تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-02-2018

نفس کی خوفناک عادات… (2)

جیسے جیسے انسان نفس کے طریقہ ہائے واردات کے بارے میں جانتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ آپ چار دن عبادت کر کے دیکھ لیں۔ یہ اپنے گرد تقدس کا ایک ہالہ کھینچ لیتا ہے۔ دوسرے سب لوگ، گانا سننے والے، عبادت نہ کرنے والے اور پردہ نہ کرنے والے اسے جہنمی نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ لوگوں کے نیک اور بد ہونے کا فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ جیسے ہی یہ زیادہ عبادت کرتا ہے، اپنے آپ سے اس کی محبت میں اس بنیاد پر اضافہ ہو جاتا ہے کہ بھائی، آج سے تو تمہاری شخصیت میں نیک ہونے کا حسن بھی شامل ہو گیا ہے۔ آپ زیادہ (بظاہر) مذہبی لوگوں کو دیکھیے، وہ فتوے ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں۔ کون شہید ہے اور کون مردود، یہ فیصلہ وہ کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کچھ حلقے سامنے آتے ہیں‘ جب وہ جلوس اور مظاہرے شروع کرتے ہیں اور جیسے ہی میڈیا ان کے انٹرویو نشر کرتا ہے، ساتھ ہی ان کے منہ سے مغلظات نکلنے لگتی ہے۔ ایسی ہی حالت میں ایک صاحب نے عبدالستار ایدھی کو بھی نہ بخشا تھا۔ یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ انسان کو ہر شخص گناہ گار اور بدکردار نظر آنے لگتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب یہ ''نیک‘‘ لوگ سیاست میں آتے ہیں تو power politics فوراً ہی نہیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ایک شخص، جس نے مذہبی حلیہ اختیار کیا ہوا ہو، خواہ وہ کتنا بڑا کرپٹ اور دہشت گردوں کا سرپرست کیوں نہ ہو، اس سے اتحاد کر کے اگر سیٹیں جیتی جا سکتی ہیں تو کیوں نہ جیتی جائیں؟ نفس یہ فریب دیتا ہے کہ ایک دفعہ اقتدار تو ملے، پھر اسلام نافذ کریں گے۔ آپ کا کرپٹ اتحادی نافذ کرنے دے گا؟
یہ نفس ساکن (Still) نہیں بلکہ اس کی قوت میں مسلسل کمی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کامیابی اسے پاگل کر دیتی ہے۔ اگر انسان تیزی سے کامیابیاں حاصل کرنے لگتا ہے تو اس کامیابی کا نشہ اس کی نفسیات میں اتر جاتا ہے۔ ہر بندے پر وہ چڑھائی شروع کر دیتا ہے۔ باز تب آتا ہے، جب لوگ جواباً پلٹ کر حملہ کرتے ہیں‘ پھر وہ محتاط ہو جاتا ہے۔ اس کی حسیات انتہائی تیز ہیں۔ بظاہر انتہائی سست نظر آنے والے شخص میں بھی یہ بجلی کی سی تیزی سے حملہ آور ہوتا ہے۔
یہ نفس ہے کیا؟ یہ انسان کی نیت ہے۔ نفس آخری حد تک خود غرض ہے۔ اسے صرف اپنے آپ سے محبت ہے یا اس چیز سے جو اپنی ذات سے منسوب ہو۔ انسان یا تو نفس کی عبادت کرتا ہے یا خدا کی عبادت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے اس نفس یا خواہش کو اپنا سب سے بڑا دشمن ڈکلئیر کر دیا ہے۔ اگر نیکی کا مقصد ریا کاری ہے اور لوگوں کی نظر میں خود کو نیک کہلوانے کی تسکین ہے‘ تو آپ دیکھ لیں کہ خدا بالکل بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ خواہ آپ زمین و آسمان کے برابر سونا لا کر بھی خرچ کر دیں‘ وہ حقارت سے اسے ٹھکرا دیتاہے۔ اس کے برعکس کبھی وہ ایک درہم، کھجوروں کے ایک خوشے کو یوں قبول کرتا ہے، جیسے اس سے قیمتی چیز کوئی نہ ہو۔ صرف اور صرف نیت کا فرق ایک چیز کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔ نفس میں چونکہ خود غرضی رکھی گئی ہے‘ اسی لیے اس پر قابو پا کر دوسروں کے لیے ایثار کرنے کوخدا نے عظیم نیکی ٹھہرایا ہے۔ مومن کی نشانی بتائی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے۔ پہلے خدا نے خود ہی نفس میں خود غرضی رکھی اور پھر ایثار کرنے والوں کی تحسین کی۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ یہ ٹرائل ہے، آزمائش ہے۔
پانچ برس پہلے کی بات ہے، اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ملک بھر میں اپنی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ میں اسلام آباد سے رحیم یار خان جا رہا تھا۔ ایک جگہ مظاہرین اکٹھے تھے۔ ایک دبلے پتلے سے نوجوان نے‘ ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے بس کو رکنے کا اشارہ کیا۔ کاش! میں آپ کو اس کی بدن بولی (Body Language) دکھا سکتا۔ بس یہی سمجھ لیں کہ مکمل طور پر وہ نشے میں تھا۔ یہ حقیقت میں ایک نشہ ہی ہوتا ہے۔ دماغ میں مخصوص کیمیکلز خارج ہو رہے ہوتے ہیں‘ انسان کو تسکین کا احساس ہو رہا ہوتا ہے۔
Teen age میں آپ سب لوگ اس سے گزرے ہوں گے۔ جب تیز موسیقی لگی ہو اور گاڑی تیز رفتاری سے چل رہی ہو‘ ایسے وقت میں نفس ایک تخیلاتی دنیا میں انسان کو لے جاتا ہے‘ جہاں وہ کارنامے سر انجام دے رہا ہوتا ہے مثلاً اکثر لڑکے یہ تصور کرتے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ ہو رہی ہے اور اس میں پاکستان کی طرف سے میں چھکے لگا رہا ہوں یا وکٹیں اڑا رہا ہوں؛ حالانکہ دماغ کو معلو م ہوتاہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اس کے باوجود دماغ کو اس تخیل سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ دماغ بالخصوص اس طرح کی صورتِ حال (Situations) کا تخیل کرتا ہے، جس میں وہ اپنے آپ کو عظیم مشکلات اور تکلیف میں انتہائی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جب وہ خود کو تکلیف میں ہونے کا تصور کرتا ہے تو اس میں خود ترحمی کی جبلت پھڑک اٹھتی ہے۔ جب وہ یہ سوچتا ہے کہ میں تکلیف میں ہوں اور خوبصورت خواتین مجھے دیکھ رہی ہیں تو مخالف جنس کی کشش کی جبلت خود ترحمی کی جبلت کے ساتھ تعامل کر جاتی ہے۔ انسان تقریباً پاگل ہو جاتا ہے۔ بالخصوص انسان ان لوگوں کو اپنی طرف مسحورکن نظروں سے دیکھنے کا تخیل کرتا ہے، جو کہ بہت خوبصورت، ذہین اور انتہائی زبردست شخصیت کے مالک ہوں۔ جب کہ ڈھیلے ڈھالے، کمزور اور بدصورت لوگوں کا تخیل کبھی بھی نہیں آتا۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ انسان کی ساری ذہانت ایسے تصورات پیدا کر کے اسے لذت پہنچانے میں استعمال ہوتی ہے، جن کے بارے میں خود اسے بھی معلوم ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ اس کے باوجود ایسی مصنوعی situations کا سوچ کر اگر وہ خود کو لذت پہنچا رہا ہے تو پھر اگر حقیقت میں وہ کسی ایسی صورتِ حال سے گزرے، جس میں وہ سب پر غالب (Dominant) ثابت ہو تو اس کی نفسیات پر کس قدر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔ میں نے زندگی میں ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، جنہوں نے قتل کر دیا ہو یا لڑائی جھگڑے میں کسی کی زبردست پٹائی کی ہو۔ کئی سال‘ یا ہو سکتا ہے کہ ساری عمر کے لیے اب وہ کسی کام کے نہیں۔ اب لوگوں نے ایک دفعہ انہیں غالب تسلیم کر لیا ہے۔ اب جب تک ان کی ٹھیک ٹھاک دھلائی نہ ہو اور جب تک حالات کا جبر انہیں عقل سے کام لینے، rational بننے پر مجبور نہ کر دے، تب تک آپ انہیں نیم پاگل ہی سمجھیے۔
حتیٰ کہ یہ خیال اور یہ تصور کہ میں نے نفس کو سمجھ لیا ہے اور لوگ اس بات پر میری ستائش کریں گے، یہ بھی نفس کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے آپ سے کہا نا کہ ہم جائیں تو جائیں کہاں۔ دشمن ہمارے دماغ کے اندر چھپا ہوا ہے۔
ہاں! اگر کوئی چیز انسان کو تباہی کے اس راستے پر بگٹٹ دوڑنے سے بچا سکتی ہے تو وہ عقل ہے، علم ہے، غور و فکر ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی مدد ہے۔ اس کے بغیر کوئی باکسر، کوئی علامہ اور کوئی عظیم سیاستدان بھی نفس کی غلامی سے بچ نہیں سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved