آج ایک پریس بریفنگ میں بلاول بھٹو کو اظہار خیال کرتے دیکھا۔ میں یہ سب کچھ ٹی وی پر دیکھ رہا تھا۔ سب سے پہلے یہ نکتہ پیش کروں گا‘ جس کی بلاول نے وضاحت کی۔ کئی ہفتوں اور مہینوں سے ہمارے ملک کے آئین ساز اداروں اور اس کی تشریح کرنے والوں کے مابین جاری بحث ہی نہیں‘ ہنگامہ آرائی بھی زور و شور سے چل رہی ہے۔ مسئلہ صرف ایک ہے۔ ہمارے منتخب اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف سے ایک ایسی بحث جاری ہے‘ جسے جمہوری ملکوں نے مدتوں پہلے طے کر رکھا ہے۔ ہمارے ملک میں اول تو جمہوریت‘ آزادی کے چند ابتدائی برسوں کے سوا کبھی نہیں آئی۔ جتنی آئی‘ وہ فوجی آمروں کے زیر قبضہ رہی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک‘ جن حکومتوں کو ہم جمہوری کہتے آئے ہیں‘ وہ فوجی آمروں کے زیر اثر تھیں۔ اپنا دل خوش کرنے کو جمہوریت کی جتنی چاہیں تشریحات کر لیں مگر جمہوریت آمروں کے ماتحت ہی رہی۔ موجودہ حکمرانوں کا دورِ اقتدار کہنے کو خواہ جمہوری رہا ہو لیکن اس جمہوریت کے رہنما بھی‘ آمروںکے بٹھائے اور چلائے ہوئے ہیں۔ آمروں نے جس جمہوریت کا پودا لگایا‘ اس کے تحت جو انتخابات ہوئے‘ وہ انہی کی لگائی ہوئی پنیریاں تھیں۔
1951ء میں شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد‘ جن ادوار کو جمہوری کہا گیا‘ وہ ہرگز جمہوری نہیں تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے کنٹرول میں جو جمہوریت قائم کی‘ وہ نیپال کے بادشاہوں کی طرح تھی‘ جہاں انتخابات بھی ہوتے ہیں، منتخب نمائندے بھی آتے ہیں۔ حکومتیں بھی ہوتی ہیں لیکن اقتدار شاہی خاندان کے پاس ہوتا ہے۔ اب تھوڑا سا فرق پڑا ہے لیکن شاہی خاندان کی روایات آج بھی جاری و ساری ہیں۔ یہی حال ایوب خان کا تھا۔ اقتدار پر قبضہ کرتے ہی ایک فوجی جمہوریت نافذ کی۔ اس میں نچلی سطح پر لوکل باڈیز کا نظام لایا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں لوکل باڈیز کے یکساں اراکین کا نام نہاد الیکشن کرایا گیا۔ میں جو لکھتا رہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی زیادہ آبادی ہونے کے باوجود‘ مقامی حکومتوں کے جو انتخابات کرائے گئے‘ ان میں صرف دو صوبوں کو مساوی رکھا گیا۔ مختلف کالموں میں اس کی تشریح کرتا رہا ہوں۔ اب صرف برسبیل تذکرہ کروں گا کہ ایوب خان کی نافذ کردہ فوجی جمہوریت میںدونوں ''صوبوں‘‘ کی یکساں نمائندگی تھی۔ سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے نمائندے چنے گئے۔ دونوںصوبوں میں ان کی تعداد یکساں تھی۔ عام شہریوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ صوبوں میں برابر کے مقامی حلقے بنائے گئے۔ ہر حلقے سے ایک ایک کونسلر چنا گیا۔ ان کونسلروں نے منتخب ہونے کے بعد‘ صدرِ مملکت کے انتخاب کا معرکہ مارا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کی درخواست پر‘ صدارتی امیدوار بننا قبول کر لیا۔
انہی مقامی نمائندوں نے صدارتی انتخابات کا فیصلہ کیا بلکہ یوں کہیے کہ حکمران فوجی آمر نے اس نام نہاد الیکشن کا ڈھونگ رچایا۔ ڈھونگ میں نے اس لئے لکھا کہ عوام کو آزادانہ ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ساری قوم جانتی تھی کہ مادرِ ملت کے سامنے ایک ملازمت پیشہ جرنیل کی حیثیت ہی کیا تھی؟ یہی مقولہ درست ثابت ہوا۔ مشرقی پاکستان میں جہاں انتخابی عمل براہ راست فوج کے کنٹرول میں تھا‘ جتنے ووٹ ڈالے گئے‘ ان کی اکثریت ایوب خان کے حق میں نکلی۔ اس دور میںکوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ مادرِ ملت کو‘ ایک فوجی عہدے پر فائز جنرل شکست دے گا۔ یہ پاکستان کے جمہوری نظام کا پہلا المیہ تھا‘ جو آج بھی ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ یاددہانی کے لئے عرض کر دیتا ہوں کہ مقامی حکومتوں کے اس الیکشن میں‘ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو کل 36 فیصد ووٹ ملے اور فوجی آمر کو 64 فیصد۔ پاکستان کے پہلے نام نہاد جمہوری الیکشن کے بعد ہمارے ملک میں کبھی خالص جمہوریت نہیں آئی۔ جتنے لوگ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم جمہوری نظام کا حصہ تھے‘ وہ ڈھٹائی سے غلط بیانی کر رہے ہیں، کیونکہ ایوب خان کی رخصتی کے بعد ا قتدار‘ یحییٰ خان کے سپرد ہو گیا۔ عوامی دبائو کے آگے مجبور ہو کر یحییٰ خان کو انتخابات کرانا پڑے اور اقتدار اس وقت چھوڑا‘جب پاکستان دولخت ہو گیا۔
میں بڑے ہی دکھ اور تکلیف کے عالم میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ آج بھی ہم انتخابات کے انتظار میں ہیں‘ مجھے دور دور تک جمہوریت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ آج ایک ایسی جماعت برسر اقتدار ہے جس کے منتخب نمائندوں کو نہ جمہوریت کا علم ہے اور نہ ہی تجربہ۔ یہ آمریت کے پنگھوڑے میں پلے ہیں اور ابھی تک پائوں زمین پر رکھ کر نہیں سکے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے‘ جو بھٹو صاحب کے نام پر ووٹ لینا چاہتی ہے لیکن بھٹو صاحب کے نام پر لئے گئے ووٹ‘ کیا آصف زرداری کے حق میں جائیں گے؟ تیسری مقبول جماعت تحریک انصاف ہے۔ اگر انتخابات ہوئے تو مقابلہ صرف تین ''پارٹیوں‘‘ کے درمیان ہو گا۔ اقتدار کے دو کھلاڑی آپس میں ایک دوسر ے کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ جو لیڈر عوام کے ووٹوں سے جیت سکتا ہے‘ وہ عمران خان ہے۔ اگر آنے والے انتخابات اقوام متحدہ کے کسی ذیلی ادارے کے تحت منعقد ہوئے، کمانڈ اور کنٹرول کیلئے کیوبا یا ملائشیا کی مشترکہ فورسز منگوائی جائیں تو عمران خان کی فتح یقینی ہے۔ ورنہ نتیجہ وہی پرانے پہلوانوں میں سے ایک کی جیت ہو گی۔ مجھے دور دور تک جمہوریت نظر نہیں آ رہی۔