تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-02-2018

درندے

امریکہ میں مقیم یہ ایک سبکدوش پاکستانی شہری کا خط ہے۔ ترتیب اور سہولت کے لیے‘ کچھ الفاظ بدل ڈالے ہیں‘ مفہوم بالکل وہی ہے۔ 
''ایک سرکاری افسر کی گرفتاری نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نیو جرسی میں مقیم ایک دوست نے احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد اس ناچیز سے ملاقات کی۔ ہم دونوں دوپہر کے کھانے پر ملے۔ احد چیمہ کا خاندان لاہور میں ان صاحب کا کرایہ دار تھا۔ بعد ازاں‘ پڑوس ہی میں سات مرلے کے ایک گھر میں مقیم‘ ان کے ہمسائے۔ اس نے کہا: وہ دن اور اس بچے کا چہرہ خوب اچھی طرح سے مجھے یاد ہیں‘ نیکر پہنے جو ہمجولیوں کے ساتھ کھیلا کرتا۔ ان صاحب نے بتایا کہ پھر کم سن احد کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ذمہ داری بیوہ ماں پہ آن پڑی۔ دیر تک وہ اس خاتون کی مدح کرتا رہا۔ نہایت مشکل حالات میں جس نے تین بچوں کی پرورش کی ''میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کیسی پارسا اور جنتی خاتون تھی‘‘ انہیں کبھی گھر سے باہر نہ دیکھا گیا۔ اس بچے پر اپنی ماں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ ان کا نہیں‘ اپنے کردار میں‘ وہ کسی اور کا نقش نظر آتا ہے۔ شاید بعد کے واقعات نے اس کے کردار کو ایک بالکل ہی مختلف سانچے میں ڈھال دیا‘‘۔
میں نے اس سے یہ کہا: قدرت کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔ بعض اوقات ہم سمجھ نہیں سکتے۔ کردار کی تمام تر تشکیل گھر میں نہیں ہوتی۔ ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر ایک کو قدرت ڈھیل دیتی ہے۔ ہر ایک کو امتحان اور آزمائش میں ڈالتی ہے۔
پاکستان میں‘ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اتنا اور ایسا سنگین اس لیے لگا کہ ان افسروں نے اب ایک مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جمعہ کے دن‘ پنجاب حکومت کے اعلیٰ ترین افسروں‘ صوبائی سیکرٹریوں اور کمشنروں کا ایک اجلاس ہوا۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب پولیس ڈی جی نیب پنجاب اور نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کو گرفتار کرے۔ کمال ہے۔ 
میں نے تین برس نیب پنجاب میں نوکری کی ہے۔ سرکاری افسروں کو میں نے دیکھا کہ نیب کے دفتر میں داخل ہوتے‘ ان کی پتلونیں ڈھیلی ہو جاتیں۔ نیب پنجاب کے پہلے ڈی جی‘ جنرل صابر نے پنجاب کی افسر شاہی کے ساتھ نرمی برتی۔ بہت بڑا ظلم کیا۔ جنرل وہ ضرور تھے مگر کمزور اعصاب کے آدمی۔ میں ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ متعلقہ سرکاری افسر نے تب ملتان کے ڈپٹی کمشنر کی گرفتاری کے احکامات‘ منظوری کے لیے بھیجے۔ جنرل صابر نے فرمایا: مقدمہ تو جاری رکھیں‘ فی الحال مگر گرفتار نہ کریں۔ ملتان کے کور کمانڈر سمیت کئی جنرل ان کے سفارشی ہیں۔ دس سال کے بعد وہی رائو شکیل حج سکینڈل میں گرفتار ہوا۔ کروڑوں کا نقصان اس نے پہنچایا تھا۔ مدتوں جیل میں رہا۔ کچھ عرصہ قبل رہا کر دیا گیا اور اب وہ دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ ہے وہ عدالتی اور احتسابی نظام‘ بدعنوان افسروں پر جسے نگاہ رکھنا ہوتی ہے۔ 
اس پانچ رکنی بنچ کو سلام جس نے سچے اور کھرے احتساب کا آغاز کیا ہے۔ ملک کے سب سے طاقتور آدمی‘ نواز شریف کو معزول کیا۔ رفتہ رفتہ باقیوں کی ہمت بندھی اور حالات بدلتے دکھائی دینے لگے۔ 
جسٹس جاوید اقبال نے کمال کر ڈالا ہے۔ مردہ نیب کو زندہ کر دیا۔ 80 سالہ ریٹائرڈ جج‘ باوردی جنرل پہ بازی لے گیا۔ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ حالات اپنی جگہ‘ وہ کردار کی قوت سے پھوٹتی ہے۔ لگ بھگ بیس برس میں افسر شاہی کا حصہ رہا ہوں۔ اس کے اندر موجود مافیا کا ایک دشمن۔ میں نے ان سب کا مقابلہ کیا۔ پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی ایک ادارے نے ملک کو تباہی کے اس موڑ پر لا کھڑا کیا تو وہ یہی افسر شاہی ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کا مستقبل انہوں نے دائو پر لگائے رکھا‘ حتیٰ کہ اس کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ میک لودھی‘ اشرف میلکم‘ انصار عباسی‘ انور سامرا‘ اسد کھرل‘ میاں غفار‘ میاں افضل اور رحمت علی رازی اس جدوجہد کے گواہ ہیں۔ ایک تنہا آدمی‘ ایک سفاک نظام سے نبرد آزما تھا۔ شکست کے سوا اس کا انجام کیا ہوتا۔ 
آئین کے تحت یہ افسر شاہی ہے جسے ملک کا نظام چلانا ہوتا ہے۔ اسی لیے صوبائی یا مرکزی سیکرٹری کو‘ Secretary to Government of Pakistan کہا اور لکھا جاتا ہے۔ بظاہر ملک چلانے کی بنیادی ذمہ داری سیاست دانوں پہ عائد ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ سرکاری افسر ہیں جو اس نظام کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ میرے محترم دوست‘ وزارت داخلہ کے وفاقی سیکرٹری‘ نیب کی سفارش پر‘ میاں محمد نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے مجاز تھے۔ ایسا کرنے سے انہوں نے گریز کیا اس لیے کہ غلیظ نظام سے ثمربار ہیں۔ 
ممکن ہے مجھ سے اتفاق نہ کیا جائے۔ میرا دو ٹوک موقف یہ ہے کہ ایک وزیر‘ ایم این اے یا ایم پی اے کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں کچھ اختیارات ناظم کو ضرور دے دیئے گئے تھے۔ 
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ رٹّا لگا کر‘ ایک امتحان پاس کرنے والے کو‘ اچانک بے پناہ اختیارات سونپ دیئے جاتے ہیں۔ اسی لیے آدمی کو وہ آدمی نہیں سمجھتا۔ ڈاکٹر کو ٹھوکر مارو‘ استاد کی تذلیل کرو‘ پیسہ بنائو اور سہولت کی زندگی بسر کرو۔ 
ہمیشہ میں یہ کہتا رہا اور آج دہراتا ہوں کہ پنجاب کا کوئی سیکرٹری‘ صوبے میں خواندگی کی شرح یا سکولوں کی تعداد بتا دے‘ تو آپ میرا نام بدل دیں۔ آج کل یونیسکو کا تجربہ رکھنے والے ایک پی ایچ ڈی سکولوں کے سیکرٹری ہیں۔ دوسروں کا ذکر ہی کیا موصوف اپنے ساتھ افسروں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں‘ یہاں امریکہ میں‘ ایک پاکستانی نے‘ ایک بالکل جائز معاملے میں مجھ ناچیز سے مدد مانگی۔ انہوں نے مجھے اس کا WhatsApp نمبر بھی دیا۔ مجال ہے میرے ایک پیغام کا بھی موصوف نے جواب دیا ہو۔ اللہ کے بندے‘ خدا بنے ہیں۔ پنجاب کے سکولوں کی حالتِ زار دیکھئے۔ اذیت ناک حالات کا حل‘ ان کے پاس یہ ہے کہ سکول نجی شعبے کو دے دیئے جائیں‘ یہ سارے سکول۔ پھر اس حکومت کی ضرورت کیا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق اس کا کیا اچار ڈالنا ہے؟
ینگ ڈاکٹروں کا میں پُرجوش حامی ہوں۔ کیسے دن رات محنت کرکے وہ بے چارے ڈاکٹر بنتے ہیں۔ پھر برسوں تک چوبیس چوبیس گھنٹے ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ اس پہ بھی افسر شاہی ان پہ ڈنڈے برسائے؟ چیف جسٹس نے ٹھیک کہا: سپریم کورٹ کا ایک ڈرائیور‘ ایک ینگ ڈاکٹر سے زیادہ تنخواہ لیتا ہے۔ اپاہج غلام محمد اور فتح خاں بندیال سے لے کر فواد حسین فواد تک‘ دن دہاڑے بابوئوں نے خزانے کو لُوٹا ہے۔ کوئی ان کا ہاتھ نہ پکڑ سکا۔ مجرمانہ خیانت نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ کروڑوں پاکستانی درندوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔ انہی کالے کرتوتوں کی وجہ سے ننگ‘ بھوک‘ افلاس اور ذلت کی زندگیاں جی رہے ہیں۔ 
میں اگر پاکستان میں ہوتا تو سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کرتا۔ قانون کی صریح خلاف ورزی کرنے کی جرات انہیں کس نے دی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؟ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ رفتہ رفتہ چیزیں اس نہج پر آ گئیں۔ ایک جرمن چیف ایگزیکٹو پی آئی اے کا جہاز بغل میں داب کر لے گیا۔ ملک کی معیشت ان لوگوں نے تباہ کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف میٹرو راولپنڈی کی تعمیر میں ایک افسر نے پانچ ارب روپے ہتھیا لیے۔ احد چیمہ کی گرفتاری پر یہی آدمی سیخ پا ہے۔ وہی افسروں کی ٹریڈ یونین تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ جی نہیں بالکل نہیں اب وہ اللہ کی گرفت میں ہے۔ پاکستان باقی رہے گا اور ان شاء اللہ پھلے پھولے گا۔ اس کا خون پینے والا ہر شخص انجام کو پہنچے گا‘ زمین بوس ہو گا۔ مستقبل میں جرم ثابت ہونے پر‘ ان میں سے بعض کو شاید پھانسیوں پر لٹکایا جائے۔ سیاست دانوں کی اکثریت نے تو صرف ان کا بچا ہوا کھایا ہے۔ ان درندوں سے اللہ تعالیٰ پاکستان کو نجات دے۔
نذر محمد چوہان
نیوجرسی/ امریکہ
23 فروری 2018ء
پس تحریر: یہ ایک ناراض افسر کا خط ہے۔ تبصرے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved