پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے قیامت ڈھانے کی تیاری کرلی ہے۔ ایوان بالا نے خالدہ پروین کی پیش کردہ قرارداد منظور کرلی ہے جس کے تحت ملک بھر کے اسکولز میں چینی زبان کی تعلیم لازم قرار دی گئی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے ریمارکس میں کہا کہ آپ (خالدہ پروین) چینی زبان کو ہم پر کیوں مسلط کرنا چاہتی ہیں؟ ہم جب علاقائی زبانوں کو لازمی قرار نہیں دے پارہے تو چینی زبان کو کیسے لازمی قرار دے دیں؟ حکومت نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ وزیر مملکت جام جمال نے کہا کہ لازمی کے بجائے حوصلہ افزائی کے الفاظ شامل کیے جائیں تو ہم اس قرارداد کی حمایت کریں گے۔ چینی زبان سے متعلق اس قرارداد پر حکومت کو ایوان میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
چینی زبان کے حوالے سے ایک بار پہلے بھی لطیفہ بازی شروع ہوئی تھی۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ شاہ سائیں چونکہ اس نوعیت کی لطیفہ بازی اکثر فرماتے تھے اس لیے لوگ یہ سمجھے کہ چینی زبان سندھ کے اسکولوں میں پڑھانے کی بات کرکے وہ شاید لوگوں کو کچھ دیر یا کچھ دن ہنسنے کا موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں! بات آئی گئی ہوگئی۔ لوگ تو شاہ سائیں کو بھی بھول گئے، ایسے میں چینی زبان اسکولز میں سکھانے والی بات کہاں یاد رہتی؟
اب چینی زبان کا مردہ سینیٹ میں زندہ ہوگیا ہے۔ خالدہ پروین کا تعلق پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) سے ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں قرارداد پیش کی ہے تو ضرور پارٹی لائن کے مطابق ہی ایسا کیا ہوگا۔ ہیں تو میاں رضا ربانی بھی پیپلز پارٹی مگر انہوں نے درست کہا۔ ہمارے لیے اب تک اپنی زبانیں سیکھنا تو ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ ایسے میں چینی جیسی ثقیل اور انتہائی اجنبی زبان میں شُدبُد! اللہ رحم فرمائے۔ چیئرمین سینیٹ کی یہ بات بھی بجا ہے کہ اب تک ہم اپنی علاقائی زبانوں کو تو لازمی قرار دے نہیں پائے، چینی کو لازمی کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ ایک ہی جھٹکے میں سینیٹ جیسے ادارے میں چینی زبان کو لازم قرار دینے سے متعلق قرارداد کی منظوری! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے!
جب شاہ سائیں نے سندھ کے اسکولز میں چینی زبان کی تعلیم کے اہتمام کی بات کی تھی تب مرزا تنقید بیگ نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ بچوں پر اِتنا ظلم کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جانا چاہیے! مرزا کی بات میں دم تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ مرزا کی اسکولنگ ڈھنگ سے نہیں ہو پائی تھی۔ ان کا بچپن لاپروائی اور شرارتوں کی نذر ہوا۔ پڑھنے پر وہ خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ کرسکے۔ اردو ڈھنگ سے سیکھ سکے نہ انگریزی۔ رہی سندھی تو وہ انہیں بس اس قدر آتی ہے کہ کسی کا نام (نالو) پوچھ لیا یا کسی کو بندر (بولھڑو) قرار دے دیا! ایک زمانے تک وہ سَر مارتے رہے مگر سندھی میں مہارت پیدا کرنے کا معرکہ سَر نہ ہو پایا۔ اب جو اُنہوں نے چینی زبان پڑھائے جانے کی بات سنی تو ہنسی ایسی چُھوٹی کہ تادیر قابو میں نہ آئی! ہنستے ہنستے بے دم سے ہوگئے۔ بڑی مشکل سے سانس بحال ہوا تو کہنے لگے ''ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ اپنا آپ منوانے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں اور ہم ہیں کہ انہونی کو ہونی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ پاک چین دوستی زندہ باد۔ چین کو ہم سے جو محبت ہے وہ بھی سَر آنکھوں پر۔ مگر بھئی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم چینی جیسی بالکل اجنبی زبان کو بچوں پر تھوپ دیں، مسلط کردیں! انگریزی ہی کی مثال لیجیے۔ ہم ایک زمانے سے اس زبان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ انگریزی کے بیشتر الفاظ ہماری گفتگو اور زندگی کا حصہ ہیں مگر اس کے باوجود انگریزی میں خاطر خواہ مہارت کا حصول ہم اب تک ممکن نہیں بنا پائے۔ چینی تو بالکل اجنبی زبان ہے۔ اس کے تقریباً تمام ہی الفاظ سے ہم نامانوس ہیں۔ چین کی ثقافت، تہذیبی اقدار، تاریخ، جغرافیہ، علاقائی تناظر اور سفارتی حرکیات سے ہم بہت حد تک ناواقف ہیں۔ کسی بھی ملک کی زبان اس کی ثقافت اور تاریخ سے بے بہرہ نہیں ہوتی۔ اگر ہم چین کی زبان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو بہت کچھ جاننا ہوگا۔ چین سے دوستی اپنی جگہ مگر ہماری قوم مجموعی طور پر اب تک اس قابل نہیں ہو پائی کہ علم کے حصول کی راہوں میں زیادہ دور تک جاسکے۔ یہاں تو موزوں اسکولنگ ہی ممکن نہیں۔ بچے اپنی مادری زبان بھی ڈھنگ سے سیکھ نہیں پاتے۔ ایسے میں چینی زبان کا سیکھنا اور سکھانا ماحول کو اچھا خاصا مسخرانہ بنادے گا!‘‘
مرزا دانش کے موتی لٹا رہے تھے اور ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
والا سماں پیدا ہوگیا تھا۔ یہ باتیں سن کر ہمیں پہلی بار محسوس ہوا کہ اللہ نے مرزا کو بھی عقل عطا فرمائی ہے اور وہ اِس نعمت کو بروئے کار لانے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ مزید یعنی اضافی خوشی اس بات سے ہوئی کہ ہمارے دوستوں میں بھی ایسی ہستیاں ہیں جو عقل سے کام لینا چاہتی اور جانتی ہیں!
ہم اب تک یہ بات سمجھ نہیں پائے کہ چینی زبان سیکھنے اور سکھانے پر اس قدر زور کیوں دیا جارہا ہے جبکہ چینی حکومت اس معاملے میں خاطر خواہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ یہ عقدہ بھی مرزا ہی نے وا کیا۔ ''چین سے قربت اپنی جگہ۔ پاک چین دوستی بھی تسلیم شدہ حقیقت سہی مگر یہاں معاملہ روزی روٹی کا ہے۔ اسکول کی سطح پر چینی زبان متعارف کرانے سے چینی زبان سیکھے ہوئے لوگوں کو ٹیچر کی حیثیت سے کھپانا آسان ہوگا۔ اچھا ہے، چین بھی خوش ہو جائے گا اور یہاں چند ہزار افراد کو بہتر روزگار بھی میسر ہوگا۔ دوستی کا یہی تو سب سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ معاشرت اور معاشیات پہلو بہ پہلو چلتی ہیں!‘‘
چینی زبان کے معاشی پہلو سے آشنا ہوکر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مرزا واقعی سِکّہ بند سرکاری ملازم رہے ہیں۔ شاہ سائیں نے سندھ میں چینی زبان کے چند ہزار ٹیچرز کھپانے کے لیے جو تیر چلایا تھا اُسے نشانے تک پہنچانے میں سینیٹ نے اپنا کردار ادا کردیا ہے۔ ع
بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
بہر کیف، چینی زبان اسکول کی سطح پر سکھائے جانے کی تجویز کی ہم تو پرجوش مخالفت کریں گے کیونکہ اسکولز میں بچوں کو پہلے ہی سو طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ ''ایکٹیویٹی‘‘ کے نام پر بچوں کے دردِ سر میں خاصا اضافہ کردیا گیا ہے۔ ایسے میں چینی زبان کا سیکھنا ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مِصداق ہوگا! جو بچے قومی زبان اور علاقائی زبانیں ڈھنگ سے نہیں سیکھ پاتے وہ انتہائی مشکل چینی زبان سیکھنے پر کس اذیت سے گزریں گے اِس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی جُھرجُھری سی محسوس ہوتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
چینی زبان کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ چین کی آبادی اتنی ہے کہ سب مل کر اس زبان کا بوجھ برداشت کرلیتے ہیں۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ اچھا ہے کہ یہ بھاری پتھر جہاں پڑا ہے وہیں پڑا رہنے دیا جائے۔