تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-02-2018

کیا یہ کالم ہے؟

مجید نظامی مرحوم کا قول ان دنوں بار بار دہرایا جاتا ہے کہ کالم وہ ہوتا ہے جس کا کوئی عنوان نہ ہو۔ لیجئے اس کا کوئی عنوان نہیں۔ کیا یہ کالم ہے؟
یوم حمید نظامی پر ان کے محاسن بیان کرتے ہوئے‘ کسی نے کہا کہ مقفع اور مسجع نہیں وہ سادہ زبان لکھتے تھے۔ اس طرح اپنے عہد کی صحافت کو انہوں نے بدل ڈالا۔ سادہ اور رواں زبان ہی نہیں‘ ان کی اور بھی خوبیاں تھیں۔ میر انیسؔ نے کہا تھا: تلوار کاٹتی ہے مگر زبان میں کاٹ نہیں۔ سادہ کا مطلب بازاری زبان نہیں‘ جو آج کے اخبار میں لکھی اور آج کے ٹی وی میں بولی جاتی ہے۔ جس قوم کی کوئی زبان نہیں‘ اس کی کوئی تہذیب بھی نہیں۔ جس کی کوئی تہذیب نہیں‘ اس کی کوئی شناخت نہیں۔ اور جب شناخت ہی نہیں تو قوم کیسی؟
مورخ عائشہ جلال کا ایک تازہ انٹرویو کسی نے شائع کیا ہے۔ بہت قلق کے ساتھ‘ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کا ذکر کیا ہے۔ گویا ایک حادثہ ہے‘ جو زخم کی طرح زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ عائشہ ایک نہایت استوار اور محترم استاد ہیں۔ ایسے لوگ مگر معاشروں کو کبھی ثروت مند نہیں کرتے‘ جو ان میں مایوسی کو ہوا دیں۔ شادی کے 70 برس گزر جانے کے بعد معمولی فہم کا ایک آدمی بھی کسی بوڑھے سے یہ نہ کہے گا: تمہیں یہ شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں صحن میں کھیل رہے ہوں اور اس سے یہ کہا جائے کہ تم نے بیاہ رچا کر غلطی کی تھی تو اس خاندان کا ردعمل کیا ہو گا؟ کچھ اور نہیں تو دانش بگھارنے والوں کو انسانی جذبات کا احترام ہی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا اور تاریخ سے لڑا نہیں جاتا۔ ایک نکتہ اور بھی ہے۔ اپنے اپنے میدان کے شہسوار کبھی زندگی کے عظیم تر تقاضوں سے یکسر بے خبر رہتے ہیں۔ عظیم معالج، نامور سائنسدان، غیر معمولی انجینئر اور اب معلوم ہوا کہ گاہے مؤرخ بھی۔ عائشہ جلال اردو زبان کے عظیم ترین افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی بھانجی ہیں۔ ادب و شعر کا ذوق رکھتی ہیں۔ زندگی کو ایک وسیع تر دائرے میں دیکھنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ جانتی ہیں کہ تاریخ صرف حکمرانی اور سیاست کی نہیں ہوتی بلکہ ثقافت اور تہذیب و تمدن کی بھی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ نکتہ ان پہ کیوں آشکار نہیں کہ تاریخی، سیاسی اور سماجی عوامل جب کوئی فیصلہ صادر کر دیں تو وہ اٹل ہوتا ہے۔ اسی کو تقدیر کہا جاتا ہے اور تقدیر سے لڑنے والے احمق ہوتے ہیں۔ عائشہ جلال کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان قائداعظم نے نہیں بلکہ نہرو اور کانگریس کی ہٹ دھرمی نے بنایا۔ سبحان اللہ 1946ء کے انتخابات میں، اکثر صوبوں میں، مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے 99 فیصد کیا مسلم لیگ نے نہیں جیت لی تھیں؟ آدمی خواب دیکھتے ہیں اور معاشرے بھی۔ خواب نہ دیکھنے والا اگر مردہ نہیں تو محدود ضرور ہوتا ہے، اسی طرح معاشرہ بھی۔
ملّا ہیں جو روتے ہیں کہ قائداعظم نے ان کے جلیل القدر اساتذہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حسین احمد مدنی اور ابوالکلام آزاد کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ ان کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ محمد علی جناح انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ پشتون قوم پرستی کے تنگ دائرے میں سوچنے والے عبدالغفار کے پیروکار بھی یہی کہتے ہیں۔ اشتراکی تحریکوں سے متاثر، ترقی پسند سیانے ہیں۔ اس طرح کی احمقانہ گفتگو وہ نہیں کرتے۔ دبے الفاظ میں یہ البتہ کہتے ہیں کہ ملک بنانے کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا گیا۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ ہندو کو اگر اپنے ہندو ہونے پر اصرار تھا۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اگر مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرنے کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ اگر وزیرستان کی سرحد پر کھڑے، گاندھی جی نے شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: برصغیر کی حدود بامیان تک ہیں۔ تو مسلمان اپنے مسلمان ہونے پہ کیوں اصرار نہ کرتے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس کا طویل تجربہ رکھنے کے باوجود‘ عائشہ جلال جو بات سمجھ نہیں سکیں وہ یہ ہے کہ ہر شخص کی الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔ اسی طرح اقوام اور معاشروں کی بھی۔ فرض کیجئے‘ ایک ریفرنڈم برپا ہو۔ پاکستانیوں سے پوچھا جائے کہ کیا اس شرط کے ساتھ انہیں چین، امریکہ یا برطانیہ ایسی خوشحالی گوارا ہے کہ ایمان سے وہ دستبردار ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہو گا۔ 
قیاس آرائی کی ضرورت نہیں۔ دو عشرے ہونے کو آئے‘ ڈان پبلیکیشنز کے جریدے ''ہیرالڈ‘‘ نے ایک سروے شائع کیا تھا۔ ملک بھر کے پاکستانیوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے 98 فیصد نے کہا کہ وہ شرعی قوانین کے حامی ہیں۔ ایڈیٹر نے لکھا: اگر یہ سروے براہ راست انہوں نے خود نہ کیا ہوتا تو وہ کبھی اس پر اعتبار نہ کرتے۔ پچھلے بیس برس میں اربوں روپے غیر ملکی طاقتوں، بالخصوص امریکہ نے پاکستان میں رائے سازی پہ صرف کئے ہیں۔ ہزاروں این جی اوز پہ مشتمل‘ لاکھوں کارکنوں کا جال۔ بھارت اس کے سوا ہے، ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جو عشروں سے ثقافتی یلغار پہ تلا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، اس کی خفیہ ایجنسیاں، اس کے تھنک ٹینک حتیٰ کہ اس کی بعض کاروباری شخصیات اور فلمی صنعت بھی اس کارِ خیر میں شریک ہے۔ مزید برآں قاتل طالبان اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں نے ردّعمل کو جنم دیا ہے۔ اسلام کے حسین چہرے کو داغ دار کیا ہے۔ اس کے باوجود‘ آج بھی کوئی سروے کرے تو کم از کم 90 فیصد پاکستانی شرعی قوانین کے حق میں ہوں گے۔ جوں جوں دہشت گردی تحلیل ہوتی جائے گی، ریاست کی رٹ بحال ہوتی جائے گی، تعلیم پھیلتی جائے گی، شرعی قوانین کی حمایت بڑھتی چلی جائے گی۔ نام نہاد لبرل اور ترقی پسند اس پہ ہنسیں گے۔ اس سے پہلے مگر ایک لمحہ انہیں تامل کرنا چاہیے۔ سر اٹھا کر ایران سے پرے ترکیہ کی طرف دیکھنا چاہیے۔ پندرہ بیس برس پہلے‘ سکارف پہننے پر، کسی خاتون کی سرکاری ملازمت ختم ہو جاتی، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی ممبر شپ بھی۔ آج اس کا ہمہ مقتدر حکمران، عوامی اجتماع میں‘ ایک روایتی مسلمان کی طرح خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے۔ اور اس پر داد پاتا ہے۔ صرف ترکی نہیں عالم عرب، ایران، وسطی ایشیا، پاکستان اور مشرقِ بعید کی مسلمان ریاستوں میں بھی۔ اتاترک کا نام باقی ہے مگر ان کے نظریات دفن کئے جا چکے۔ ترکی کیا، سپین میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ مسلمان ہو چکے۔ یہ ان کی اولادیں ہیں، 526 برس پہلے جبراً جو عیسائی بنائے گئے تھے۔ ہر زمانہ غالب تہذیب سے متاثر ہوتا ہے۔ تنکوں کی طرح‘ آدمی ''ہوا‘‘ کے پیچھے چلتے ہیں۔ اسی کو فیشن کہا جاتا ہے۔ اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے والے کم ہوتے ہیں۔ یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا یہ کہ کائنات اور زندگی کے خالق کا وجود، انسان کے خمیر اور سرشت میں بہت گہرا ہے۔ 70 سالہ سفاک روسی سوشل ازم وسطی ایشیا کی ریاستوں میں اسلام کا خاتمہ نہ کر سکا۔ آخر کار ٹوٹ کے گر پڑا اور آخر کار بھلا دیا جائے گا۔ آدمی صرف جسم کا نام نہیں ہے وہ جانور نہیں۔ وہ صرف کھانے پینے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ یہ ایک روسی ناول سے اقتباس ہے ''یہ رگوں اور نسوں کے جال، یہ قوت گویائی، یہ احساس خودی۔ آدمی کو کیا اس لئے پیدا کیا تھا کہ مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو جائے اور کروڑوں برس تک سورج کے گرد چکر لگایا کرے۔ مٹی ہی میں ملا دینا تھا تو آدمی کو اس الوہی ذہن کے ساتھ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ 
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، ذکر حمید نظامی کا مقصود تھا، کہاں جا پہنچی۔ مجید نظامی مرحوم کا قول ان دنوں بار بار دہرایا جاتا ہے کہ کالم وہ ہوتا ہے جس کا کوئی عنوان نہ ہو۔ لیجیے اس کا کوئی عنوان نہیں۔ کیا یہ کالم ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved