یادش بخیر‘ ایک معاصر روزنامہ میں اپنے ہمدم دیرینہ سرور سکھیرا کا کالم دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ کچھ عرصہ پہلے جب ان کا کالم آپ کے اخبار میں چھپنا شروع ہوا تو میں نے اسے خوش آمدید کے طور پر کالم بھی لکھا تھا‘ لیکن بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر وہ یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ وہ کبھی کبھار میرے پاس تشریف بھی لاتے ہیں اور میں انہیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ کی تحریر میں ایک تنوع ہے اور ماضی کی بہت نادر معلومات سے بھی آپ کی یادداشت بھری پڑی ہے‘ اس لیے لوگوں کو اپنی تحریر سے محروم نہ کریں۔
سو‘ آج ان کا کالم نظر آ ہی گیا۔ کوئی پون کالم پڑھ گیا تو نیچے 'بقیہ فلاں صفحہ‘ لکھا تھا، وہاں پہنچے تو بقیہ کے طور پر ہمارے ایک اور دوست مستنصر جاوید کی تحریر لگی ہوئی تھی اور تواتر میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ سو‘ یہ جان کر اور بھی خوشی ہوئی کہ ایک ہی کالم میں دو دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ کسی زمانے میں ٹی ہائوس میں یہ لطیفہ مشہور تھا کہ ناصر کاظمی اور شہزاد احمد دونوں بہت اچھے شاعر ہیں اور اپنی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن جب دونوں مل کر لکھتے ہیں تو بہت گڑبڑ ہو جاتی ہے‘ اشارہ ناصر شہزاد کی طرف تھا۔
لیکن اس مشترکہ کالم کو پڑھ کر کوئی بدمزگی نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک طرح کا دوآتشہ تھا اور کالم نویس دوستوں کے درمیان ایسا تعلق ہونا بھی چاہیے‘ یعنی کالم لکھتے لکھتے اگر ایک تھک جائے یا اسے کوئی اور کام یاد آ جائے اور وہ اس میں مصروف ہو جائے تو دوسرے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ یار ذرا اسے مکمل کر دو‘ اللہ اللہ خیر صلاّ۔ لیکن اب ایسے دوستانے اور بھائی چارے کہاں رہ گئے ہیں؛ تاہم اسی طرح ایک ورائٹی بھی دستیاب ہو سکتی ہے۔ میرا اٹینڈنٹ کاشف عباس عرف کاشی اگرچہ کالم پڑھتا تو نہیں ہے کیونکہ دیگر مشاغل سے اسے فرصت ہی کہاں ملتی ہے‘ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ میں بھی اس کا تعاون حاصل کر لیا کروں کہ میری یہ کسی حد تک ضرورت بھی ہے کہ ہر روز کالم لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ اور اس سے مجھے تھوڑی فراغت بھی حاصل ہو جایا کرے گی۔ میں نے اس سے بات کی ہے اور اُس نے ہامی بھر بھی لی ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے‘ بلکہ اگر
مجھے یہ سہولت حاصل ہو جائے تو میں ہفتے میں ایک آدھ دن آرام بھی کر سکتا ہوں۔ اگرچہ اس نے یہ کہہ کر میرا مزہ کرکرا کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہو سکتا ہے وہ سارا کالم سرور سکھیرا ہی کا ہو اور بقیہ پر غلطی سے مستنصر جاوید کا نام لکھ دیا گیا ہو۔ لیکن میں نے ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے کیونکہ ایک اخبار ایسی غلطی کیونکر کر سکتا ہے‘ ورنہ مستنصر جاوید کی بجائے مستنصر حسین تارڑ کا نام بھی لکھا جا سکتا ہے‘ اگرچہ وہ بھی ہمارے لیے خوشی ہی کا باعث ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ ایسا کہہ کر وہ مجھے ٹرخا رہا ہے اور خود کالم لکھنے کی فٹیگ سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ کام چور تو وہ ہے ہی‘ لیکن میں اُسے حُکماً بھی کہہ سکتا ہوں‘ نوکر کیا اور نخرہ کیا۔ بہرحال آئندہ سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیا کریں گے کہ میرے کالم میں کاشف عباس صاحب کا زورِ بیان بھی شامل ہے‘ وما توفیقی الا باللہ۔
ہماری فرمائش پر محمد اظہار الحق صاحب نے اپنا تازہ کلام ارسال کیا ہے جو اُن کی طرز و روش سے کافی ہٹ کر ہے‘ لیکن ایک جینوئن شاعر اگر کوئی نئی طرز بھی نکالتا ہے تو اس میں بھی اپنا آپ دکھا دیتا ہے۔ فی الحال اُن کی غزل کے تازہ تیور دیکھیے :
یہ نخل جس پہ آج ہیں لمحے لگے ہوئے
اس پر تھے سال اور مہینے لگے ہوئے
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا‘ دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اُس پہ آلوچے لگے ہوئے
کیا کیا تھے دن کو اسپ سواری کے ذائقے
قاف اور پری کے رات کو قصّے لگے ہوئے
مستور سُرخ رنگ ردائوں میں بییاں
اُونٹوں پہ زرد رنگ کجاوے لگے ہوئے
اک چارپائی بان کی‘ کیکر کی چھائوں میں
دیوار پر وہ سامنے اُپلے لگے ہوئے
مرمر سے جیسے تُرشا ہوا تھا تمام باغ
پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے
پوتوں‘ نواسیوں کے چمن زار! واہ واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم
دیوارِ دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے
دیکھا کریں گے اہلِ زمیں کو پس ازوفات
ہیں آسماں پہ ہجر دریچے لگے ہوئے
اس ریگزارِ درد میں احباب کا وجود
اس دھوپ میں ہیں چھائوں کے ٹکڑے لگے ہوئے
آگے حسابِ حشر مرے انتظار میں
پیچھے لحد کے گھور اندھیرے لگے ہوئے
یہ بحر و بر تھا کھیل فراق و وصال کا
تھے پانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہوئے
آج کا مقطع
میں نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو‘ ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی اُس کو وہیں رہنے دیا