی بھی ملک کا سربراہ جب کسی غیر ملک کا اقامہ ہولڈر ہو اس کا تنخواہ دار ہو تو وہ اس ملک کے مقابلے میں اپنے ملک کے مفاد کا کس طرح دفاع کر سکتا ہے ؟۔ شریف فیملی کے خلاف مقدمہ کوئی پیچیدہ تو تھا نہیں دو جمع دو چار والا معاملہ تھا عدالت کے سامنے قطری خط کی صورت میں تھا۔۔۔جعلی حلف نامے تھے۔۔۔۔ منی ٹریل سے متعلق بوگس کاغذات تھے اور ان سب سے بڑھ کر کیلبری فونٹ تھا جن پر سپریم کورٹ دھوکہ دینے کے جرم میں سمری ٹرائل کرتے ہوئے اسی وقت شریف فیملی کو سزا دے سکتی تھی ۔۔ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ تک سپر یم کورٹ ہر پانچ منٹ بعد میاں نواز شریف سے کہتی رہی کہ منی ٹریل کا کوئی ایک کاغذ ہی دے دیا جائے لیکن شریف فیملی چپ رہی ۔۔۔ جس پر ہر کوئی پکار اٹھا کہ پنجاب کے اس لاڈلے کے پاس پیش کرنے کو کوئی ثبوت یا دستاویز نہیں۔ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب انصاف اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں ہر ایک کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا پڑے گی کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف کارروائی ہو اور رائے ونڈ کے لاڈلوں کو معاف کر دیا جائے!!