تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-02-2018

کشکول بردار

جہاں بانی‘ آخر کو جہاں گردی ہے بلکہ ذلت و رسوائی۔ پھر وہ عبرت کا نشان کیوں نہ بنیں‘ جو بھکاریوں کے سامنے کشکول بردار کھڑے رہتے ہوں۔
کبھی کبھی جی چاہتا ہے‘ اپنے عہد کے کشکول زادوں کی روداد لکھوں۔ بادشاہوں اور درباریوں کی!
وزیراعظم کے فرزند نسبتی کو جس نے رلا دیا‘ ریاض حسین پیرزادہ کو‘ جس نے رلا دیا‘ آج عدالت نے اس سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟
ناچیز سے‘ نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے بیان کیا: 1993ء کی انتخابی مہم کے ہنگام خواجہ طارق رحیم نگران گورنر اور مرحومہ پیپلز پارٹی کے مرحوم جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرمایا: الیکشن کی فکر نہ کیجئے گا۔ بیس ہزار ووٹ‘ پہلے سے‘ آپ کے ڈبّوں میں ڈال دیئے جائیں گے۔ وہ آدمی حیرت زدہ رہ گیا‘ جو سر تا پا سیاستدان تھا۔ زمانے کے رنگ میں مگر رنگا جانے والا نہ تھا۔ ایسا وضع دار کہ جوانی میں جو رومی ٹوپی پہنی‘ آخری شام تک پہنے رکھی۔
کہا: بزرگ فرمایا کرتے تھے‘ خدا انجام بخیر کرے۔ براہِ کرم میرا انجام خراب نہ کیجئے۔ نواب زادہ‘ یہ الیکشن ہار گئے مگر اللہ نے ان کا انجام اچھا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اشارے پر‘ ماڈل ٹائون لاہور میں خریدا گیا‘ ایک پلاٹ‘ سوسائٹی نے ان کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تین عشرے مقدمہ چلتا رہا۔ بھٹو کی صاحبزادی ان کا بے حد اکرام کرتیں۔ بے حد ان سے مرعوب تھیں۔ چاہتے تو بے نظیر کے عہد میں مقدمہ جلد فیصل ہو جاتا۔ انتظار کرتے رہے۔
آخری برسوں میں قرض پہ جی رہے تھے۔ جس آدمی کے پاس 1952ء میں چھ عدد گاڑیوں کا فلیٹ تھا‘ مانگے کی اب ایک کار تھی۔ ادھار چکایا اور لندن کا رخ کیا۔ بے نظیر بھٹو کو واپسی کی تلقین کی۔ وہاں سے جدّہ پہنچے اور میاں محمد نواز شریف کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔ عمرہ کیا اور اپنی جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کرنے گھر لوٹ آئے۔ مرحوم کا ایک شعر یہ ہے:
اپنی شادابیٔ غم کا مجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
اور دوسرا یہ:
یہ تم نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں
ہمیں تو ٹھوکریں کھاتے ہوئے جانا‘ مگر جانا
مرحوم مجید نظامی سمیت‘ نون لیگ کے حامیوں نے اسی جوش و خروش کے ساتھ‘ ان کی کردارکشی کی‘ جس طرح آج کل جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس جاوید اقبال کی کرتے ہیں۔ چٹان کی طرح مضبوط ارادے کے آدمی‘ ان پہ کیا اثر ہوتا۔ جس دھج سے جیے تھے‘ اسی دھج سے جیتے رہے۔
ہزار دام سے نکلا ہوں‘ ایک جنبش میں
جسے غرور ہو‘ آئے کرے شکار مجھے
اللہ کے آخری رسولؐ‘ ایک دعا تعلیم کیا کرتے تھے: اَللّہم اَحسَن عَاقبتنَا فِی الاَمُورِ کُلّہَا، وَاجِرنا مِن خِزِی الدّنیا وَالعَذَابِ الآخِرۃ۔( اے اللہ‘ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر‘ دنیا میں خوار و زبوں ہونے سے اور آخرت میں عذاب سے محفوظ رکھ۔) فرمایا: جو شخص‘ یہ دعا پڑھ کر کسی کام کا آغاز کرے گا‘ کبھی ناکام نہ ہوگا۔
اس دنیا میں سب سے بڑی نعمت تو یہی ٹھہری ہے کہ آدمی رسوائی سے بچا رہے۔
بارہ سو برس ہوتے ہیں۔ بغداد کے صوفی نے کہا تھا:
عافیت گمنامی میں ہوتی ہے
گمنامی نہ ہو تو خاموشی میں
خاموشی نہ ہو تو تنہائی میں
اور تنہائی نہ ہو توصحبتِ سعید میں
آدمیت کی پوری تاریخ‘ ان لوگوں کے ذکر سے بھری ہے‘ درباروں کی وابستگی میں‘ جنہوں نے عافیت تلاش کرنے کی کوشش کی اور ناکام و نامراد ٹھہرے۔
اسد اللہ خان غالبؔ نے بھی بہادر شاہ ظفر کا قصیدہ لکھا۔ ان کے درباری شاعر تاہم ذوقؔ تھے‘ استاد ابراہیم ذوق۔ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ ایک دن گرامی قدر استاد کو انہوں نے آزردہ پایا۔ مشق سخن کے سوا‘ تقریباً تمام وقت جو اوراد و وظائف میں صرف کر دیا کرتے۔ سامنے کے گھر میں ایک کمہار رہا کرتا تھا۔ ایک بار اس نے دعا کو کہا تو عمر بھر اس کا التزام کیا۔ چھوٹے سے صحن یا گلی میں ٹہلتے رہتے اور تسبیح رولتے رہتے۔بولے: آج بادشاہ نے مجھ سے کہا: اس خیال سے کوفت ہے کہ میرے بعد‘ تم دوسروں کی مدح کرو گے۔ شاعر نے جواب دیا: جہاں پناہ خیمے سے پہلے طنابیں گر جایا کرتی ہیں۔ شاگرد سے کہا: عمر بھر ان کے لیے دعا کرتا رہا... یہ لوگ کسی کے نہیں ہوتے۔
سالہا سال بیت چکے‘ اس فقیر سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک بار جس نے کہا تھا: دوّنی چوّنی کبھی اللہ سے نہ مانگنا‘ ہمیشہ فراوانی اور سب کے لیے۔ دنیا داروں سے کبھی عزت طلب نہ کرنا۔ اس لیے کہ العزت للہ جمیعاً۔( ساری کی ساری عزت اللہ کی ہے۔) بندوں میں سے‘ اس کو دیتا ہے‘ جو مالک ہی سے طلب کرے۔
لیڈروں سے لوگ جڑتے ہیں اور امید پالتے ہیں کہ توقیر پائیں گے۔ بالکل نہیں‘ لیڈر تو خود بھکاری ہیں۔ آج تک‘ ان میں سے کسی کو خورسند نہ پایا۔ ان کی مسرتیں ادھوری ہوتی ہیں‘ سطحی اور چھدری۔ اقتدار میں ہوں تو خوف زدہ۔ اقتدار کی جستجو میں ہوں تو کشکول بردار‘ حتیٰ کہ جن مذہبی شخصیات نے خلقِ خدا میں پذیرائی کی آرزو پالی ‘ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ 
اقبالؔ کی نظم ایک بار پھر پڑھیے۔
میکدے میں کل ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے‘ کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے رنگیں قبا
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹّی ہے‘ اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے مردِ غریب و بے نوا
مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
چودہ برس ہوتے ہیں‘ منیٰ میں قیام کے دوران علماء کے ایک وفد نے میاں محمد نواز شریف کے سرور محل کا قصد کیا۔ مجھ سے کہا: تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ عرض کیا: کیا آپ نے کبھی کسی گداگر کو کسی دوسرے گداگر سے مانگتے دیکھا ہے۔ اللہ کے دربار میں‘ ہم سب بھکاری ہیں۔ اللہ غنی وانتم فقرا۔( تم سب محتاج ہو اور اللہ غنی ہے۔) اقبالؔ کی اس مشہور رباعی میں‘ اسی آیت کی گونج سنائی دیتی ہے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر/روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسابم را تو بینی ناگزیر/ازنگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
مالک‘ دو جہان سے تو بے نیاز ہے۔ روزِ محشر میری خطائوں سے صرفِ نظر فرمانا۔ حساب لینے کا اگر تو فیصلہ ہی کرے۔ اگر یہ ناگزیر ہو تو مصطفیؐ کی نگاہ سے مجھے پوشیدہ رکھنا۔ جناب احمد جاوید سے‘ ان کے گرامی قدر استاد نے ایک بار کہا تھا: کبھی‘ کچھ دیر کے لیے قرآن کریم کو حدیث سمجھ کر پڑھا کرو‘ یعنی اس طرح کہ گویا اللہ کے رسولؐ کی زبان سے سن رہے ہو۔
زمین کی پستیوں سے آدمی اٹھتا اور فلک کی رفعت کو چھو لیتا ہے۔ یونہی یہ شعر احمد جاوید پہ نازل نہ ہو گیا تھا۔
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم‘ مثلاً جہاں بانی سے ہم
جہاں بانی‘ آخر کو جہاں گردی ہے بلکہ ذلت و رسوائی۔ پھر وہ عبرت کا نشان کیوں نہ بنیں‘ جو بھکاریوں کے سامنے کشکول بردار کھڑے رہتے ہوں۔
کبھی کبھی جی چاہتا ہے‘ اپنے عہد کے کشکول زادوں کی روداد لکھوں۔ بادشاہوں اور درباریوں کی!
پسِ تحریر: پاکستانی پابلو نیرودا نے کہا تھا: نوّے فیصد اخبار نویس بے غیرت ہیں اور پرلے درجے کے بے غیرت۔ نواز شریف کے بھائی نہیں‘ آج گنتی کے چند اخبار نویس ہی موصوف کے مددگار ہیں۔ بھائی تو دودھ پینے والے مجنوں نکلے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved