پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے دورۂ روس کے دوران ایک ٹویٹ میں اظہار اطمینان کیا تھا کہ امریکی قرارداد کے حوالے سے پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کی واچ لسٹ میں ڈالنے کے لیے عالمی تنظیم کی جانب سے تین مہینے کی 'مہلت‘ مل گئی ہے۔ حکومتِ پاکستان سرتوڑ کوششیں کر رہی تھی کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی مرتب کردہ اس فہرست سے بچا جائے جس میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک شامل ہیں کیونکہ اس سے بحران زدہ سرمایہ دارانہ معیشت کو مزید نقصان کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ ٹاسک فورس کے رکن ممالک پچھلے ہفتے پیرس میں میٹنگ کر رہے تھے جس میں متوقع طور پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حمایت سے ایک امریکی قرارداد کے ذریعے پاکستان کو اُن ممالک کی ''گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا جانا تھا‘ جو دہشت گردی کی مالی معاونت کے قواعد پر عمل نہیں کر رہے۔ خواجہ آصف کے مطابق میٹنگ میں تین مہینے کے وقفے کی تجویز دی گئی اور ایشیا پیسیفک گروپ، جو ٹاسک فورس کا حصہ ہے، سے کہا گیا کہ وہ جون میں ایک اور رپورٹ تیار کرے۔ اس حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس واچ لسٹ کی گرے کیٹیگری میں شامل کر لیا گیا ہے؛ تاہم عملدرآمد جون سے ہو گا۔
پیرس اجلاس میں پاکستان کی رپورٹ پر کسی بحث سے پہلے ہی واشنگٹن نے اپنی تحریک جمع کر دی تھی؛ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق ''عالمی برادری کو اب بھی پاکستان کے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے نظام میں موجود خامیوں پر شکوک و شبہات ہیں اگرچہ اسلام آباد نے ان خامیوں کو دور کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔‘‘ دہشتگرد گروہوں کے ساتھ مبینہ روابط کی وجہ سے واشنگٹن نے سختی سے نمٹنے کی دھمکی دی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ارب ڈالر کی مالی امداد بھی روک دی ہے۔
اگرچہ اسلام آباد نے امریکی تعزیری اقدامات کی دھمکی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا‘ لیکن پاکستانی حکومت آخری وقت تک ٹاسک فورس کے فیصلے کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔ ان اقدامات سے بینکنگ سیکٹر شدید متاثر ہو گا اور ایک ایسے وقت میں جب الیکشن سر پر ہیں‘ لڑکھڑاتی معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر پاکستان کی 'ڈیپ اسٹیٹ‘ افغانستان اور دوسری جگہوں میں مبینہ طور پر خفیہ وارداتوں میں ملوث ہے تو امریکی بھی اتنے معصوم نہیں جیسا کہ مغربی ماہرین بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے سابقہ نوآبادیاتی مسلم ممالک میں برپا ہونیوالی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنیاد پرستی کو خوب پروان چڑھایا تھا۔ 1956ء کی سوئز جنگ میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر کی فتح کے بعد امریکی صدر آئزن ہاور کے وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈیلس نے ہی جدید بنیاد پرستی کی داغ بیل ڈالنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اسی وقت سے امریکی حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ تک مذہبی جنونیوں کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ لیکن زیادہ مال اور فنڈنگ کی لالچ میں یہ امریکی پروردہ دہشت گرد گروہ اور ان کی قیادتیں مسلسل وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں‘ اور اکثر اپنے امریکی آقائوں کے لیے ہی درد سر بن جاتے ہیں۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکی اپنی ہی تخلیق کردہ سویلین اور جمہوری کٹھ پتلیوں کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔ افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے ان کی حکمت عملی اکثر متضاد اور متذبذب رہی ہے۔ پچھلے سترہ سالوں کی جنگ میں واشنگٹن اور کابل کے درمیان اعتماد کا فقدان رہا۔ امریکیوں کا قیام جتنا لمبا ہوتا گیا‘ اتنا ہی افغانوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کے منتخب کردہ 'آزاد افغانستان‘ کے لیڈر حامد کرزئی نے امریکہ کو قابض طاقت کا خطاب دیا اور حل کی بجائے مسئلے کا حصہ قرار دیا۔ کرزئی کو یقین تھا کہ امریکی منافقانہ انداز میں ایک خاص وقت پر اسے ہٹانا اور اس کی جگہ کسی تابعدار آدمی کو لانا چاہتے تھے۔ امریکیوں کے خیال میں کرزئی متذبذب، غیر مستحکم اور خوف زدہ تھا۔ دسمبر 2001ء میں جب وہ افغانستان کا لیڈر بنا تو امریکہ نے کرزئی کو افغان منڈیلا کے طور پر خوش آمدید کہا تھا۔ تیرہ سال بعد جب اس نے کرسیٔ صدارت چھوڑی تو امریکیوں کے لیے وہ افغان موگابے بن چکا تھا۔ اشرف غنی کے آنے کے بعد بھی نہ تو اعتماد بڑھا اور نہ جنگی حالات میں کوئی بہتری آئی۔
سٹیفن کول نے اپنی تازہ تصنیف Directorate-S میں لکھا ہے ''واشنگٹن کے پاکستانی حکومت یا خاص طور پر پاکستانی فوج، جو مؤثر طور پر تمام تر داخلی اور خارجی امور کی مختار کل ہے، کے ساتھ تعلقات معطل ہیں۔ افغانستان میں امن لانا ہمیشہ سے ہی مسئلہ تھا۔ پاکستان کے مکمل تعاون کے بغیر یہ ناممکن تھا۔ امریکہ کو پاکستان سے دو چیزیں چاہیے تھیں۔ پہلی، افغانستان میں اتحادی افواج کے لیے رسد اور دوسری، القاعدہ اور طالبان کی باقیات کو پاکستانی پناہ گاہیں استعمال کرنے سے روکنا۔‘‘
واشنگٹن کے تناظر کے برعکس یہ توقعات غلط ثابت ہوئیں۔ ظاہری طور پر تعاون کا اظہار کیا گیا لیکن ساتھ ہی اتحادی افواج کی کاوشوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ وہ افغانستان کو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے لازمی خیال کرتے اور امریکیوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ معاہدے توڑنے کی ماضی کی روایات کی وجہ سے واشنگٹن کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ بظاہر سپر پاور ہونے کے باوجود امریکہ زیادہ دبائو بھی نہیں ڈال سکتا تھا۔ وہ پوچھ سکتا تھا لیکن مطالبہ نہیںکر سکتا تھا۔ سٹیفن کول نے لکھا، ''واشنگٹن کی آئی ایس آئی کی گتھی سلجھانے اور افغانستان میں اس کی کارروائیوں کو روکنے میں نااہلی امریکی جنگ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔‘‘
پچھلی سات دہائیوں کی متذبذب حمایت کے باوجود وہ نہ پاکستان کو اتحادی بنا سکا اور نہ اس کے رویے میں تبدیلی لا سکا۔ اگرچہ پاکستان نے پچھلی امریکی امداد کی کٹوتیوں کو جھیل لیا ہے‘ لیکن ہر جھگڑے نے ان کے آپسی اعتماد کو مزید کم کر دیا۔ دی ڈپلومیٹ کی رپورٹ کے مطابق، ''وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکہ نے نقصانات کو بادل نخواستہ قبول کیا اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کو لازم پایا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد یہ تعلقات افغانستان میں جاری جنگ کے ساتھ جڑ گئے۔ جنگ سے جڑے تعلقات کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ بالخصوص جب جنگ آپ کی مرضی سے نہ چل رہی ہو۔ یہ بات اس وقت اور بھی زیادہ درست ہو جاتی ہے‘ جب اس جنگ میں متضاد مفادات کی حامل دوسرے حصہ دار بھی ہوں۔‘‘ انڈیا کے ساتھ واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے یارانوں نے امریکہ پاکستان تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس سے پاکستان اپنے پرانے 'دوست‘ چین کی بانہوں میں مزید جا رہا ہے۔
امریکی رہنمائوں کی اپنی اتحادیوں سے دھوکہ دہی اور امریکی عوام سے سچ چھپانے کی ایک پوری تاریخ رہی ہے۔ سٹیفن سپیل برگ کی فلم 'دی پوسٹ‘ نے 1971ء کے پینٹاگان پیپرز کے انکشافات کو واضح کیا ہے کہ کس طرح وائٹ ہائوس جنگ کے بارے میں جھوٹ بولتا رہا ہے۔ یہ دستاویزات امریکی صدور بشمول ہیری ٹرومن، آئزن ہاور، کینیڈی، جانسن اور رچرڈ نکسن کے جرائم کو ننگا کرتی ہیں۔ اس کے بعد کے صدور بھی ایسے ہی تھے۔ سامراجی بالادستی کی اس اندھی دوڑ میں ان رہنمائوں نے کاروباریوں بالخصوص ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کی خاطر انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم کیے۔
پاکستان میں بھی اسی طرح کی پالیسیاں رہی ہیں۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ ریاستوں کی یہ سفارت کاریاں، سیاست، جنگیں اور پراکسی جنگیں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے ہوتی ہیں۔ اس کھیل میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس طبقاتی سماج میں نظام اور ریاست کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ مالیاتی اولیگارشی اور حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ بے تحاشا دولت اور ریاستی طاقت کے حامل طبقوں کے سامنے کروڑوں محکوم اور محنت کش طبقات کی کوئی اہمیت نہیں۔ 'قوموں‘ کی دوستی اور دشمنی دراصل حکمران طبقات کی دوستی اور دشمنی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ عوام اور محنت کش طبقات کی زندگیوں میں سکون اور خوشحالی اس وقت ہی آئے گی جب وہ حکمرانی کے اس نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے۔