تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-02-2018

میلے سے ادبی میلے تک

میں نے زندگی میں پہلا میلہ کب دیکھا؟ مجھے سن تو یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میں اتنا چھوٹا تھا کہ ابّاجی کے ویسپا سکوٹر پر آگے ان کے پائوں والی بریک کی جگہ‘ جو سکوٹر کے ہینڈل اور سیٹ کے درمیان تھی‘ کھڑا ہوتا تھا۔ یہ بھی اس لئے یاد ہے کہ پچھلی سیٹ پر چچا جلال مرحوم بیٹھا ہوا تھا۔ چچا جلال بھی ایک یادگار کریکٹر تھا۔ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارے اکلوتے چچا عبدالرئوف کا گھر تھا۔ ان کا گھر گلی کی نکڑ پر تھا۔ سامنے والی دوسری نکڑ پر چچا جلال کی دودھ دہی کی دکان تھی۔ تیز طراز اور زندگی سے بھرپور چچا جلال انتہائی شرارتی اور زندہ دل تھا۔ شریف ایسا کہ گلی محلے کی کسی لڑکی یا خاتون کو سر اٹھا کر نہ دیکھتا، گلی چھوڑ کر پورے محلے کے گھر والوں کو اس پر بھروسہ ایسا کہ جلال کے ہوتے ہوئے کسی کو فکر نہ تھی کہ کوئی آوارہ اوباش محلے سے گزر سکتا ہے۔ اباجی کے بیٹوں کی مانند تھا لیکن ہم سب بہن بھائی، کزن اور محلے کے دوسرے لڑکے سب اسے چچا جلال کہتے تھے۔ بڑے بھائی طارق نے ایک بار اسے جلال کہہ کر پکارا تو اباجی نے اسے ڈانٹ پلا دی۔ تب رشتے خون سے زیادہ احترام اور محبت کے تابع تھے۔ سب لوگ ان رشتوں سے جڑے ہوئے حقوق و فرائض سے آگاہ تھے اور اس پر عمل پیرا بھی۔ چچا جلال کسی کو ڈانٹ لیتا یا باقاعدہ تھپڑ وغیرہ لگا دیتا تو اول تو گھر جاکر شکایت کی جرأت نہ ہوتی کہ اپنی کسی نہ کسی غلطی پر ہی یہ ہوا ہوتا تھا اور بالفرض شکایت کرتے تو الٹا ڈانٹ پڑتی کہ آخر کوئی بات تو ہوگی جو چچا جلال نے تھپڑ مارا‘ وہ بلاوجہ بھلا کیوں مارے گا؟ یہ حق تو خیر چچا جلال کے علاوہ محلے کے ہر ''چچا‘‘ کو حاصل تھا۔ چچا جلال کو کوئی خاص فوقیت حاصل نہ تھی۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ قصور میرا نہیں‘ میں جب ماضی کا قصہ شروع کرتا ہوں تو یادیں بہک کر ادھر ادھر چلی جاتی ہیں۔ بات ہو رہی تھی پہلے میلے کی۔ یہ بیساکھی کا میلہ تھا اور ملتان شہر سے باہر لگا ہوا تھا۔ اس میلے پر جانے کا محرک بھی چچا جلال تھا۔ اباجی سے کہنے لگا: خان صاحب! آج رات بیساکھی کے میلے پر چلیں گے‘ میں دکان جلد بند کر لوں گا۔ ویسے دکان بند کرنا اس کا صوابدیدی اختیار تھا۔ دہی اس کا صبح ہی صبح ختم ہو جاتا تھا۔ ایسا شاندار دہی بہت کم کھانے کو ملا ہو گا۔ وہ دکان کے اندر ہی رہتا تھا کبھی کبھار وہ اپنے گھر‘ جو شہر سے تھوڑا باہر (اب وہ جگہ شہر کا حصہ ہے بلکہ کئی عشرے پہلے شہر میں شامل ہو چکی ہے) چوک شاہ عباسی کے ساتھ سورج کنڈ کے نزدیک تھا‘ چلا جاتا۔ اس کی بہن کا گھر اس کی دکان سے سوگز کے فاصلے پر تھا مگر وہ ادھر صرف ملنے کیلئے کبھی کبھار جاتا‘ ڈیرہ دکان میں ہی تھا۔
دودھ کو کاڑھنا اس کے نزدیک ایک کمرشل کام نہیں بلکہ دلار کا کام تھا۔ دودھ تو سرِشام ہی ختم ہو جاتا۔ دکان دھو دھلا کر صرف کرنے کے بعد وہ کڑاہی اٹھا لیتا، پھٹے سمیٹ لیتا، بینچ اندر رکھ دیتا‘ بس دروازہ کھلا رکھتا۔ جب جی چاہتا دروازہ بند کر لیتا‘ اور اس کی دکان باضابطہ طور پر بند ہو جاتی۔ اس شام اس نے اپنی دکان سرشام بند کر دی۔ میلے پر جانے کیلئے وہ باقاعدہ اہتمام کرتا تھا۔ کالا ریشمی کرتا‘ جس پر پیلے دھاگے سے کڑھائی ہوئی تھی‘ پہنتا۔ نیچے جھنگ سے آیا ہوا رنگدار خانوں والا لاچا‘ جس کے کناروں پر دوسرے رنگ کا بارڈر تھا‘ پہنتا، لیکن اس روز اس نے سارے سادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ درج بالا اہتمام تب کرتا جب اباجی اسے ہم سب بچوں کا انچارج بنا کر میلے پر ہمارے ہمراہ بھیجتے تھے۔ ابا جی کے ساتھ وہ شریفانہ میلے میں گیا تھا، اس کے اس رنگین لاچے کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر میں نے بھی ایسے ہی لاچے کی فرمائش کی۔ میں تب بمشکل آٹھ نو سال کا تھا۔ تب چاچا محمد دین پٹواری کو کہہ کر‘ جن کی چادروں اور تہبندوں کی دکان تھی‘ میرے سائز کا رنگین لاچا منگوا لیا گیا۔ اندر سے سرخ رنگ کی ڈبیوں اور خانوں والے اس لاچے کا بارڈر سبز رنگ کا تھا۔ چند دن بعد جب میں یہ لاچا پہن کر گلی میں گھوم رہا تھا‘ میری اپنے ہم عمر بچے سے لڑائی ہوگئی۔ کسی نہ کسی بچے سے لڑائی ہو جانا میرا روزانہ کا معمول تھا۔ ناک منہ کا سوجنا بھی کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔ عام طور پر لڑائی میں ہی مول لیتا تھا مگر گھر واپس آتا تو اللہ بخشے اماں ددو (میری پھوپھی) گرم کپڑے سے سینکائی کرتیں‘ اور دوسرے بچے کو برا بھلا کہتیں۔ اس روز لڑائی کے دوران میرا لاچا کھل کر گر گیا۔ میں نے لڑائی جاری رکھی اور دوسرے بچے کی خاصی ٹھکائی کی کہ لاچا کھلنے سے میری بے عزتی ہوگئی تھی اور اس کا بدلہ لینا ضروری تھا۔ یہ آخری دن تھا جب میں نے لاچا باندھا۔ اس کے بعد زندگی بھر دوبارہ لاچا باندھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
مجھے اب یاد نہیں لیکن گمان ہے کہ بیساکھی کا میلہ سورج میانی والی سائڈ پر تھا اور شہر سے خاصا دور لگتا تھا۔ اب یہ بھی شہر کا حصہ ہے۔ ابا جی اپنے سن 63ء ماڈل والے ویسپا پر تھے۔ پیچھے چچا جلال اور آگے میں تھا۔ رات کے وقت سکوٹر کی ہیڈلائٹ کی روشنی میں ایک کالی سی چیز آگے سے گزری۔ میں نے پوچھا؛ یہ کیا ہے؟ چچا جلال نے کہا: یہ ''جھاڑی چوہا‘‘ ہے۔ میں نے تب تک کبھی ''جھاڑی چوہا‘‘ نہیں دیکھا تھا۔ چچا جلال نے نیچے اتر کر اس کو گھیر لیا اور اپنے کندھے پر پڑے ہوئے ''پرنے‘‘ سے دبوچ لیا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کانٹوں والا چوہا دیکھا۔ اس روز میں نے اور بہت سی چیزیں پہلی بار دیکھیں۔ موت کا کنواں‘ ٹیڑھے میڑھے آئینوں میں الٹی سیدھی شکلیں، جالی والے ڈبوں میں بند جانوروں پر مشتمل چڑیا گھر، پانچ ٹانگوں والا بچھڑااور اسی طرح کی چیزیں، پھر ذرا بڑا ہوا تو رسال شاہ شمس کا میلہ دیکھنا ایک بہت بڑی تفریح اور عیاشی تھی۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ شاہ شمس کے میلے والا میدان ہی ختم ہو گیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی سب کچھ نگل گئی۔
گزشتہ دنوں ملتان میں دوسرا ادبی میلہ تھا۔ میرے بچپن کے میلوں سے بالکل مختلف، مصطفیٰ انور یہ میلہ سجاتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ایک خوبصورت کاوش تو ہے مگر اس میں میلے والی بات نہیں۔ اصل میں میری جنریشن نے جو میلے دیکھے ہیں اور میلے کے بارے جو ہمارا تصور ہے یہ میلہ ویسا نہیں تھا۔ نئی نسل کے نزدیک یہی میلہ تھا، لیکن نہ لائوڈ سپیکروں پر کان پھاڑ دینے والی آواز والے گانے‘ ہر سٹال پر مختلف گانے اور شور ایسا کہ کوئی گانا بھی سنائی نہ دے رہا ہو۔ نہ گڑ والی جلیبیاں، نہ مکھیوں بھری مٹھائی، نہ سرکس اور نہ موت کا کنواں، انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے ہال میں ایک تقریب سے اس کا آغاز ہوا، اس کے بعد جناح آڈیٹوریم کے باہر مقامی دستکاریوں کی نمائش کا افتتاح تھا۔ یہ افتتاح ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین نے کیا۔ پنڈال میں نیشنل بک فائونڈیشن نے ''شہرِ کتاب‘‘ سجا رکھا تھا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سربراہی میں اس ادارے نے حیران کن ترقی دکھائی ہے۔ اس پر کبھی پھر سہی۔ مٹی کے برتنوں کی تیاری، چاک پر ڈھلتے مٹی کے ظروف، اونٹ کی ہڈی کی مصنوعات، اونٹ کی کھال کے گلدانوں پر بنتے رنگدار ڈیزائن، ملتانی کھسے، کڑھائی اور ملتان کی پہچان نیلی ٹائلوں اور برتنوں پر بنے بیل بوٹے اور نقش و نگار، سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ مٹتی ہوئی دستکاریاں اور ختم ہوتی ہوئی ثقافت کی نشانیاں، سب چیزوں کو کمرشل ازم کھا رہا ہے۔ نئی نسل کو برانڈڈ مصنوعات کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی۔
آخری سے پہلے سٹال پر دو ہانڈیاں تھیں اور توے پر مکئی کی روٹی پک رہی تھی۔ میں وہیں رُک گیا۔ مجھے یقین تھا کہ ایک ہانڈی میں سرسوں کا ساگ ہوگا۔ میرا یقین سچ ثابت ہوا۔ دوسری ہانڈی میں ملتان کی سوغات ''سوہانجنا‘‘ تھا۔ جنوبی پنجاب سے باہر والے اس سوغات سے آگاہ نہیں۔ میں نے خاتون سے کہا کہ کیا یہ کھانے کیلئے مل سکتا ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ ایک پلیٹ میں سرسوں کا ساگ ڈلوایا اور توے سے اترتی ہوئی مکئی کی روٹی کھانا شروع کی۔ خاتون نے ایک ڈبے سے دیسی مکھن نکال کر ساگ میں ڈالا اور تھوڑا سا روٹی پر رکھ دیا۔ دو گھنٹے بعد میں نے داڑھ نکلوانی تھی۔ اگلے روز کھانے کا پروگرام داڑھ نکلوانے کے طفیل کینسل ہوگیا۔ دو دن ہوتے ہیں اس ساگ کا ذائقہ ابھی تک زبان پر محسوس ہو رہا ہے۔ اس ساگ کے لئے اب ایک سال انتظار کرنا ہوگا۔ بشرطِ زندگی۔ دنیا امید پر قائم ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved