تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-02-2018

پہلا رنگ ملاوٹ والا۔ آصف محمود کی نظمیں

80 صفحات پر مشتمل یہ پیپر بیک مجموعہ سانجھ نے چھاپا اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ کتاب پر کوئی دیباچہ یا سرورق کی تحریر نہیں ہے‘ حتی کہ انتساب بھی نہیں‘ میں نے یہ نظمیں دیکھی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بہت سی باتوں کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر کے پاس کہنے کو بھی کافی کچھ ہے اور اس کے اظہار کا بہت اچھا طریقہ بھی۔ ''سانجھ‘‘ جیسے معتبر ادارے کی وجہ سے بھی یہ کتاب لائق اعتناء ہے۔ تاہم انداز بیان اس قدر پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے جس کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ مشکل پسندی اور چیز ہے لیکن شاعری کوئی معمہ نہیں ہوتی جسے حل کرنے کے لیے قاری کے سامنے رکھ دیا جائے کہ وہ اسے حل کرنے کے لیے ٹکریں مارتا رہے۔
شاعری ابلاغ سے مشروط ہے‘ بیشک وہ کم سے کم حد تک ہی کیوں نہ ہو‘ کیونکہ نظم پڑھ کر قاری لطف اندوز نہیں ہوتا اور اس کے پلے ہی کچھ نہیں پڑتا تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ غالب جو اپنے گُرو بیدلؔ کے زیراثر مشکل پسند ہو گیا تو آخر میں اس نے بھی اپنے کلام کی بے جواز پیچیدگی کو محسوس کرتے ہوئے اسے خاصی حد تک عام فہم‘ یا ذرا کم پیچیدگی کا مظہر بنا دیا۔ اس لیے آصف محمود سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان نظموں کو دوبارہ لکھے تاکہ ان سے لطف اندوز بھی ہوا جا سکے۔
بظاہر یہ آزاد نظمیں ہیں لیکن ایک نظم موزوں مصرعوں سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ نثری ہوتی جاتی ہے اور اس طرح وہ موزوں رہتی ہے نہ نثری۔ اگر یہ نظمیں مکمل طور پر نثری بھی ہوتیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ ابہام یقیناً شعر کا حُسن ہوتا ہے لیکن ابہام جب ایک بھمبل بھُوسے کی صورت اختیار کر جائے تو افسوس بھی ہوتا ہے اور مایوسی بھی کیونکہ قاری الجبرا کا کوئی مشکل سوال حل کرنے کے لیے شاعری کی کتاب نہیں اُٹھاتا۔ اس کا یہ حق ہے کہ وہ شاعری سے لُطف بھی اُٹھا سکے۔
شاعر کے ذہن میں فکری پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں اور جو بجائے خود تخلیقیت کا ذائقہ بھی رکھتی ہوں تاہم قاری کو اس سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہوتا کہ اس کے نزدیک شاعری کا جواز‘ اور کم از کم جواز یہ ہے کہ وہ اس کی سمجھ میں بھی آئے۔ خود قاری بھی مشکل پسند ہو سکتا ہے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ آٹے میں نمک ہی کے برابر ہوں گے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے‘ آصف محمود کے پاس کہنے کو بھی بہت کچھ ہے اور کہنے کا طریقہ بھی لیکن اس میں تاثیر اور خُوبی اُس وقت پیدا ہو گی جب وہ قاری کو وہ لطف بھی مہیا کر سکے جس کی توقع پر وہ شاعری پڑھنے بیٹھتا ہے اور یہ سب کچھ یقینا آصف محمود کے اختیار میں بھی تھا‘ لیکن اس نے اسے درخوداعتنا نہیں سمجھا اور قارئین کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے۔ ظاہر ہے کہ نظم کو غزل کی طرح نہیں پڑھا جا سکتا لیکن آپ کچھ بھی پڑھ رہے ہوں‘ لکھنے والے کا فرض ہے کہ وہ اپنی بات آپ تک پہنچائے بھی‘ اس لیے بھی کہ شاعر اور قاری کے درمیان جو رشتہ پیدا ہو سکتا ہے وہ اسی صورت ممکن ہے کہ ایک دوسرے کی توقعات پر بھی پورا اُترا جائے۔ سو‘ یہ کتاب ایسی ہرگز نہیں کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے کیونکہ بالعموم جس طرح کے نغموں کے مجموعے مارکیٹ میں آ رہے ہیں یہ اُن سے کسی حد تک مختلف بھی ہے اور قابل توجہ بھی‘ جبکہ اسے مزید قابل توجہ بنایا جا سکتا ہے۔ 
اس مجموعے میں سے میں دو ہی نظمیں نکال سکا ہوں جو شاعر کی دست برد سے محفوظ رہ گئی ہیں‘ یعنی سمجھ میں آتی ہیں اور خاصی حد تک وزن میں بھی ہیں، پیش خدمت ہیں :
ملحدوں کا کمرہ
ایک بے نام سی وحشت کو سجاتے وہاں جاتا تھا
دوست گمنام طریقت کو اُٹھاتے وہاں جاتا تھا
ایک سے دو بجے روز تمحیصِ وجود ہستی
خام حیرت کے ستائے وہاں جاتا تھا
دوست کے پاس کتابیں تھیں
کتابوں کے حوالے تھے
سُنانے کو کہانی تھی کوئی اُلجھی اُلجھی
دوست کے پاس دکھانے کو کئی قبریں تھیں
مجاور تھے‘ کئی کتبے تھے
دوست کے پاس یقین تھا کوئی ٹوٹا پھوٹا
پر کہیں عشق کا زعم بھی تھا جسے وہ جھٹلاتے تھے
(عشق کا زعم معمہ ہے‘ خلا ہے
یہ کوئی اُمید تو ہو سکتا ہے‘ منزل کیسے؟)
وہ اُسے اس کی زباں بول کے بتلاتے تھے
حاشیے پڑھ کے سُناتے تھے اُسے
ورق پہ ورق کھرچتے تھے کہ تحریر اُبھرے
کوئی تکرار اُجاگر ہو‘ کوئی تقریر اُبھرے
مورپنکھ اتنے سوالوں کے بکھرتے تھے جو کمرے میں تھا بھاگ اُٹھتا تھا...
چار سے پانچ بجے اور کتابوں کے لیے
اور حوالوں کے لیے‘ اور کہانی کے لیے 
شاعر
وہی اک تصّور جاناں کہیں
وہی اک جزیرہ خیال کا
وہی پانیوں پہ ہر ایک سمت ہے برف سی
وہی بے بسی ہے نہاں کہیں
کوئی جسم ہو جو عیاں کرے
یہ جو تاب ہے مرے جسم میں
یہ لہو میں دوڑتی سرد سانپ سی روشنی
کبھی تیرگی کی نہایتوں میں بیاں کرے
ابھی اک سوال ہے چار سو یہ فریب خوردہ معاشرہ
میں سمجھ رہا ہوں حقیقتیں جنہیں تونے دل پہ ہے لے لیا
مجھے یہ بتا انہی گرم سانسوں کی تان میں
کہاں گامزن ہے یہ معاشقہ؟؟؟
آج کا مقطع
یہ خواب ہے تو یہ کہیں پہنچے بھی‘ اے ظفرؔ
یہ خون ہے تو اس کو بہا دینا چاہیے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved