تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     22-02-2018

حفظِ قرآن … (آخری قسط)

حفظِ قرآن کے بارے میں مزید جاننے سے قبل گزشتہ روز کی ایک فون کال اور ای میل دیکھئے۔ مانچسٹر‘ برطانیہ سے ایک ستر سالہ بزرگ بولے‘ میرے چھ بیٹے ہیں‘ یہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ انجینئر‘ ڈاکٹر سبھی کچھ ہیں لیکن حفظِ قرآن کی اہمیت‘ ثواب اور اثرات پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری ساری زندگی کی کمائی صفر بٹا صفر ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی میں خود کو آج بے چین‘ ناکام اور بے سکون محسوس کرتا ہوں۔ سوچتا ہوں کاش کسی ایک بچے کو ہی حفظ کرا دیا ہوتا۔ بزرگ کا کہنا تھا‘ میری ایک بہو کے ہاں تین ماہ کا ایک بچہ ہے‘ میری آخری خواہش یہی ہے کہ اس سے درخواست کروں کہ وہ میرے پوتے کو حفظ کرائے تاکہ میں مرنے سے قبل اپنے خون‘ اپنی اولاد کے لبوں سے قرآن کی میٹھی میٹھی تلاوت سن کر شفا‘ سکون اور اطمینانِ قلب پا سکوں۔ دوسری ای میل میں فیصل آباد سے ایک حافظہ لیکچرر لکھتی ہیں: میری اپنی ہم عصر ساتھیوں کے مقابلے میں سیکھنے اور مشاہدے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ میں پنجاب یونیورسٹی میں دو مرتبہ اول آ ئی اور گولڈ میڈل بھی لے چکی ہوں‘ میرا یقین ہے یہ سب حفظ کا کمال ہے۔
اب ہم حفظِ قرآن کے تقاضوں کی جانب آتے ہیں۔ میں نے قاری حضرات سے کہہ رکھا تھا‘ بچے کو سزا نہیں دینی‘ یہ سستی یا غلطی کرے تو اطلاع دیں۔ سزا سے نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے اس کے بجائے اس کی تعریف کریں اور شروع میں سبق بہت تھوڑا رکھیں‘ سلسلہ چل نکلے تو استعداد کے مطابق بڑھاتے جائیں۔ ہم نے ہر سیپارے کی تکمیل پر اسے چھوٹے چھوٹے تحفے دینے شروع کر دیئے‘ کبھی کھلونا‘ کبھی ٹی شرٹ‘ کبھی فن لینڈ کی سیر۔ اسے محسوس ہوا وہ تنہا نہیں ہے‘ وہ مزید ذوق و شوق سے سبق یاد کرنے لگا۔ ہمارے کیس میں دارِ ارقم سکول کی تمام مینجمنٹ بالخصوص ڈائریکٹر یابسین خان‘ پرنسپل ریاض ہاشمی‘ راشد الخیری‘ قاری اشرف اور قاری منیر صاحب نے بہت محنت کرائی اور ایک دو ایسے مواقع بھی آئے جب یاد کرنے کا سلسلہ رک سا گیا لیکن اللہ کے فضل اور سکول کے تعاون سے پھر چل نکلا۔
تکمیلِ حفظ کی تقریب انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ عمومی طور پر سکول کے کمرے میں ہی ایک چھوٹی سی تقریب ہوتی ہے‘ جس میں چار پانچ قریبی لوگ یعنی والد ‘بیٹے اور دادا‘ نانا ہی شریک ہوتے ہیں۔ بچہ آخری سبق سناتا ہے اور پھر مٹھائی کھلا کر دُعا کی جاتی ہے۔ اس ایونٹ کو ''آمین‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے ایسا ایک ایونٹ اٹینڈ کیا تو مجھے محسوس ہوا یہ سعادت تو بہت بلند ہے لیکن یہ کام چھپ کر اور اتنی خاموشی سے کیوں کیا جاتا ہے؟ سادگی اپنی جگہ لیکن ہمِیں لوگ سالگرہ‘ مایوں اور مہندی جیسی فضولیات اور شادیوں میں ڈنکے کی چوٹ پر لاکھوں‘ کروڑوں اڑا دیتے ہیں۔ ایک فیملی نے چند دن قبل مہندی پر پندرہ لاکھ خرچ کئے۔ میں نے سوچا مہندی سے ہمارا کوئی تعلق‘ نہ معاشرے کو کوئی فائدہ پھر بھی مہندیاں‘ شادیاں اور میوزک کنسرٹس کھلے عام اور شاہانہ انداز سے ہوتے ہیں لیکن حفظِ قرآن کی تکمیل کو دو منٹ میں بھگتا دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خوشی کی کیا کیفیت ہوتی ہے‘ یہ والدین کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد انسان خود کو ہلکا پھلکا‘ تازہ دم اور خوشی سے سرشار محسوس کرتا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ تقریب کسی پبلک مقام‘ کسی شادی ہال یا ہوٹل میں رکھوں گا اور اپنی استعداد کے مطابق دوستوں اور رشتہ داروں کو بلائوں گا۔ امریکہ اور یورپ میں بھی اسے ہوٹلز میں باقاعدہ سیلیبریٹ کیا جاتا ہے اور خوبصورت کارڈز اور فلیکس چھپوائے جاتے ہیں۔ ہم نے اس مقصد کے لئے سارا سال بچت کی تھی تاکہ اس عظیم خوشی کو شایانِ شان منا سکیں۔ مقصد قرآن کی عظمت کو لوگوں کے دلوں میں جگانا اور بچے کی کاوش کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ میرے لئے یہ تقریب بچوں کی شادی سے کہیں زیادہ یادگار اور اہم تھی۔ شادی تو دو لوگوں یا خاندانوں کا بندھن ہوتا ہے جبکہ حفظِ قرآن اللہ سے تعلق اور دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ تقریب کا آغاز قاری عبدالودود عاصم نے سورہ الرحمن کی تلاوت سے کیا‘ نعت پڑھی گئی‘ بیٹے نے آخری سبق سنایا‘ اس کی ننھی بہنوں نے بھائی کی کامیابی پر نظم سنائی‘ پھر قرآن کی شان میں حافظ عبدالودود نے شعر پڑھے۔ میں نے‘ میرے والد گرامی‘ مہمان خصوصی لیاقت بلوچ صاحب اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب نے بچے کو مبارکبار دی اور خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں قاری عبدالودود نے دس بارہ منٹ کی رقت آمیز دُعا کروائی۔ بچے کو تحائف دئیے گئے‘ کسی نے قرآن پاک تو کسی نے کھلونے‘ پھر سب نے ون ڈش لنچ کیا‘ سارے پروگرام کو ٹی وی چینلز نے بھی کور کیا۔ اس دوران نہ کوئی بور ہوا‘ نہ کسی کو نیند آئی‘ نہ کوئی خلاف شرع کام ہوا‘ سارا وقت یوں لگا جیسے عید کا سماں ہو‘ برکتیں اور رحمتیں نازل ہو رہی ہوں‘ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی‘ ہر کوئی خوشی سے نہال اور بچے کی دینی کامیابی پر خوش تھا۔ تقریب سے لوگوں کو پیغام ملا‘ ناچ گانوں و رسومات کے فنکشن‘ روایتی، سیاسی و سماجی لنچ و ڈنر اور فضول تقریبات سے یہ ہزار گنا بہتر کاوش تھی‘ جس سے سینکڑوں خاندانوں اور ان کے بچوں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کے بچے بھی قرآن حفظ کریں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ تلاوت اور حفظ اس سلسلے کی پہلی کڑی یا سیڑھی ہے‘ یقینا ہر بچے کو قرآن کے ترجمے‘ مفہوم‘ تفسیر اور سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے لیکن جیسا کہ ابتسام صاحب نے تقریر میں کہا تلاوتِ قرآن کی اپنی شان اور اپنا اثر ہے‘ تلاوتِ آیات کی تکرار کے نتیجے میں جو استقراری کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ روح کو تازہ اور ایمان کی روشنی سے منور کر دیتی ہے۔ آیات میں کتنی طاقت ہوتی ہے‘ اللہ نے بتا دیا ''اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا‘‘۔ قرآن کو دلوں کے لئے شفا کہا گیا ہے لیکن ہم موسیقی کی دھنوں میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں‘ آپ ایک وقت میں چار سے چھ گانے سننے کے بعد بور ہونا شروع ہو جائیں گے اور آخر میں آپ کا ضمیر خود کو بوجھل اور ملامت زدہ محسوس کرے گا لیکن قرآن کی تلاوت آپ ساری رات سنتے رہیں‘ آپ کو بوریت محسوس نہ ہو گی بلکہ آپ کا ضمیر‘ آپ کا دل اور آپ کی روح خوشی اور تازگی سے سرشار و آباد ہو جائیں گے۔ جی ہاں! یہ قرآن کہ جس دین میں یہ آیا‘ وہ دین رہتی دنیا کے لئے ایک آتھینٹک دین اور جنت میں داخلے کا ذریعہ بن گیا‘ ذرا سوچیں! جس انسان کے دل‘ جس کے سینے میں قرآن پاک محفوظ ہو جائے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک اس کی عزت‘ شان اور مرتبہ کیا ہوتا ہو گا۔ حفظ مکمل ہو جائے تو بچے کو ایک قاری گھر پر لگوا دیں یا گھر کا کوئی بڑا روزانہ اس کے دو سیپارے سنا کرے۔ اس کے بعد بچے کو ترجمہ اور تفسیر پڑھائیں۔ ترجمہ معلوم ہو تو تلاوت کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اور آیات کے مفہوم کے مطابق تلاوت کرنے اور درست مخارج ادا کرنے میں مہارت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے کو سکول واپس داخل کرائیں اور پھر دیکھیں اللہ کے کرشمے اور برکات۔
سعودی عرب اور ترکی کی حکومتیں حفاظِ قرآن کی بہت قدر کرتی ہیں۔ حال ہی میں دو ہزار حافظ بچوں کو ترک حکومت نے عمرہ پر بھیجا ہے۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور لکھتے ہیں کہ ترکی میں بچہ سات سال کا ہونے پر اسے نماز کی ترغیب دلانے کے لئے مقابلہ منعقد ہوتا ہے کہ جو بچہ فجر کی نماز چالیس دن تک باجماعت پڑھے گا، اسے خوبصورت اور قیمتی بائیسکل دی جائے گی۔ بچے جوق در جوق فجر کی نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جب انہیں انعام ملتا ہے تو پورے شہر میں جلوس نکالتے ہیں۔ چالیس دن تک وہ نمازی بننا سیکھتے ہیں‘ اکتالیسویں دن وہ نماز کے داعی بن چکے ہوتے ہیں۔ گرمی کی چھٹیوں میں ترکی کے طول و عرض میں مساجد میں ''حفظِ قرآن سمر کیمپ‘‘ لگائے جاتے ہیں۔ کچھ تو مسجد کی بہترین سہولتیں‘ کچھ پڑھانے پڑھانے والوں کا رویہ‘ کچھ انعامات اور حوصلہ افزائی سے پیدا ہونے والا جذبہ... عجیب و غریب ماحول ہوتا ہے۔ بچے لگن سے قرآن کریم یاد کر رہے ہوتے ہیں‘ والدین اور اساتذہ خوشی سے نہال ہو رہے ہوتے ہیں اور چھٹیوں میں ہر سال بچوں کو قرآن کریم کا اتنا منتخب نصاب یاد ہو جاتا ہے جو عمر بھر کے لئے ان کے واسطے رحمت و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور جو بچہ پورا قرآن کریم حفظ کر لے‘ اسے عمرے پر بھیجا جاتا ہے جس کی ویڈیو آج کل گردش کر رہی ہے۔ اسی طرح کے حوصلہ افزا اقدامات سعودی عرب میں بھی کثرت سے کئے جاتے ہیں۔
دُعا ہے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ‘ نیک نیتی سے لکھی جانے والی اس تحریری کاوش کو قبول فرمائے‘ ہمیں ہر قسم کے شر اور فتنے سے بچائے اور پسماندہ طبقے کے علاوہ اشرافیہ کو بھی ہر گھر انے سے کم از کم ایک بچہ حفظِ قرآن کے لئے وقف کرنے کی توفیق دے تاکہ یہ بچے ہماری آنکھوں اور دلوں کی ٹھنڈک کا باعث بنیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت کی منزلیں بھی آسان ہو سکیں۔ آمین!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved