تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-02-2018

پاکستان نے کیا قصور کیا ہے؟

اس ویک اینڈ پر دوبئی آیا ہوا ہوں۔
یہاں پاکستانی صحافیوں کا ایک میلہ سا لگا ہوا ہے۔ سب پہنچے ہوئے ہیں۔ عامر متین‘ محمد مالک‘ کاشف عباسی‘ حامد میر‘ اویس توحید‘ ارشاد بھٹی‘ سلیم صافی‘ ہما علی‘ رانا جواد‘ ارشد شریف۔ سب پاکستان کے سیاسی ہنگاموں سے دور ایک آدھ دن کے لیے پاکستان سپر لیگ دیکھنے آئے ہیں۔ ایک سال بعد یہاں کا چکر لگا ہے۔ شاید اب بھی نہ آتا لیکن میرے اور عامر متین کے چھوٹے بھائی عاطف رانا کی محبت اور اصرار ہر دفعہ ہمیں کھینچ کر لے آتا ہے۔ 
عامر متین اور میرا مزاج ملتا ہے۔ ہم دونوں سیر سپاٹے کے شوقین نہیں۔ جب سے ٹی وی شوز شروع کیے ہیں پاکستان سے نکلنا بہت کم ہو گیا ہے۔ کبھی کبھار ان پرانے دنوں کو یاد کرتا ہوں‘ جب ایک انگریزی اخبار میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ گرمیوں میں جہاں دل کرتا چلے جاتے۔ ایک ایک ماہ لندن میں صفدر عباس بھائی اور باجی کے گھر گزارتے۔ وہیں سے دل چاہا تو خبر دے دی ورنہ کوئی نہ پوچھتا کہ بھیّا کدھر ہو؟ وہ سب عیاشیاں ٹی وی پروگرام کے ساتھ ہی ختم ہو گئیں اور اب حسرت سے آہیں بھرتے ہیں کہ کہیں نہیں جا سکتے۔ اسی لیے جب محمد مالک نے کہا کہ میں نے دوبئی سے بھی اپنا ایک پروگرام کرنا ہے تو مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مولوی صاحب لندن پہنچے اور پاکستانیوں کے گھروں پر جا کر دستک دی کہ میں نے یہاں مسجد کھول لی ہے‘ آپ خود آئیں اور بچوں کو بھی بھیجیں تو ایک دل جلے نے کہا: مولوی صاحب! ہم آپ کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر لندن آ بسے تھے‘ آپ یہاں بھی پہنچ گئے۔ وہی میں نے محمد مالک سے کہا کہ ان ٹی وی شوز سے جان چھڑانے دوبئی آئے تھے اور آپ یہاں بھی اپنا سامان اور سودا لے کر پہنچ گئے ہیں۔ مالک نے شو کے دوران سوال کیا کہ یہ سب کچھ دوبئی میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جو ہر پاکستانی ضرور سوچتا ہے۔ جنہیں ہم بدو سمجھتے تھے‘ وہ اتنے سمجھدار نکلے کہ ہمارے لوگوں کے پیسوں اور مین پاور سے دوبئی کو دنیا کا جدید شہر بنا دیا۔ صرف پاکستان سے دس ارب ڈالرز سے زیادہ پیسہ یہاں لایا گیا۔ 
ایک دفعہ سینیٹر انور بیگ نے پریشان ہوکر مجھے کہا کہ یورپی سفیر پاکستان میں جاری لوٹ مار اور بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی وجہ سے سخت پریشان ہیں‘ خصوصی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں مارے جانے والے پاکستانیوں کی وجہ سے۔ میں نے کہا: بیگ صاحب یورپین کو بتائیں کہ یورپ میں ہمارے لیڈرز اور بیوروکریٹس لوٹ کا پیسہ لے جا رہے ہیں۔ اگر یورپ والوں کو پاکستانی لیڈروں کی پاکستان سے لوٹی دولت‘ جس کی وجہ سے یہاں غربت بڑھ رہی ہے‘ سے پیار ہے تو پھر ان غریبوں کو بھی برداشت کریں جو پاکستانی ایلیٹ کی وجہ سے جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ جا رہے ہیں۔ 
دوبئی جیسا صاف ستھرا ماحول تو شاید یورپ میں بھی نہ ملے۔ ان بدوئوں نے صحرا کو جنت بنا دیا اور ایک ہم ہیں کہ جنت کو صحرا بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے گندے شہروں کو دیکھو، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھو، ہر طرف افراتفری دیکھو، لوٹ مار دیکھو۔ کیسا مذاق ہے؟ کیا ہم پاکستان میں صرف اس کام کے لیے رہ گئے ہیں کہ ہمیں ایلیٹ کلاس لوٹے اور پھر دس ارب ڈالرز اکٹھے کرکے منی لانڈرنگ کے ذریعے دوبئی لائے اور یہاں اپنی ایک نئی ایمپائر کھڑی کر لے؟ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس پیسہ بھی ہے (نہ ہوتا تو دس ارب ڈالرز کی جائیدادیں دوبئی میں پاکستانی کی ایلیٹ‘ سیاستدان‘ بیوروکریٹس کہاں سے خرید لیتے) تو پھر ہم پاکستان کو ایسا کیوں نہ بنا سکے؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ خود پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو دوبئی جیسا بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ تو کیا ہمیں جان بوجھ کر ایک کالونی کی طرح رکھا جا رہا ہے‘ جہاں صدیوں سے یونان‘ عرب، سینٹرل ایشیا‘ ایران یا افغانستان سے حملہ آور آتے اور لوٹ لے جاتے ہیں یا پھر مغلوں کی طرح یہیں رہ کر حکمرانی کرتے ہیں۔ بابر کو اس کے دشمنوں نے آبائی علاقے سے مار بھگایا تھا اور اس نے ہندوستان کو فتح کرکے اسی کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ ویسے ہمیں بابر پر زیادہ غصے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس ابراہیم لودھی کو اس نے پانی پت میں شکست دے کر دلی کی راج دھانی پر قبضہ کیا‘ وہ بھی باہر سے ہی آیا تھا۔ عامر متین‘ جن کی تاریخ پر بہت گہری نظر ہے‘ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس خطے میں ہر کوئی حملہ آور ہی ہوا ہے۔ کبھی نہ کبھی تاریخ کے کسی موڑ پر کوئی ہجرت کرکے اجنبی علاقوں میں جا بسا۔ یہ کام پوری دنیا میں ہوا ہے۔ اس لیے کوئی کسی کو طعنہ نہیں دے سکتا۔
بات کہیں اور نکل گئی‘ ورنہ سوال وہی پرانا ہے کہ کیا ہمارے آج کے پاکستانی آقا یہ سمجھتے ہیں کہ اچھی زندگی اور انجوائے کرنے کا حق صرف انہیں اور ان کے بچوں کا ہے‘ لہٰذا پاکستان سے دور انہوں نے اپنی جنت دوبئی اور لندن میں تلاش کر لی ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ ہمارا پیسہ یہاں کیسے پہنچا تو جواب ملتا ہے: تمہیں کیا!! ویسے پاکستان بھی بڑے مزے کا ملک ہے‘ جہاں لوٹنے والے سے زیادہ لٹنے والے خوش ہیں۔ جب لٹیرے زیادہ لوٹ لیتے ہیں تو پھر خیال آتا ہے کہ اب اس پیسے کو پاکستان واپس لا کر حلال کیا جائے اور ایمنسٹی سکیم لائی جاتی ہے کہ جتنا تم نے پاکستان سے لوٹا وہ سب تمہارا ہوا۔ کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا۔ بس ڈیڑھ فیصد ریاست کو دے دیں۔ کیسا کھیل ہے جو ہمارے ساتھ یہ سب مل کر کھیل رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان کو دوبئی‘ لندن بنانے کے نعرے لگانے ہیں۔ پیرس کی خوبصورتی کو پاکستانیوں کو خواب دکھانے کے لیے استعمال کرنا ہے‘ پاکستان کو پیرس بنانا نہیں۔ کراچی اور لاہور کو گندا کرنے کے بعد اب اسلام آباد کو برباد کرنا ہے۔ اسلام آباد کی ہر سٹریٹ میں ایک چشمہ بہتا ہے اور گندگی سے بھرا ہوا‘ جبکہ یہاں دوبئی میں انہوں نے مصنوعی جھیلیں بنا لی ہیں۔ ہمارے ہاں صحرائی لوگوں کے کئی لطیفے مشہور تھے۔ دوبئی کو دیکھ کر لگتا ہے اصل لطیفے تو ہم خود ہیں۔
سوچتا ہوں پاکستان نے ایسا کیا قصور کر دیا ہے کہ ہم سب اس پر ظلم کر رہے ہیں۔ اب پیرس میں دنیا کے 35 ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی امداد کی جاتی ہے‘ لہٰذا اسے واچ لسٹ پر رکھا جائے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان نہیں آتی۔ گورے کالے ہمارے ملک نہیں آتے۔ بیروزگار بڑھ رہے ہیں۔ ہم پوری دنیا سے متھا لگائے بیٹھے ہیں۔ چند لوگوں کو ہم پال رہے ہیں جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی دنیا سے دشمنیاں پال رہے ہیں۔ داد تو دیں کہ ہم نے کیا چوائس کیا ہے۔ ہم چند لوگوں کے لیے اس ملک کو برباد کرنے پر تل گئے ہیں۔ وہی جون ایلیا والی بات: خود کو برباد کر لیا اور ملال بھی نہیں۔
سوچتا ہوں پاکستان کی دھرتی ماں سے اتنا بڑا کیا گناہ ہو گیا کہ ایک کلاس ہے جو اس کی دولت لوٹ کر دوبئی‘ لندن‘ نیویارک‘ یورپ لے جا رہی ہے جبکہ دوسری کلاس ملک کو دہشت گردوں کا ساتھی اور سہولت کار کا لقب دلوانے کے قریب ہے۔ پاکستان نے آخر اتنا بڑا کیا قصور کر دیا کہ ہم خود ہی اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ کیا کوئی اپنی ماں کے ساتھ ایسے کرتا ہے جیسے ہم اس کے بدبخت بچے کر رہے ہیں؟
احد چیمہ کے ایشو کو ہی دیکھ لیں۔ سب بیوروکریٹس اکٹھے ہو گئے ہیں کہ ہماری کلاس پر ہاتھ کیوں ڈالا۔ ہمارا احتساب کیوں؟ چیمہ سے کوئی نہیں پوچھ رہا‘ تم نے اتنا مال کیسے بنا لیا۔ تم نے سول سروس کو کیوں بدنام کیا؟ سب کو خطرہ ہے کہ اگر چیمہ کو نہ بچایا تو پھر کل کو ان کی باری ہو گی۔ سیاستدان ہوں، بیوروکریٹس ہوں‘ صحافی ہوں، سرکاری ملازم ہوں، ریٹائرڈ فوجی یا دفاعی ماہرین ہوں‘ ہم سب نے جتھے بنا لیے ہیں۔ ہم پر ہاتھ ڈالو‘ ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ انصاف‘ جیلیں‘ سزائیں صرف عام پاکستانیوں کے لیے رہ گئی ہیں۔ ویسے پاکستانی عوام بھی خوش ہے اور اسے اپنے لٹیروں اور قاتلوں سے پیار ہے۔ یہ بھی اسٹاک ہوم سینڈورم کی ایک شکل ہے جہاں مغوی کو اپنے اغواکاروں اور مقتول کو اپنے قاتل سے پیار ہو جاتا ہے۔
پھر وہی سوچ کہ پاکستان نے کیا قصور کر دیا ہے کہ سب اسے نوچ رہے ہیں۔ جس دھرتی ماں کی گود نے ہمیں پناہ دی۔ چھائوں دی۔ ہمیں شناخت دی۔ ہمارا بھرم رکھا۔ ہمیں پال پوس کر بڑا کیا وہی گود ہم اجاڑ کر دوبئی‘ لندن‘ نیویارک اور یورپ کی شامیں رنگین کر رہے ہیں!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved