تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-02-2018

اوّل و آخر فنا

جو کچھ اس زمین پر ہے، فنا ہو جائے گا، باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ، بے پایاں عظمت اور لا متناہی بزرگی والا۔
لندن کی ایک عدالت میں ایان بوتھم نے عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ حالات بظاہر خان کے خلاف تھے۔ اس گمنام درویش میاں محمد بشیر سے اس نے پوچھا کہ مقدمے کا کیا ہو گا؟۔ ''فیصلہ تمہارے حق میں ہو گا‘‘ اس دھیمے آدمی نے کہا، جس کا کوئی دعویٰ نہ تھا۔ فقیر کا کبھی کوئی دعویٰ ہوتا ہی نہیں۔ ہڈیوں کے گودے تک اس راز سے وہ آشنا ہوتا ہے کہ غیب کا علم کوئی نہیں رکھتا۔ جب چاہے ایک خیال پروردگار نازل کرتا ہے۔ یقین کی گہرائی پیدا ہو جائے ہو تو اسی کو کشف کہا جاتا ہے۔
اس نے کہا: جیوری بیٹھ چکی اور اکثریت میرے خلاف ہے۔ ''اللہ ان کے دل بدل ڈالے گا‘‘۔ 
''اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں
وہ حیّ و قیوم ہے
اسے نیند اور اونگھ نہیں آتی
اسی کا ہے، زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے‘‘
نہ صرف خان مقدمہ جیت گیا بلکہ ایک لاکھ ڈالر بھی اسے ملے۔
اس مقدمے کا ایک بہت یادگار جملہ کبھی اس نے مجھے بتایا تھا۔ کارروائی کے آغاز ہی میں انگریز وکیل نے کھلاڑی سے کہا تھا: جھوٹ مت بولنا۔ جیسے ہی پہلا جھوٹ تم نے بولا، پیروی سے دستبردار ہو جائوں گا۔
میاں محمد نواز شریف کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اپنے مقدمے کی اساس انہوں نے جھوٹ پہ رکھی۔ قضیے کی ابتدا لندن کے فلیٹوں سے ہوئی۔ اوّل وہ مکر گئے۔ ان کی صاحبزادی نے کہا: لندن تو کیا پاکستان میں بھی میری کوئی جائیداد نہیں۔ درآں حالیکہ محترمہ کلثوم نواز، چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق تصدیق کر چکے تھے۔ بتا چکے تھے کہ 1992ء سے یہ فلیٹ شریف خاندان کی مِلک ہیں۔ دوسرا جھوٹ یہ کہ 1970ء کے عشرے میں، ان کے گرامی قدر والد نے دبئی میں کوئی بڑی سرمایہ کاری کی تھی۔ چھوٹی موٹی تو قابل فہم ہے۔ بڑے صنعت کار اس زمانے میں بھی کچھ سرمایہ بیرون ملک رکھ چھوڑتے۔ تیسری غلط بیانی یہ کہ سرمایہ وہاں سے قطر منتقل ہوا۔ چوتھی، قطر سے یہ دولت برطانیہ لے جائی گئی۔ پانچویں، جے آئی ٹی میں تفتیش کے دوران، وزیر اعظم نے ارشادکیا‘ وہ نہیں جانتے کہ یہ فلیٹ کس کی ملکیت ہیں۔ کیا یہ بات قابلِ فہم ہے کہ میرا فرزند کروڑوں کی جائیداد کا مالک ہو اور میں اس سے بے خبر رہوں۔ 
سب قابل ذکر عربوں کی طرح، جنہیں پیغام بھیجنے اور فیصلے کرنا ہوتے، جناب ابوبکر صدیق ؓ بھی انگوٹھی پہنا کرتے۔ ہر انگوٹھی پر کوئی نام یا نشان رقم ہوتا۔ سیدنا ابوبکرؓ کی انگوٹھی پر جناب رسالت مآبﷺ کا قول مبارک رقم تھا ''الصدق ینجی و الکذب یھلک‘‘ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔
رہنما تو کتاب ہے، اللہ کی آخری کتاب۔ رہنما تو رسول اکرمﷺ ہیں۔ بایں ہمہ انسانوں میں ایسے ہو گزرے ہیں، جزویات ہی میں سہی جنہوں نے زندگی کے عظیم حقائق کا سراغ لگایا‘ یا عظیم صداقتوں کو الفاظ کے نئے پیرہن عطا کیے۔ ان میں سے ایک کا نام ہیگل تھا۔ جرمنی کا ہیگل‘ جس کے فلسفے سے ادھوری روشنی پا کر کارل مارکس نے اپنا فلسفہ تشکیل دیا۔ ہیگل نے کہا تھا: ہر حیات کی تباہی کے عوامل خود اس کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہر مخلوق کی عمر مقرر ہے۔ جھوٹ تو کمزور ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ مزدکیت جھوٹ تھی۔ نوشیرواں عادل کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ دو ہزار برس کے بعد، درندگی کے مارے روسی معاشرے میں لینن نے پھر سے اسے زندہ کیا۔ اب کی بار خلق خدا اس کے خلاف اٹھی۔ سڑکوں پر گھسیٹ کر مرقد میں اتار دیا۔ 
ہم سمجھ نہیں سکتے۔ کبھی ایک پوری قوم دھوکہ کھا جاتی ہے۔ ہٹلر کے ہاتھوں، مسولینی کے ہاتھوں۔ اصول یہ ہے اور کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ باقی وہی چیز رہتی ہے، خلق کے لیے جو نفع اندوز ہو۔ ظلم بڑھتا ہے مگر مٹ بھی جاتا ہے۔
بیچارے نواز شریف کیا چیز ہیں۔ بیچارہ زرداری کیا ہے۔ ان کے حواری کیا ہیں۔ فرمایا ''لکل امت اجل‘‘ ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھی ہے۔ ایک عشرہ پہلے، الطاف حسین کی سیاسی موت کی پیش گوئی کی گئی، تو اخبار نویسوں نے مذاق اڑایا۔ عرض کیا: ظلم تادیر نہیں پھلتا۔ اللہ کی مخلوق کو سزا دی جاتی ہے۔ جیسے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: ان کے اعمال، ان کے عمال ہوتے ہیں لیکن تا بہ کے؟ ایک دن خود ہی اس نے اپنے پاگل پن کا اشتہار جاری کیا اور چیخ چیخ کر۔ ایک دن خود ہی اس نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا کارندہ ہے۔ ایک دن خود ہی اس نے بتایا کہ وہ پاگل ہو چکا۔ ایک دن اس نے ایسی گفتگو کی کہ شریف زادوں اور شریف زادیوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ایک دن اس نے ٹیلی ویژن سٹیشنوں پر حملے کا حکم دیا۔ ردّعمل کی ایک لہر‘ پورے ملک میں اٹھی اور پوری کی پوری ایم کیو ایم کو بہا لے گئی۔ بات اب بھی ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اب بھی ان کا خیال یہ ہے کہ فریب خوردہ مخلوق کو وہ فریب دیتے رہیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے۔ اپنی چرب زبانی سے۔ اس ناخن تدبیر سے، تیس پینتیس برس سے جس کے وہ خوگر ہیں۔ نہیں بالکل نہیں ان کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ سیدالطائفہ جنید بغدادؒ نے کہا تھا: یہ کاروبارِ دنیا ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی تاریخ کے شاید سب سے زیادہ نرم خو سپہ سالار ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے جب فوج کو فتح کرنے کا ارادہ کیا تو ان کا مدعا جنرل سمجھ نہ سکا۔ اس کا گمان یہ تھا کہ عسکری قیادت سے تعاون کے وہ آرزومند ہیں۔ ہر ممکن تعاون انہوں نے کیا۔ ہر فوجی افسر اور ہر ملاقاتی کو سمجھاتے رہے کہ فوج اور سول کے تعاون میں پاکستان کی بقا ہے۔ عام فوجی افسر وزیر اعظم کے عزائم کا بہتر ادراک رکھتے تھے۔ جنرل خود کو دھوکا دے رہا تھا۔ خوش امیدی کے عالم میں بار بار اس نے وزیر اعظم سے کہا: حضور! میری بھی ایک Constituency ہے۔ مزاحمت کا مجھے سامنا ہے۔ براہ کرم میری محدودات کا خیال رکھیے۔ 
کامیابی گمراہ کرتی ہے اور غلط بنیادوں پر حاصل ہونے والی کامیابیاں اور بھی زیادہ۔ مستقل طور پر ایک حجاب آدمی کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے۔ اسے وہ تجزیہ کرنے نہیں دیتا۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کیا: انسانی عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ مثبت یا منفی جذبے اس کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ تکبر ان میں سے ایک ہے۔ آدمی یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ اس کی کامیابیاں اس کی اپنی کامیابیاں ہیں۔ اس کی عقل اس کی رہنما ہے۔ وہ دوسروں سے بہتر اور برتر واقع ہوا ہے۔ حالات کو اپنی پسند کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ ناکامی تو رہی ایک طرف سکرات کا عالم بھی، اس حجاب سے چھٹکارا نہیں دلاتا۔ فرمایا: کبیریائی اللہ کی چادر ہے۔ 
سمرقند سے بہت دور، چین کے سفر پر روانہ، صاحبقراں امیر تیمور گورگانی نے وصیت کی: میری موت کو پوشیدہ رکھا جائے۔ شہر ختا کے فتح کے بعد یہ راز آشکار کیا جائے‘ میرے فلاں پوتے کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ اس کے مشیروں میں ایک دانا بھی تھا۔ اپنے ساتھیوں سے اس نے کہا: موت پوشیدہ نہیں رہتی اور امیر کی تو بالکل ہی نہیں۔ اس کا پوتا نالائق ہے اقتدار پر اپنی گرفت وہ قائم نہ رکھ سکے گا۔ تاتاری طاقت ور کی سنتے اور قہرمان کی مانتے ہیں۔ لشکر ابھی دارالحکومت نہ پہنچا تھا کہ امیر کا ایک دوسرا پوتا تخت پر براجمان تھا۔ 
آنے والا کل کس کے لیے کیا لائے گا؟ کون جانتا ہے۔ اتنی سی بات مگر اہل ایمان جانتے ہیں کہ ''کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘ جو کچھ اس زمین پر ہے، فنا ہو جائے گا، باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ، بے پایاں عظمت اور لا متناہی بزرگی والا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved