تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی بڑا نام خصوصاً سیاست، فلسفہ، مذہب یا ادب میں ابھرتا تو اس کے رحلت فرما جانے کے بعد آنے والی نسلیں ایک نئے وقت اور نئے عہد میں اُن کی سوچوں اور نظریات کو بعض اوقات اپنے مفادات اور مسلط عہد کے تقاضوں کے مطابق اس قدر بگاڑ کر پیش کرتی ہیں کہ یہ ان شخصیات کی جدوجہد اور فکر کی تضحیک بن جاتی ہے۔ وقت بدلتے ہیں‘ عہد کا کردار کروٹ لیتا ہے لیکن سائنسی سوچ اور فلسفے کے نظریات اور تجزیہ و تناظر تاریک ادوار میں شاید دب تو جاتے ہیں لیکن مرتے نہیں۔ اسی طرح کٹھن ادوار کے کسی رجعتی عہد کے جبر میں جو افراد خود گھٹنے ٹیک دیتے ہیں وہ ان ناموں کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی شناسائی اور تعلق کے حوالے سے ان شہرۂ آفاق شخصیات کو بھی ان کی شکست خوردہ سوچوں اور فرسودہ نظریات سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کی وجۂ شناخت بدل دی جاتی ہے اور رائج ریت اور فرسودہ ثقافت کے معیار میں ضم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی کسی حد تک فیض احمد فیض کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ہم جلا وطنی میں فیض صاحب کے ساتھ تھوڑی بہت رفاقت میں ان کی کہی ہوئی باتوں اور ان کے پرچار کردہ نظریات اور ان کے اقوال کو پیش نہ کریں تو بھی ان کی زندگی کی ٹھوس حقیقتیں اور عملی جدوجہد کا سفر ہی بہت واضح طور پر یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ فیض کون تھے۔
فیض صاحب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک سرگرم کارکن اور اس سرمایہ دارانہ جبر اور سامراجی غلامی کے خاتمے کی جدوجہد میں ہراول کردار ادا کرنے والے انسان تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کے تحت ہی فیض برٹش انڈین آرمی میں شامل ہوئے اور اس اقدام کا مقصد فوج میں مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات کا زیر زمین پرچار اور فوج کے سپاہیوں اور نوجوان افسران کو سوشلزم اور آزادی کی جدوجہد میں جیتنا تھا۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک کام تھا جو فیض صاحب کو سونپا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی فیض صاحب اس نئی آزاد ریاست کے عتاب کا شکار رہے۔ ان کو جدوجہد کی پاداش میں جبر کا نشانہ اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ وہ بہت عظیم شاعر تھے، جو کہ تھے بھی‘ بلکہ سامراج کے پروردہ اور سرمایہ داری کے تحفظ کا کام کرنے والوں نے ان پر اس لیے جبر کیا کہ وہ ایک کمیونسٹ تھے۔
فیض صاحب نے ریلوے سے لے کر پوسٹ آفس تک‘ بہت سی ٹریڈ یونینوں میں مزدوروں کو منظم و متحرک کیا۔ بہت سی تحریکوں میں ہراول کردار ادا کیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی راولپنڈی سازش کیس سے لے کر کمیونسٹ پارٹی میں دیگر کئی سرگرمیوں تک کئی وجوہات کی بنا پر فیض صاحب کو پابند سلاسل کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ فیض کا شمار برصغیر پاک وہند کے علاوہ اپنے عہد کے دنیا بھر کے بہترین شاعروں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک عظیم شاعر‘ مفکر اور ادیب بھی تھے‘ لیکن فیض کی شاعری اور فکر کی بنیاد وہ روشن خیال نظریات تھے جو طبقاتی جدوجہد اور مارکسزم کے سائنسی نظریات اور جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کی سوچ پر مبنی تھے۔ فیض صاحب کی شاعری میں اس طبقاتی کشمکش کے رنگ جس قدر عیاں ہیں ایسے بہت کم دوسرے شاعروں کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ فیض صاحب کے علاوہ بہت سے دوسرے شعرأ، جن میں حبیب جالب، احمد فراز اور چند دوسرے نام آتے ہیں، بھی اس مزاحمتی سوچ اور جدوجہد کو فروغ دینے میں اپنے لطیف، حسین اور جرأت مندانہ اشعار چھوڑ کر گئے۔ فیض صاحب نے خود بارہا اپنے قریبی دوستوں سے کہا بھی کہ ان کی شاعری کا جمالیاتی حسن بھی بہت حد تک مارکسزم کی دین ہے کیونکہ یہ نظریہ ذہن کے دریچوں کو کھولتا ہے اور معاشرے میں قدامت پرستی کی کائی جو ذہنوں پر جم جاتی ہے اور فرسودہ سوچیں جو کسی جمود کے عہد میں حاوی ہو جاتی ہیں‘ ان کو صاف اور فکر کو شفاف کر دیتا ہے۔ زندگی میں طبقاتی جبر کی تلخ حقیقتوں کو عیاں کر دیتا ہے۔ پھر شاعر کا فن وہ ہوتا ہے‘ جس سے وہ اس جدوجہد کو اپنے اشعار میں پرو کر دلوں میں گھر کر جانے والا اثر انگیز ذریعہ بنا دیتا ہے۔
فیض صاحب کے کردار کی منفرد پرت ان کی عاجزی تھی‘ اور اتنی تلخ جدوجہد کا حصہ ہوتے ہوئے بھی لطافت ان کا دامن نہیں چھوڑتی تھی‘ لیکن اتنی حلیم طبیعت رکھنے والے فیض اندر سے کمیونزم کے نظریات پر ایک فولادی یقین کے حامل تھے۔ فیض صاحب انہی مارکسی نظریات کے ساتھ جیے اور مرتے دم تک ان پر قائم رہے۔ بعد میں ان کے نظریات کے ساتھ ان کے رفیقوں نے جو کیا اور ان کی سوچ کو جس طرح پیش کیا‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ فیض صاحب سوویت یونین کے ٹوٹنے اور دیوار برلن کے گرنے سے پیشتر ہی رحلت فرما گئے تھے۔ اس کے بعد کا دور مارکسسٹوں کے لئے بہت کٹھن تھا اور ایک کڑی آزمائش بھی تھی‘ جہاں پوری دنیا میں ''سوشلزم‘‘ اور ''کمیونزم‘‘ کارپوریٹ میڈیا اور حاوی سیاست و فکر کے ہاتھوں تضحیک اور رسوائی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ان حالات میں مارکسزم کے ان نظریات پر قائم رہتے ہوئے جدوجہد کرنے میں بہت سے ساتھیوں نے فیض صاحب کی شاعری کا بہت سہارا لیا۔ طبقاتی جدوجہد کی عارضی پسپائی کے تاریک ادوار میں بھی فیض صاحب کی شاعری حوصلوں کو قائم رکھنے میں بہت کارآمد ثابت ہوئی۔
اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
لیکن المیہ یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دوسری کئی قوتوں نے فیض کو اپنی طاقت کے ذریعے اپنے مفادات کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ فیض کی یہ کمرشلائزیشن فیض صاحب کی فکر اور نظریات کی تذلیل ہی تھی‘ لیکن بائیں بازو کے ساتھی اپنے محدود ترین وسائل اور مشکل ترین حالات میں بھی فیض کی نظموں کے گرد اپنی محفلیں سجاتے رہے۔ نئی نسل تک فیض کی شاعری اور فکر کی نظریاتی اساس پہنچاتے رہے۔ انہی لاتعداد سرگرمیوں میں''فیض امن میلہ‘‘ کا انعقاد بائیں بازو کی ایک روایت‘ ایک سالانہ تہوار بن گیا ہے۔ گو حالیہ سالوں میں سامراجی اجارہ داریوں اور قومی سرمایہ داروں کی کمپنیوں نے اپنی تشہیر کے لئے فیض کی شاعری اور ان کی شخصیت کی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کی ہے‘ لیکن بائیں بازو کے سوشلسٹ ساتھیوں سے فیض کی میراث مالیاتی سرمائے سے نہیں چھینی جا سکتی تھی۔ اس سال 18 فروری کو لارنس گارڈن اوپن ائیر تھیٹر میں منعقد ہونے والا فیض امن میلہ جس میں نوجوانوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ ہزاروں مرد و خواتین شریک ہوئے، بہت کامیاب رہا۔ اس فیض میلے کے منتظم فاروق طارق نے بتایا کہ یہ 1986ء کے بعد سب سے بڑا فیض میلہ تھا۔ آج سے 32 سال قبل اُس دور میں سوویت یونین بھی نہیں ٹوٹا تھا اور کارپوریٹ میڈیا کی سوشلزم کے خلاف ہولناک یلغار بھی اتنی شدت سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس اجتماع سے کم از کم ایک نتیجہ ضرور اخذ کیا جا رہا ہے کہ نوجوانوں اور روشن خیال سوچ رکھنے والوں میں انقلابی سوشلزم کے لئے ایک نئے عزم حوصلے اور جرأت کا احیأ ہو رہا ہے۔ یہ میلہ ایک طویل تاریک رات کے عہد کے اختتام کے آثار بھی دکھا رہا ہے۔ معاشرے میں اس نظام زر کے خلاف جو حقارت اور بغاوت کی آگ سلگ رہی ہے اس کے ایک تحریک کی صورت میں پھٹنے اور نوجوانوں و محنت کش طبقات کا تاریخ کے میدان میں اتر کر اس نظام کی مسلط کردہ سیاست، دانش، ثقافت، ریاست اور کارپوریٹ صحافت کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرنے کا وقت بھی شاید قریب آن پہنچا ہے۔
وہ وقت قریب آن پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے‘ جب تاج اُچھالے جائیں گے
(فیض احمد فیض)