نفس کیا ہے، انسان سے اس کی کیا دشمنی ہے اور ہمیشہ ہر بڑا استاد اس کے خطرے سے عام انسانوں کو کیوں متنبہ کرتا رہا ہے؟ اسے انسان کا اور خود اللہ کا سب سے بڑا دشمن کہا گیا۔ فیس بک پر کسی دوست کا ایک قول پڑھا تھا۔ کہا، نفس سے ڈرو، اس نے سب سے پہلے شیطان کو گمراہ کیا تھا۔ شیطان کس قدر نیک، کس قدر طاقتور تھا، انسان پر غلبے کی اپنی خواہش سے ہار گیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ شیطان اپنی خواہشات پر کروڑوں‘ اربوں سالوں کے لیے قائم ہو گیا۔ جب کہ حضرت آدمؑ نے اللہ کی توفیق سے توبہ کی۔ اپنی غلطی پر قائم رہنے، stand لینے کی غلطی نہیں کی۔ یہ نفس کیا ہے؟ یہ حیوانی خواہشات کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ ایسی خواہشات پالتا ہے، جنہیں پورا کرنے کی کوشش میں انسان ذلیل ہو جاتا ہے۔
اس نفس کو جب انسان دیکھتا ہے تو سر سے پائوں تک کانپ اٹھتا ہے۔ آپ کبھی ان لڑکوں کی بدن بولی دیکھیے گا، جو موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا کر یا سیٹ پر لیٹ کر اسے چلاتے ہیں۔ آپ کو یوں محسوس ہو گا، جیسے وہ نشے میں ہیں۔ پرانی فلموں کو اگر آپ دیکھیں، جن میں انتہا درجے کی بڑھکیں لگائی جاتیں، لاشوں کے انبار لگا دیئے جاتے۔ ہیرو یہ کہتا ''اوئے میں ساریاں نو مکا دیاں گا۔ میں پلس نو وی مکا دیاں گا‘‘۔ یہ فلم دیکھنے کے بعد جب نیم خواندہ لوگ سینما سے باہر نکلتے تو خواہ مخواہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوتے۔ ہر ایک اکڑ اکڑ کے چل رہا ہوتا۔ دیکھنے میں خواہ وہ بالکل کانگڑی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بولنے میں لاشعوری طور پر ہیرو یا ولن کے انداز میں بولنے لگتا۔ بڑھکیں لگانے لگتا۔ ایک لڑکا جب نئی نئی کرکٹ کھیلنی شروع کرتا ہے۔ اگر وہ بھاگ کر پہلی دفعہ تیز بال کرائے گا، خواہ وہ بالکل بیکار اور ٹھس کیوں نہ ہو، یہ نفس اس کے دماغ میں ایسا احساس پیدا کرے گاکہ تم تو شعیب اختر لگ رہے ہو۔ وہ شعیب اختر کے انداز میں اپنے بالوں کو جھٹکنے لگے گا۔
اس نفس کو جب یہ فقرہ سننے کو ملے کہ بھائی، آپ تو بہت تیز اور خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہیں، یہ خوشی سے پھول کر کپا ہو جائے گا۔ جب اسے یہ کہا جائے کہ آج تو آپ نے اختر صاحب کی بولتی بند کر دی۔ کیا خوب گفتگو کی آپ نے۔ بس یہ ساری زندگی اختر صاحب کو دبانے کی کوشش میں لگا رہے گا، خواہ اس کوشش میں اپنی ہی بے عزتی کراتا رہے۔
ایسا ہے یہ خوفناک درندہ۔ محفل میں بس ایک دفعہ لوگ آپ کی بات پر ہنس پڑیں۔ اس کے بعد یہ انسان کو نارمل نہیں رہنے دیتا۔ یہ ہمارے دماغوں کے اندر ہے۔ یہ دماغ میں خارج ہونے والے کیمیکلز کے اندر ہے۔ یہ دماغ کے خلیات کے آپس میں جڑے ہوئے کنکشنز میں چھپا ہوا ہے۔ یہ اقتدار کی جنگ میں دو سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ٹکڑے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ دن رات ایک دوسرے پر آتش و آہن کی بارش کرنے والے سیاستدان کیا نارمل ہیں؟ جی نہیں، وہ نفس کے غلبے اور انتقام کے جذبات کے درمیان جنونی ہو چکے۔ ایسے ہی تو نہیں بڑے بڑے بلنڈرز ہوتے۔ آپ ڈان لیکس پر غور کر لیں۔ یہ نفس دو شاعروں کو ایک دوسرے کی تذلیل پہ مجبور کرتا ہے۔ ایسا ہے یہ دشمن۔ یہ ہمارے دماغ کو کنٹرول کر رہا ہے۔ کیسے بچیں اس سے؟
نفس کی ایک انتہائی عجیب اور غلیظ عادت یہ ہے کہ یہ دوسروں کی خامیوں سے، دوسروں کی کمیوں سے بہت محظوظ ہوتا ہے۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ بلال صاحب تو تیز ڈرائیونگ سے ڈرتے ہیں۔ بس پھر کیا ہے۔ یہ جان بوجھ کر انہیں ڈرانے کی کوشش کرے گا۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ حبیب صاحب کو تو مجمع سے، لوگوں کے زیادہ رش سے ڈر لگتا ہے، بس پھر یہ جان بوجھ کر اسے ہجوم میں لے جانے کی کوشش کرے گا۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ فلاں صاحب کو اپنے زیادہ لمبے یا زیادہ چھوٹے قد کا احساسِ کمتری ہے‘ بس خوشی سے اس کی باچھیں کھل جائیں گی۔ بھائی، تجھے کیا ہے دوسروں کی خامیوں سے۔ تو اپنا حال تو دیکھ!
کس قدر کمینہ، کس قدر خبیث ہے یہ درندہ۔ اچانک ہونے والی ایک لڑائی میں اگر آپ کو شریک ہونا پڑے۔ اگر اس لڑائی کے اختتام تک آپ کی اپنی حالت خراب ہو اور آپ دل ہی دل میں آئندہ لڑائی سے توبہ کر رہے ہوں‘ لیکن اگلے دن لوگ آپ کو یہ کہہ دیں کہ بھائی، بہت زبردست لڑے آپ تو۔ بس پھر کیا ہے ۔ یہ کن ٹٹا بدمعاش بن جائے گا۔ یہ آستینیں چڑھا کر پھرے گا۔ یہ گریبان کے بٹن کھول کے پھرے گا۔ اسے ایک نشہ، ایک انتہائی لذت محسوس ہو گی، جب یہ نگاہوں کو اپنی طرف اٹھتا ہوا دیکھے گا۔ اگر یہ نگاہیں جنسِ مخالف کی ہوں تو بس پھر تو یہ نشے میں ٹن ہو جائے گا۔
نفس کی عادت یہ ہے کہ یہ دوسروں کی خامیوں سے بہت محظوظ ہوتا ہے۔ اس کی لاٹری نکل آتی ہے۔ انسان طاقت کے نشے میں سرمست جگہ جگہ لڑائی جھگڑوں میں ٹانگ اڑاتا پھرے گا؛ حتیٰ کہ ایک دن اپنے سے کسی زیادہ پاگل انسان سے اس کا واسطہ پڑے گا۔ بس پھر دونوں ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ عبرت کا نشان بن جائیں گے۔
وہ انسان، جو نوکری ڈھونڈنے کی خواہش میں مسکین بنا پھرتا ہے۔ پردیس میں برتن دھوتا پھرتا ہے، ذرا کسی لڑائی میں دوسرے کو دو تھپڑ زیادہ رسید کر دے اور ذرا اس کی ''بہادری‘‘ کی تعریف ہو جائے، بس اس کے بعد اسے پاگل سمجھیے۔ کل تک جسے نوکری نہیں مل رہی تھی، آج اپنے تئیں وہ بادشاہ بنا بیٹھا ہو گا۔ وہ صحن میں چارپائی ڈال کر بیٹھ جائے گا۔ آتے جاتے لوگوں سے اونچی اونچی آواز میں باتیں کرے گا۔
اور ذرا کبھی اسے کسی دوسرے انسان پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ خواہ جسمانی طور پر یا ذہنی طور پر، بس پھر تو اسے اس قدر لطف محسوس ہو گا کہ پوچھیے مت۔ جب انسان اونچی آواز میں موسیقی لگا کر تیز ڈرائیونگ کرتاہے اور جب وہ ایک دم زور سے بریکس لگا کر ٹائروں سے آوازیں نکلواتا ہے تو انسان لطف و سرور کی ان وادیوں تک پہنچ جاتا ہے، جہاں موت کا خوف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگ ان حادثات میں اموات کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی انسان کیسے اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو بھول کر‘ حتیٰ کہ اپنی جان کی محبت بھی بھول جاتا ہے۔
جب نفس کو یہ محسوس ہو کہ لوگ اسے متاثر ہونے والی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے، پاگل پن کا ایک دورہ اسے پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے تو اکثر بڑے لوگ نارمل نہیں رہتے۔ ان میں جنون صاف نظر آتا ہے۔ نفس ہماری نیکی کو بھی نیکی نہیں رہنے دیتا۔ دوسرے انسانوں کی نظر میں نیک بننے کی خواہش اس پہ غالب آ جاتی ہے، بجائے خدا کے لیے نیک ہونے کے۔ اس کے ماتھے کا محراب، اس کی وجۂ غرور بن جاتا ہے۔ خوبصورت لحن میں قرآن کی تلاوت وجۂ غرور بن جاتی ہے۔ بندہ جائے تو جائے کہاں؟ (جاری )