تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-02-2018

اُم المحارب

میں گزشتہ تین روز سے قلعہ دراوڑ سے پرے‘ ''روہی‘‘ میں چولستان ڈیزرٹ ریلی میں تھا اور یہ تین روز نہایت شاندار گزرے۔ ایک انگریزی کہاوت کے مطابق "No News is a Good News" یعنی کسی خبر کا نہ ملنا بھی ایک اچھی خبر ہے۔ سو‘ ان تین دنوں میں حتی الامکان حد تک خبروں سے محفوظ رہا۔ موبائل بھی اپنی مرضی سے چلتا تھا‘ کبھی سگنل آ گئے اور کبھی چلے گئے۔ بلکہ زیادہ تر ''رخصت‘‘ پر ہی رہے۔ انٹرنیٹ بھی الحمدللہ چھٹی پر تھا۔ واٹس ایپ کی حشر سامانیاں قلعہ دراوڑ کی بلند و بالا دیواروں سے کہیں پرے دم توڑ گئی تھیں۔ ایک ٹیلے پر خاکوانی برادران کا کیمپ تھا، پندرہ بیس ٹینٹ تھے۔ کچن اور باتھ روم اب پختہ بن چکے تھے، ڈائننگ روم اور ایک عدد دلان ٹائپ ڈائننگ روم تھا، درمیان میں رات گئے آگ جلتی رہتی تھی، چائے کافی وغیرہ کا نہایت اعلیٰ بندوبست تھا۔ ساری کمپنی تقریباً وہی پرانی تھی‘ صرف اس بار برطانیہ سے راجہ صاحب آئے ہوئے تھے، نہایت ہی شاندار اور بل دار مونچھوں والے راجہ صاحب مزاحیہ گفتگو سنجیدہ ہو کر اور سنجیدہ گفتگو مزاحیہ انداز میں کرتے تھے۔ تین دن واٹس ایپ، اخبار ، ٹی وی اور کسی حد تک موبائل فون کے بغیر گزارنے جیسی ''عیاشی‘‘ کے بعد واپس آیا ہوں تو یہاں حسب سابق ''بھسوڑی‘‘ جاری ہے۔
میاں صاحب کی ''عدل کی بحالی بذریعہ عدلیہ کی تباہی‘‘ والی موجودہ مہم اسی طرح زور و شور سے جاری ہے جیسی جانے سے پہلے تھی، میاں صاحب ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''نہ کھیڈاں گے‘ نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ یعنی نہ خود کھیلیں گے اور نہ ہی کسی اور کو کھیلنے دیں گے‘ پر عمل پیرا ہیں۔ جب تک جسٹس قیوم جیسے لوگ عدل کا قتل عام کرتے رہے میاں صاحبان کو کوئی تکلیف نہ تھی جیسے ہی ''عدل‘‘ کا پلڑا ان کے مبارک ہاتھوں سے نکلا ہے‘ انہیں بحالیٔ عدل کا بخار چڑھ گیا ہے۔ میاں صاحب قسطوں میں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے اقتدار میں ہیں۔ اس دوران انہوں نے ادارے برباد کرنے میں اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالا، وہ اداروں کی بربادی کے واحد ذمہ دار نہیں ہیں لیکن بربادی میں ان کاحصہ کسی سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہے۔ انہیں اقتدار میں تین عشرے آوارہ گردی کرنے کے بعد اب پتا چلا ہے کہ ملک میں وکلاء کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ اس سے پہلے ان کے مقدمات یہی مہنگے وکلاء لڑتے تھے لیکن تب ان وکلاء کی فیسیں سرکاری خزانے سے‘ یعنی میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کی جاتی تھیں اس لئے انہیں علم ہی نہ ہو سکا کہ وکیلوں کی فیسیں کتنی ہیں۔ جونہی جیب سے دینا پڑیں ان کے دو چار ماہ میں ہی ''کڑاکے‘‘ نکل گئے ہیں۔ جب وہ وزیراعظم تھے تب برطانیہ وغیرہ جانے کے لئے پی آئی اے کا بوئنگ ٹرپل سیون جہاز‘ پورا کا پورا ان کے خاندان کو لے کر جایا کرتا تھا اور واپسی تک لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر کھڑا رہتا تھا اور سرکار اس کی پارکنگ کا کرایہ ادا کرتی رہتی تھی۔ جونہی پلے سے ٹکٹ خریدنے کا وقت آیا‘ میاں صاحب ایک خلیجی ملک کی ایئر لائن کے جہاز پر‘ ایک سیٹ لے کر لندن چلے گئے۔ چار پانچ ماہ پہلے ان کی لندن یاترا ہمیں کروڑوں میں پڑی تھی۔
بوئنگ 777 میں سیٹوں کی تعداد تین سو چودہ سے تین تو چھیانوے تک ہوتی ہے۔ یہ تعداد ماڈل اور جہاز میں مختلف کلاسز کی تقسیم پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم اگر کم از کم والی صورتحال کو مدنظر رکھ کر حساب کریں اور تیس سیٹیں بزنس کلاس اور تین سو سیٹیں اکانومی کلاس کے حساب سے صرف ٹکٹوں کی رقم کا حساب کریں تو لاہور - لندن - لاہور کا کرایہ ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ بنتا ہے۔ پھر دو چار دن کا ایئر پورٹ پارکنگ کا کرایہ اور پی آئی اے کے جہاز کا تین چار دن '' نان آپریشنل‘‘ رہنے کا نقصان شامل کریں تو یہ کم از کم بھی پانچ چھ کروڑ بنتا ہے۔ میاں صاحب کو اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد پتا چلا کہ لاہورتا لندن پورے جہاز کا خرچہ کافی زیادہ ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ سنگل سیٹ لے کر لندن چلے گئے۔ اسی طرح انہیں جیب سے (یہ بھی میرا گمان ہی ہے) وکیل کی فیس دینی پڑی تو انہیں پتا چلا کہ پاکستان میں عدالتوں سے انصاف لینا بڑا مہنگا ہے۔
میاں صاحب آج کل صرف اور صرف عدالتوں کے لتے لینے میں مصروف ہیں۔ وہ اور ان کی ٹیم صرف اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔ نہال ہسپتال میں ہیں اور طلال و دانیال فی الوقت تو صحت مند ہیں‘ مگر گمان ہے کہ جلد ہی ان کی طبیعت بھی خراب ہونے والی ہے اور وہ بھی عازمِ ہسپتال ہونے والے ہیں۔ چوہدری بھکن سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ کہنے لگا: پاکستان میں ہر بڑے آدمی کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے۔ میں نے کہا: وہ سرکاری خرچ پر اپنا چیک اپ کرواتے رہتے ہیں۔ چوہدری ہنسا اور کہنے لگا: میں ان کے سرکاری خرچ پر ہونے والے روٹین کے چیک اپ پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ جونہی یہ جیل جاتے ہیں ان کو کبھی ہارٹ کی، کبھی کمر کی، کبھی جگر کی اور کبھی گردوں کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ پرویز مشرف اندر ہوا‘ اس کی کمر میں مسئلہ ہو گیا، جونہی ضمانت کروا کر باہر گیا تو محفلوں میں ڈانس کرنے کے قابل ہو گیا۔ شرجیل میمن جیل چلا گیا تو بیمار ہوگیا، نہال ہاشمی جیل کے ہسپتال میں ہے، زرداری صاحب نے جیل کا کافی عرصہ ہسپتال میں گزارا، ڈاکٹر عاصم کا بھی یہی حال تھا۔ اب ایک ایسا میڈیکل بورڈ ہونا چاہیے جو یہ سرٹیفکیٹ دے کہ یہ بندہ چار‘ چھ ماہ جیل بھگتنے کے لئے مناسب صحت کا حامل ہے۔ اگر وہ اس معیار پر پورا نہ اترے تو اسے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وہ سرکاری افسر ہے تو بھی وہ اس بورڈ سے جیل یاترا کی فٹنس کا سرٹیفکیٹ ہر تین سال بعد جمع کروائے‘ جیسے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے وقت میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کروانا لازم ہے۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ ملک کے ہر بڑے شہر میں وی آئی پی ہسپتال بنا دیئے جائیں اور ہر بڑے آدمی کو سزا ہوتے ہی جیل کے بجائے براہ راست اسی ہسپتال بھجوا دیا جائے‘ ورنہ اس نے دو دن بعد ہسپتال میں تو آنا ہی ہوتا ہے، سو اسے گھما پھرا کر ہسپتال لانے کی بجائے سیدھا ہسپتال بھجوا دیا جائے البتہ یہ کیا جائے کہ اس ہسپتال کے کمرے کی فیس ایک لاکھ روپے روزانہ رکھ دی جائے‘ ان شاء اللہ اس ہسپتال میں داخل ہونے والے وی آئی پی قیدی کو جلد ہی شفائے کاملہ مل جائے گی۔
بات میاں صاحب کی بحالیٔ عدل تحریک کی ہو رہی تھی اور اس تحریک کا دائرۂ کار اب پارلیمنٹ تک آ گیا ہے۔ تین توہین عدالت کے مقدمات کے بعد‘ جن میں ایک نہال ہاشمی کو سزا ہو چکی ہے اور طلال و دانیال سزا کی تلوار تلے کھڑے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) نے یہ معاملہ اب پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ پارلیمنٹ کی ساری گفتگو اور تقاریر توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتیں۔ سو میاں صاحب نے یہ جنگ اب پارلیمنٹ میں پہنچا دی ہے۔ گزشتہ روز کی وزیراعظم کی تقریر اس کا ٹریلر تھی اور اب ساری فلم یہاں چلے گی۔ فی الحال خورشید شاہ اپنی الگ لائن ہونے کا تاثر دے رہے ہیں لیکن یہ بھی محض ڈرامہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر خورشید شاہ تک‘ سب مہمان اداکار ہیں اور مناسب معاوضے کے عوض اپنے اپنے ''آئٹم سانگ‘‘ پر اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کے پرکاٹنے، جسٹس کھوسہ سے خلاصی حاصل کرنے اور نظامِ عدل کو نیچے لگانے کے لئے ایک ترمیم لانے پر غور ہو رہا ہے‘ جس میں عدلیہ کے ججوں کی عمر کی حد کم کرنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات پارلیمنٹ کو دینے پر کام ہو رہا ہے۔
ایک بڑی جنگ کی تیاری ابتدائی مراحل میں ہے۔ ''ام المحارب‘‘ کسی وقت بھی شروع ہو سکتی ہے‘ اس میں کون مارا جائے گا؟ کم از کم اس عاجز کو تو اندازہ ہے لیکن میاں صاحب کو اس کا اندازہ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کا نشہ کبھی بھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنے دیتا۔ صدیوں سے حکمران اسی نشے کا شکار ہو رہے ہیں مگر ہر حکمران یہی گمان کرتا ہے کہ وہ یہ غلطی نہیں کر رہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved